اسلام آباد میں ایس پی عدیل اکبر کی پراسرار موت کو ایک بڑی بحالہ سمجھ کر دیکھ رہا ہے، جبکہ اس معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور آپریٹر نے اپنے بیان سے سرحدوں پر آگے بڑھ کر یہ بات سامنے لائی ہے کہ اس کے ساتھ کیا تعلق تھا۔
اس دौरے کے دوران، وفاقی پولیس کے افسر ایس پی عدیل اکبر کی موت پر تحقیقات کر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے بیان سے یہ بات سامنے لائے ہیں کہ وہ محفوظ مقام پر تھے، جب اس کو ایک فون کال موصول ہوئی اور انہوں نے ڈرائیور کو دفترِ خارجہ جانے کی ہدایت دی۔
اس کے بعد، وہ واپس آئے اور کچھ دیر بعد ایک تیسری کال موصول ہوئی جس کے بعد انھوں نے ایک نجی ہوٹل کے قریب رکے اور مجھ سے گن مانگی۔ میں نے احتیاطاً مگیزین نکال کر ان کی طرف بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھیں اور یہ پوچھیں کہ یہ گن چلتی ہے یا نہیں؟
انھوں نے بتایا کہ گولیاں موجود ہیں اور اس میں پچاس گولیاں ہیں، ان کی سے وہ مجھ کو مگیزین مانگی اور پوچھے کہ اس میں کتنی گولیاں موجود ہیں؟
حالیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کی موت پر جس دباؤ اور دھمکیوں کا تعلق تھا، وہ اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی پروموشن کے سلسلے میں ایک استحکم دیوان ہونے والے تھے، لیکن جب وہ محفوظ مقام پر تھے تو اس نے ایس پھر بھی وہی جانا جو کہ اپنی پروموشن کے لئے ہوتا ہو گا۔
اس دौरے میں انھوں نے کیسے مواقع موصول کیے، یہ جانتے بہت اچھی نہیں ہے، لیکن ایس پی عدیل اکبر کو وہ ہونے والے واقعات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی دیکھا تھا۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں ایس پی عدیل اکبر کی موت پر زور دیا جا رہا ہے، اس سے انھیں دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی اچھائی کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی، اگر وہ یہاں ہی نہ تھے تو انھوں نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا ہوتا؟
اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ایس پی عدیل اکبر کی موت ایک بڑا حیرانی کن واقعہ ہے اور اس معاملے میں تحقیقات جاری ہونے پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ وہ محفوظ مقام پر تھے، لیکن انھوں نے ایک تیسری کال موصول کی اور پچاس گولیاں موجود تھیں! یہ بات تو جانتے ہی بھرosa hai کس طرح وہ انھیں اپنی زندگی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے؟ اور اس معاملے میں آپریٹر نے بھی اپنا بیان سامنے لایا ہے جس سے سرحدوں پر آگے بڑھ کر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کیا تعلق تھا?
اس معاملے پر سोचتے ہوئے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ گولیاں بھی جال لگا رہی ہیں اور اس نے کبھی اپنی جان چھڑکائی بھی تھی؟ آج بھی محسوس کر رہا ہوں کہ آپریٹر کی بات سے ہارنے والے ہیں نہیں؟
اس پریشان کن حالات کو سمجھنا مشکل ہے، وہ یہ سب کچھ کیسے موصول کر رہے تھے اور ان کی جان کس طرح بھگتی؟ ایس پی عدیل اکبر ایک طاقتور شخص تھے جو اپنے ڈرائیور کو محفوظ مقام پر نہیں لے رہا تھا، وہ اسے انفراسٹریچر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس میں مگیزین مان رہے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ یہ گن چلتی ہے یا نہیں؟
جب بھی ایس پی عدیل اکبر کو خطرہ محسوس ہوتا، تو انھوں نے اپنی جان کی حفاظت کے لئے بے حد کوشش کی، جیسے کہ ڈرائیور کو دفترِ خارجہ جانے کی ہدایت کرنا یا ایک محفوظ مقام پر چھوٹا ہوجانا۔
اس کے بعد یہ پوچھنا مشکل ہے، ایس پی عدیل اکبر کی موت کی تصدیق کی گئی، لیکن انھوں نے اپنی جان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی اور جب وہ محفوظ مقام پر تھے تو انھوں نے ایسے ہی عملات موصول کیے جو کسی بھی ایس شخص کے لئے خطرناک ہوتے ہوں گے۔
اس دوسرے دن ایس پی عدیل اکبر کی موت پر توسیع ہوئی ہے اور جب تک یہ خبر سامنے آ رہی ہے تو اس کی دھمکیوں کا ایک بڑا حصہ سامنے آ رہا ہے، لیکن انھوں نے اپنی جان سونپ رکھنا کیا تھا؟ یہ بات دوسرے کو پوچھیں کہ جس مقام پر وہ محفوظ تھے اور اس کی موت کی گئی تواس میں کیا بھی ہوا؟
اس دौरے کے بعد میں پتہ چلا ہے کہ ایس پی عدیل اکبر نے اپنے ساتھ مگیزین لے کر گھر جانے کا منصوبہ بنایا تھا اور انھوں نے مجھے اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی ایسا ہی دیکھ چکے ہیں جیسا انھوں نے محفوظ مقام پر بھی دیکھا تھا، پھر انھوں نے مجھ سے مگیزین لے کر گھر جانے کی دعوت دی اور پھر وہاں میں موجود ہونے کے بعد انھوڨے پوچھا کہ یہ مگیزین چلتی ہے یا نہیں؟
میں نے انھیں بتایا کہ یہ مگیزین بہت زیادہ پراجیکٹ سے بھر پور تھی اور میں اسے انھیں چلا دیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ مگیزین میں کتنی گولیاں موجود ہیں؟
جیسا کہ آج تک جانتے تھے اور اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کی موت سے جڑے دباؤ اور دھمکیوں کا تعلق انھوں نے اپنی پروموشن کے لئے ایک استحکم دیوان ہونے والے تھے، اور جب وہ محفوظ مقام پر تھے تو اس نے ایس اچھی طرح سمجھ لیا کہ انھیں محفوظ رکھنا ہو گا۔
اس معاملے پر غور کرتے ہوئے، میرے لئے بھی یہ بات کافی جگہ لے رہی ہے کہ ڈرائیور کی جانب سے اس کی موت کا ایسے دھنڈوؤں اور چٹانوں کا جواب کیا جا سکتا ہے؟ یہ بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ گولیاں موجود تھیں اور ان میں پچاس گولیاں ہیں، لاکین وہ اپنی جان کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا؟
اس معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور آپریٹر نے اپنے بیان سے یہ بات سامنے لائی ہے کہ انھوں نے محفوظ مقام پر تھے، لیکن انھوں نے ایک فون کال موصول کی جس کے بعد انھوں نے مگیزین مانگی اور پوچھا کہ اس میں کتنی گولیاں موجود ہیں؟
یہ بات صاف نہیں ہے کہ انھوں نے مگیزین مان کر وہی گولیاں ہی دیکھیں، یہ بھی پتا چلے گا کہ انھوں نے کس کے سامنے اس شے کو موصول کیا تھا اور انھوں نے کیسے مواقع موصول کیے؟
اس معاملے میں زیادہ جانتے نہیں ہیں، لیکن اس بات پر ایسٹینشمنٹ کو توجہ دینا چاہئے کہ انھوں نے محفوظ مقام پر بھی وہی گولیاں دیکھیں، جو انھوں نے مگیزین مان کر دیکھیں تھیں؟
اس معاملے کو حل کرنے سے پہلے بہت سارے پوچھے جاوئے، یہ تو واضح ہے کہ اس کی موت کا پورے ملک پر دباؤ پڑا ہے اور اب اس معاملے میں تین چار گھنٹے لگ رہے ہیں، یہ تو ایس پی عدیل اکبر کی موت کے بعد بھی ملک کا دباؤ کم نہیں ہوتا?
اس معاملے میں تو ایس پی عدیل اکبر کی موت ایک بڑا بحالہ سمجھ کر دیکھ رہا ہے، لیکن کیا آپ سोचتے ہیں کہ اس معاملے میں کیا انصاف ہو گا؟ یہ بات بھی سوچنی چاہئیے کہ ایس پی عدیل اکبر کی موت کیسے ممکن ہوئی، اور وہ کیسے مواقع موصول کر رہے تھے؟
اس دौरے پر کئی سوال اٹھتے ہیں، مگر سب سے زیادہ توجہ اس وقت ملتی ہے جب انھوں نے مجھے گولیاں ماننیں اور پوچھیں کہ یہ گن چلتی ہے یا نہیں؟ واضح طور پر اس دौरے سے ہٹ کر، انھوں نے مجھے گولیاں دکھائیں اور پوچھا کہ یہ کتنی گولیاں موجود ہیں؟ مگر انھوں نے اس کے بعد یہ کہنا بھی نہیں، جس سے ایک بڑا सवाल پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کی کیا تاکید کر رہے تھے؟ یہ بات بالکل نامناسب ہے اور اس پر انھوں نے بہت سارے सवाल تھے جنھیں انھوں نے پوچھنا چاہئیے۔
اس معاملے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سچائی کی تلاش ہونا ہمیشہ انتہائی اچھی واقفیت کی بات ہوتی ہے، اور ایس پی عدیل اکبر کی موت پر تحقیقات جاری رہنی چاہئے تاہم اس معاملے میں بھی انھوں نے کیا کام کیا، یہ بات تھوڑی مشکل ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ موت تو غلطی سے نہیں ہوسکی ہے اور انھوں نے بھی اس کا کوئی بھی اہم مقام نہیں بنایا تاکہ یہ سچائی کے سامنے آ پہنچ سکے
اس دौरے کی پورتی کو بھی کچھ سوالات ہیں، جیسے آپ کیا ہوگا اِس حوالے سے آپریٹر نے یہ بتایا ہوگا کہ ایس پی عدیل اکبر کو پکڑنے سے پہلے وہ ہوٹل کھلنے والی Gunn سے مل گئے اور انھوں نے مجھ سے مگیزین مانا، یہ بھی کیا کہ اس میں پچاس گولیاں ہیں؟ آپ کو یہ بات بھی لگتی ہوگی کہ وہ کتنی فخر سے انھوں نے مجھ سے مگیزین مانا، حالانکہ اس جگہ پر گولیاں موجود تھیں اور ایس پی عدیل اکبر کو بھی ڈرائیور کی جانے کی ہدایت دی گئی تھی!
بہت دیر سے ہوئی ایس پی عدیل اکبر کی موت کے بعد، یہ بات سامنے لگی ہے کہ وہ محفوظ مقام پر تھا تاہم، میں سوچتا ہوں کہ انھیں کیا ہوتا تھا جس کی وہ اپنی پروموشن کے لئے دباؤتھے؟ ایک دوسرا اس بات کو یقینی بناتا ہو گا کہ وہ محفوظ مقام پر بھی ایس پھر ہی تھا جو اپنی پروموشن کے لئے تھا، نہایت دیر سے ہوئی بات یہ ہو گی، لیکن میں اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں کہ وہ انھیں کیا ہوا تھا جو انھوں نے اپنی زندگی میں دیکھا تھا، اور وہ محفوظ مقام پر اسے کیسے موصول کر رہے تھے، یہ سب ایک جسمانی مواقع کا تعلق ہو گا؟
اس بات پر بھی پیٹھا نہیں، ایس پی عدیل اکبر کی موت کو ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے، لیکن یہ بات سمجھنی چاہئے کہ وہ ہوئے واقعات کی پوری تاریخ جانتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ ایک تیسری کال موصول کرنے کے بعد اور بعد میں انھوں نے مجھ سے گن مانا تو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے۔
اس معاملے کو لینے کی بجائے، میرے ذہن میں ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ وہ دن کیسے گزرتے تھے جب ایس پی عدیل اکبر نے اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے یہ فیصلہ کیا تھا؟ اور ان کی موت سے بعد میں کیا ہو رہا ہے، جو کہ اس معاملے کو ایک ایسا ہیڈرون بن رہا ہے جس سے ہر کے دم پھننے لگتے ہیں؟