استنبول کے مذاکرات ناکام ہوگئے تو بھی پاکستان و افغانستان کی جنگ میں نظر آنا ہے، وزیر defence خواجہ آصف نے بات چیت کا نتیجہ ختم کرنے کا اعلان کیا
پاکستان و افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں شروع ہوگا، یہاں دو رکنی وفد پاکستان کی طرف سے شریک ہوگا، جس میں وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب کا بھی حصہ ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان کی Side کو ناکام مذاکرات کے بعد جنگ کی تلاش تھی اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے یہ بات سیالکوٹ میں اسپتال کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں دھماکہ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ ہونا پڑے گا اگر مذاکرات ختم ہوجائیں تو وہ صرف امن کی آواز سُن کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایسا نہیں ملے گا۔
دوسری جانب اس بات پر یقین ہوگئی ہے کہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد دونوں ملکوں نےFaloo Up آجلوس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق ممکن ہوسکے گی۔
مذاکرات میں پاکستان نے ان تمام Points پر رکاوٹ دی جہاں وہ بھاگتے تھے، لیکن افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کو اس معاہدے پر دستخط کرنے میں پھررنا نہیں آیا۔
تو وہ مذاکرات ناکام ہوگئے تو انھیں جنگ کا ترانہ سننا پڑتا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف کی بات سے بے حد متفق ہوں، اس کے بعد وہ صرف امن کی آواز سُن کر رہے تھے تو اب انھیں جنگ کی عذری کا پہنا پڑتا ہے
لگتا ہے کہ افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کو ایسا لگ رہا ہو گا کہ وہ کبھی تو کچھ بھی نہیں کرتے، مذاکرات میں آنے سے پہلے بھی انھوں نے کیے گئے خطوط میں ایسا محسوس ہوتا رہا ہے، لاکہ وہ اب کیسے کبھی تو کچھ نہیں کرتے?
استنبول کے مذاکرات ناکام ہوگئے تو بھی یہ بات واضح ہے کہ جنگ کی آواز اب بھیPakistan میں زیادہ سنی جارہی ہے،وزیر Defence خواجہ آصف کی بات سیالکوٹ میں اسپتال کے دورے پر اسی بات کی تکرار کر رہے ہیں کہ اگر مذاکرات ختم ہو جائیں تو وہ صرف امن کی آواز سے بھرپور کچھ نہیں ہیں،ایسا کرنے والے کے ذہن میں کبھی پاکستان کو جنگ اور اس کے نتیجے کی بات نہیں آئی تھی۔
اس ناکام مذاکرات کا مطلب تو واضح ہے کہ دو طرف جب تک مذاکرات مڈھم میں رہتے ہیں تو یہ جنگ کی تلاش پر فokus رکھتے ہیں اور اس کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ چیلنج کرنا ہوتا ہے۔
دوسری جانب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان سب کے پاس ایک ناکام مذاکرات کی فہرست ہے اور ابھی اس کی دوسری تعداد نکلنے والی ہے۔
اس بات پر توجہ دینا ضروری ہوگا کہ یہ مذاکرات کون سے لوگ ہاتھ سے اٹھانے جارہے ہیں اور ایک دوسرے کی جانب سے بھی اس طرح کے معاہدے پر دستخط کرنے کو کے لیے تैयار ہو رہے ہیں؟
اس لئے یہ بات تو واضح ہے کہ اس ناکام مذاکرات کی سیریز میں کیا ہوا گا، اور کس طرح دو طرف اس معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار ہو رہی ہیں؟
بے شک اس بات پر کسی کی رائے نہیں ہوگی کہ وہ فریقین کس طرح آگے بڑھتے ہیں اور کس طرح اپنی رائے کو اظہار کرتے ہیں، اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا، لیکن ایک چیٹ جو اس میں دخل ہے وہ یہ ہے کہ پہلے تو دوسرے ساتھ بھاگنا مشکل تھا پھر ایسی صورت حال نہیں آئی جس پر دونوں کو ایک دوسرے کی جانب مبذول ہونا پڑا، اس وقت تک کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف کوئی رائے نہیں اور وہ دونوں بے پناہ دوسرے کی طرف اپنی بے آمانت کو ظاہر کرتے ہوئے گھومتے ہیں، مگر اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ان دونوں کی جانب سے جنگ کیا جا سکta ہے یا اس میں ایک فریق کو تھوڑا بھی آدمی رکھنا پڑتا ہے، یہ بات تو واضح ہو چکی ہے
یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ مذاکرات ختم ہوگئے اور اب جنگ کی نظر آنے لگی ہے. پAKستان کو ان سب کچھ سے نکلنا پڑے گا جس پر وہ چٹکا دیا تھا۔ لیکن یہ بات بھی یقینی نہیں کہ جنگ ہوگی اور اس کے لئے کوئی prepared نہیں ہے.
میں سمجھتا ہoon کہ پAKستان میں لوگ دوسرے سے الگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے، لیکن جنگ کا عرصہ اس گھرانے میں بھی اس سے باہر ہوگا.
میں خواہش کرta hoon کہ وہ لوگ جنہیں یہ بات بتا رہا ہے وہ خود سمجھ جائیں کہ جنگ کی نہیں آنے والی ہے.
تمام انصاف ہو گئے اور واضح ہو گیا کہ ایسا نہیں ہوسکta گیا۔ مذاکرات کے بعد اس پر بات چیت کا نتیجہ ختم کرنے کا اعلان کیا گya ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے میڈیا کی پوسٹنگوں پر دیکھنا تھا جس سے پاکستان کو اس معاملے میں اچانک متعین نہیں لگ رہا اور واضح ہونے کے باوجود یہ بات تھی کہ اس پر ایک دوسرے کی طرف بھی کچھ دیر میں جواب ملا ہو گا۔
مذاکرات ناکام ہونے کی بڑی بد news ہے، اب جنگ کا خوف ہی دیکھنا پڈتا ہے । وزیر Defense خواجہ محمد آصف کی بات تو صریح تھی، انہوں نے بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا ، اب کہیں سے ایک جانب جاننا پڈتا ہے کہ مذاکرات ختم ہونے پر جنگ ہونا پڈ گی۔
نکاوت کی وجہ سے وہ بھی ناکام ہوگئے، اب کہیں اس گولیاں کی طرف جاننا پڈتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے ان میں ایک سے زیادہ فائرنگ ہوجائیگی۔
ایسے لگتا ہے کیوں کے ان لوگوں نے آم سے بات چیت نہ کرنے کی کوشش کی؟ پھر بھی دوسری جانب تو ایک وارننگ دی گئی تھی، مگر اس پر بھی انہوں نے جواب نہیں دیا! اب یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ جنگ کی بات چیت کرنے کے بعد تو ایک اور چارچٹ آگئی تو? یہ سب کچھ نہ تو سوچنا تھا، نہ تو سمجھنا تھا۔ اب ساتھ ہی ساتھ جنگ کی پھوبنے کا بھی انہوں نے کیا ہے۔
اس مذاکرات کا انساف بھی ہوگا، لیکن یہاں بھی ایسا لگتا ہے جیسے دونوں طرفوں نے صرف بات چیت کی آواز سُنا ہو۔ اس کے بعد آتے دو سال میں کیا فائدہ ہوا گا؟ اس لئے کہ ان مذاکرات میں بھی افغانستان کے وزیر دفاع نے ایسا پہلاں ہی کیا تھا، جیسا کہ شہزادہ محمد زین الحاشم نے 1996ء میں کیا تھا اور وہاں کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
ان مذاکرات کا تعلق ایسے ہٹو پھیلو کے ساتھ ہوگا جیسا کہ اس کے ساتھ 1996ء کی بات دھیماں دھیمی تھی اور اس کی نتیجہ ایسا ہی ہو گا۔
ان مذاکرات میں بھی افغانستان کے وزیر دفاع نے ایک بار پھر اپنے ملک کو دیکھنا تھا جیسا کہ اس کی صدر حامد کرزائے نے 1998ء میں کیا تھا، اور وہاں کی نتیجہ ایسا ہی رہا۔
اس لئے یہ بات بھی نہیں ہو سکتی ہے کہ افغانستان کے وزیر دفاع نے ان مذاکرات میں اپنے ملک کی مصلحت کا خیال رکھا، جیسا کہ اس لئے نہیں کہ وہاں 1998ء میں ایسا ہی ہوا تھا اور 1998ء میں نتیجہ بھی ایسا ہی رہا۔
اس لئے یہ بات بھی نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ ان مذاکرات میں اپنے ملک کی مصلحت کا خیال رکھنے کے لئے ایسا پہلے ہی ہوا تھا، جیسا کہ اس لئے نہیں کہ وہاں 1996ء میں ایسا ہی ہوا تھا اور 1998ء میں نتیجہ بھی ایسا ہی رہا، یا 2010ء میں اس کے بعد ہوا تھا جیسا کہ 2011ء میں نتیجہ بھی ایسا ہی رہا۔
اس مذاکرات کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایک سے دو روزوں میں پانچ سے چھ بار انہی دو ملکوں نے لڑائی میں حصہ لیا ہے، اس کی وجہ سے بھی مینے سوچا کہ کہیں انہوں نے بات چیت کی جگہ ایسی نہیں دی، اور اب انہوں نے یہ بات بھی پکڑ لی ہے کہ مگر اس مذاکرات سے جنگ کا امکانات کمزور ہوتے ہیں