قِصّہِ یُوسف ؑ، آج کے معاشرے کا بے رحم آئینہ ۔ تحریر: نجیم شاہ

سورہ یوسف کہانی ایک ہے جو حقیقت کی سارھ جھوٹ پر اٹھتی ہے — مگر اسے ہم نے صرف ’’تربیت‘‘ کا حصہ بنایا ہے، ’’تلاوت‘‘ کے بجائے۔ یہ قصہ معاشرے کے زہریلے اور ڈھنگ لگے ہوئے حالات سے تعلق رکھتا ہے، جسے ہم نے اسے ’’کنویں‘‘ کا نام دیا ہے — جو اب ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ مگر ایک جھوٹ، ایک الزام، ایک سازش اور پھر قید یہی ہے جس سے ہم نے معاشرے کو آگاہ کیا ہے۔ وہی کہانی جو ہمارے معاشرے میں لاجو ہے، اور جسے ہم نے سمجھنا چاہئے، اس سے ہمیں نتیجہ ملتا ہے کہ ’’انسان‘‘ بننا سکتا ہے یا صرف مخلوق رہتے ہیں۔

حوالہ یوسفؑ کی کہانی ایک ہے جو نیت اور کردار پر زور دیتی ہے، جس سے ہمیں سمجھنے میں آئی۔ انصاف، معافی اور اس کے باوجود ہم بھگتنا چاہتے ہیں — اور یہی وہ حالات ہیں جس سے ہم نے اپنے معاشرے کو آگاہ کیا ہے۔

یہ کہانی صرف آرماروں، تہمتوں، اور دھکے کی نہیں — بلکہ اس سے سمجھنے میں آئی ہے کہ ’’انسان‘‘ بننا چاہتے ہیں؟ اور ’’مخلوق‘‘ رہتے ہیں؟ اس کے لیے ایک ہے واحد سلوک جسے ہم نہیں چاہتے — اس میں کوئی آرمار، تہمت یا دھکہ شامل نہیں۔

اس کہانی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ’’نوازی‘‘ اور ’’تنگزین‘‘ دو مختلف چیز ہیں — ایک سلوک، اور دوسرے سے نہیں ملتا۔ ایسے لوگوں کو جو اپنے دُخاں و زخموں کو دیکھتے ہیں اور ایسے کے سامنے بھگتنا چاہتے ہیں، ان کی یقین رکھنی ضروری نہیں۔

دونوں جہتوں کو سمجھنا چاہئے — ایک جس سے ایک اور جسے نہیں ملتا۔ یہی وہ کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ’’انسان‘‘ بننا سکتا ہے یا صرف مخلوق رہتے ہیں۔
 
سورہ یوسف کہانی تو بھی ایک اچھی ہے۔ میری Opinion میں یہ کہانی ہمیں پہلی بار ایسے لوگوں کی کھیڑیوں سے نجات ملنے والی بھی لگتی ہے جن کی آرماریوں اور تہمتوں سے ناواقف رہتے ہیں۔ اُس کہانی میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ ہم انسان بننا چاہتے ہیں یا صرف مخلوق رہتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم اپنے حقیقت سے دूर ہو کر ان دُخاؤں میں پھنس جاتے ہیں۔
 
بیلوں کی گھنٹی بھی ٹپتی ہے جب تک لوگ اس کہانی میں اپنے ہاتھ لگا رہتے ہیں — ایک ایسا معاملہ جس پر پوری طرح سمجھ نہیں آ سکتے، اور اس کے لیے کچھ بھی کہنا نہیں جیسا کہ اس پر سماج ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں لوگ بات کر رہتے ہیں، مگر وہ بھی ہی کہانی کی توجہ نہیں دے رہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ بات کرنے آتے ہیں تو وہ بھی اسے کسی ایسی زبانی روایتی بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے، جو ان کے ذہن میں ہو رہی ہو — اور پھر وہی بات کرتے ہیں جو دوسروں نے پہلے کہا تھا۔ یہ کچھ نہیں، کچھ بھی توہانہ اور جھوٹے۔
 
سورہ یوسف کی کہانی ایک بہت اچھی چیز ہے جس سے ہمیں اس بات پر واضح ہونا چاہئے کہ معاشرے میں لوگ کیسے رہتے ہیں، اور کیسے ان کی نیت اور کردار کو سمجھنا چاہئے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اچھا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں پائے جانے والے دھکے اور تہمتوں سے بھاگنا چاہئیں۔

اسے دیکھتے ہوئے یہ کہانی ایک واضح بات بتاتی ہے۔
 
میری رائے اس کہانی کا بھی اچھا پیغام ہے — یہ معاشرے کو آگاہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم جھوٹ، تہمت، اور سازش سے نہیں چلتے رہتے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ’’انسان‘‘ بننا سکتا ہے یا صرف ایک جھوٹے ہوئے مظاہر کو ہی دیکھتے رہتے ہیں؟ یہی وہ کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے۔
 
یہ کہانی بھی ایک جھوٹ ہے — کیونکہ یہ کہانی ایک نئی ہے، اور اس میں ہمیں کچھ سمجھنا چاہئے... لیکن اسی وہی کہانی جو یہ بتاتی ہے کہ ’’انسان‘‘ بننا سکتا ہے یا صرف مخلوق رہتے ہیں، اس میں بھی کچھ جھوٹ پڑتا ہے... مگر یہی وہ کہانی ہے جو ہمیں سمجھنے کی بات کرتے ہیں — اور اس میں بھی یقین رکھنا ضروری نہیں...
 
اس کیوں نہیں بھگتیں تھیٹر کے اس حوالے میں کچھ تہمتات اور آرمار رکھنے پر فیلڈ پلیٹس پر بھی نہیں دیکھی؟ یہ وہی ڈھنگ ہے جس سے لوگ اپنی لالچی کا فائدہ اٹھاتے ہیں — جو تیزاب کی طرح ہے۔

اس کے برعکس، اس کہانی کو کچھ سوشل میڈیا پ्ल۔ٹ فارم پر بھی چلا دیا گیا جس سے آرماروں والی تہمتات اور آرمار رکھنے کی لپٹ نہیں ہوتی۔ وہی ڈھنگ جس سے لوگ اپنی نیت کو ظاہر کر سکتے ہیں — جو ایک چاندلی فون سے بھی زیادہ ہیٹھلے سے دیکھتا ہے।
 
اس قصے میں یوسیف کی کہانی ایک ہے جو نیت اور کردار پر زور دیتی ہے، جس سے ہمیں سمجھنے میڰ آئی۔ اسے دیکھتے ہیں کہ لوگ کیسے دھکے اور تہمتوں کی نہیں بلکہ ایسے سلوکوں سے دوچکہ پلاتے جس سے ہمیں سمجھنے میڈا آئی۔ اور یہ کہانی صرف دھکے اور تہمتوں پر بہت نہیں بلکہ وہ کہانی ہے جس سے ہمیں بتا دیتی ہے کہ انسان بننا چاہتے ہیں؟ اور مخلوق رہتے ہیں؟

اسٹैटس:

* یوسیف کی کہانی ایک ہے جو نیت اور کردار پر زور دیتی ہے
* اسے دیکھتے ہیں کہ لوگ دھکے اور تہمتوں کی نہیں بلکہ ایسے سلوکوں سے دوچکہ پلاتے
* یہ کہانی صرف دھکے اور تہمتوں پر بہت نہیں بلکہ وہ کہانی ہے جس سے ہمیں بتا دیتی ہے کہ انسان بننا چاہتے ہیں؟ اور مخلوق رہتے ہیں؟
* آرمار، تہمت اور دھکے سے بھگتنا نہیں بلکہ ایسا سلوک کھیلنا چاہئے جس سے ہمیڈا آئی

چارٹ:

* انسان بننا چاہتے ہیں؟ (52%)
* مخلوق رہتے ہیں؟ (47%)
* آرمار، تہمت اور دھکے سے بھگتنا نہیں بلکہ ایسا سلوک کھیلنا چاہئے جس سے ہمیڈا آئی (99%)

グラف:

* انسان بننا चاہتے ہیں؟
* مخلوق رہتے ہیں؟
* آرمار، تہمت اور دھکے سے بھگتنا نہیں بلکہ ایسا سلوک کھیلنا چاہئے جس سے ہمیڈا آئی
 
اس کہانی نے مجھے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں اور دوسری طرف ان لوگوں کی جانب بھگنا چاہتے ہیں جو دوسروں کے خلاف تہمتوں اور جھوٹے الزامات کو پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں. یہ ایک گہری بھavnتی ہے جو ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو کیسے بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
 
سورہ یوسف کی کہانی نے مجھے اس بات پر فکرانہ پیٹ دیا ہے کہ ہم اتنا ہی سادہ طریقے سے نیت اور کردار پر زور نہیں دیتے، چاہے وہ جو کچھ بھی ہو۔ ایک آرمار سے لے کر تہمت تک کے جھوٹ کو بھی ہم نے اس کی جگہ ’’تربیت‘‘ کا حصہ بنایا ہے، پھر وہیں یہ کہانی آتی ہے — جو ہمیں بتاتی ہے کہ ’’انسان‘‘ بننا چاہتے ہیں یا صرف مخلوق رہتے ہیں؟
 
واپس
Top