پی ٹی آئی یا وکلا اگر لیڈ کریں گے تو عوام بھی ساتھ ہوں گے، یہ حقیقت کہیں بھی ایسا نہیں کہ جیسے وکلا اور پی ٹی آئی کی قیادت میں عوام ساتھ ہوں گے، یہ سوچنا بہت مشکل ہے۔
نئی قیادت سہیل آفریدی کے بارے میں لوگوں کی امید ہے کہ ان نے ایسے دور میں اختلافات ختم کر دیے ہیں جو اس وقت ملک کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔
انxiety کی وجہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی تیز گریوٹس اور سختیوں پر عوام کی تشویش ہے، وہ اس پر اپنا اثر انداز رکھتا ہے جس سے ان کا خوف پڑتا ہے۔
پرامن احتجاج ایک قانونی ذریعے سے نکل کر پارلیمنٹ میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح جب حکومتی پالیسیاں بھی بری طرح ناکام ہو جاتی ہیں تو عوامی رد عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہم وقت کی ضرورت بن چکی ہے کہ قوم کے سامنے حقائق لائے جائیں، اور اس سے تحریک منظم انداز میں آگے بڑھا سکتی ہے، سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر عوام سڑکوں پر نکلیں گے، ان کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے چند سالوں سے ملک پر جبر اور ظلم زیادہ ہو چکا ہے، پی ٹی آئی قیادت پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال تو خراب ہو گئی، حکومت نے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئی، جبکہ عوام پر ظلم و تشدد کے سلسلے میں بھی نئی ہدیں پار کر گئیں ہیں۔
انہوں نے اے بی این نیوز کے پروگرام “ڈیبیٹ@8‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکڑوں جعلی energiaالمنٹس کروائیں کر ووٹنگ میں دخل اندازی کی کوشش کی گئی، اور 500 نئے انرژیولمنٹس نے انتخابی نتیجہ بدلنے میں کردار ادا کیا۔
ججز اور وکیلوں کے انتخابات میں مداخلت اور دباؤ میں اضافہ ہوا، ادارے عوامی تحفظ کے بجائے سیاسی مقاصد میں مصروف ہیں۔
ادلے اور قانون پرستوں کو یہ سوچنا مشکل ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں، اور آئینی حقوق سلب کرنے کی کوشش جاری ہے 26ویں ترمیم کا بیانیہ عام کیا جا رہا ہے، اور 27ویں ترمیم کی تیاریاں بھی زیر بحث ہیں۔
عدالتی وکلا کو نشانہ بناکر جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی مہم جاری ہے، ان کو قانون کے نفاذ اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت پر توجہ دی جانی چاہیے، تحریک کی بالادستی ایک آئین کی بالادستی سے ہونا چاہیے، پی ٹی آئی یا وکلا اگر لیڈ کریں گے تو عوام بھی ساتھ ہوں گے۔
تحرک کا مقصد آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے، جو سچائی اور قانون کی بالادستی پر مبنی ہے، اگر وکلا یا پی ٹی آئی اپنے لیے قیادت لیتے ہیں تو عوام بھی اس کے ساتھ ہوں گے، اور ان کی یہ سوچا کہ ہمیں ایک آئینیRights کو حاصل کرنا ہوگا۔
عوامی فلاح اور تحفظ کا اہم ترین ترجیح ہونا چاہیے، اور منظم عملی اقدامات کے ذریعے اس کے لیے کام کرنا چاہیے، پالیسی ساز اداروں کو متحد ہوکر جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، بیرونی اور اندرونی خطرات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے، اور جرگوں کو ویلکم دینا چاہیے مگر اس سے زیادہ ایک قابل عمل حل اور واضح روڈ میپ کو حاصل کیا جانا چاہیے۔
نئی قیادت سہیل آفریدی کے بارے میں لوگوں کی امید ہے کہ ان نے ایسے دور میں اختلافات ختم کر دیے ہیں جو اس وقت ملک کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔
انxiety کی وجہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی تیز گریوٹس اور سختیوں پر عوام کی تشویش ہے، وہ اس پر اپنا اثر انداز رکھتا ہے جس سے ان کا خوف پڑتا ہے۔
پرامن احتجاج ایک قانونی ذریعے سے نکل کر پارلیمنٹ میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح جب حکومتی پالیسیاں بھی بری طرح ناکام ہو جاتی ہیں تو عوامی رد عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہم وقت کی ضرورت بن چکی ہے کہ قوم کے سامنے حقائق لائے جائیں، اور اس سے تحریک منظم انداز میں آگے بڑھا سکتی ہے، سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر عوام سڑکوں پر نکلیں گے، ان کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے چند سالوں سے ملک پر جبر اور ظلم زیادہ ہو چکا ہے، پی ٹی آئی قیادت پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال تو خراب ہو گئی، حکومت نے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئی، جبکہ عوام پر ظلم و تشدد کے سلسلے میں بھی نئی ہدیں پار کر گئیں ہیں۔
انہوں نے اے بی این نیوز کے پروگرام “ڈیبیٹ@8‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکڑوں جعلی energiaالمنٹس کروائیں کر ووٹنگ میں دخل اندازی کی کوشش کی گئی، اور 500 نئے انرژیولمنٹس نے انتخابی نتیجہ بدلنے میں کردار ادا کیا۔
ججز اور وکیلوں کے انتخابات میں مداخلت اور دباؤ میں اضافہ ہوا، ادارے عوامی تحفظ کے بجائے سیاسی مقاصد میں مصروف ہیں۔
ادلے اور قانون پرستوں کو یہ سوچنا مشکل ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں، اور آئینی حقوق سلب کرنے کی کوشش جاری ہے 26ویں ترمیم کا بیانیہ عام کیا جا رہا ہے، اور 27ویں ترمیم کی تیاریاں بھی زیر بحث ہیں۔
عدالتی وکلا کو نشانہ بناکر جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی مہم جاری ہے، ان کو قانون کے نفاذ اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت پر توجہ دی جانی چاہیے، تحریک کی بالادستی ایک آئین کی بالادستی سے ہونا چاہیے، پی ٹی آئی یا وکلا اگر لیڈ کریں گے تو عوام بھی ساتھ ہوں گے۔
تحرک کا مقصد آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے، جو سچائی اور قانون کی بالادستی پر مبنی ہے، اگر وکلا یا پی ٹی آئی اپنے لیے قیادت لیتے ہیں تو عوام بھی اس کے ساتھ ہوں گے، اور ان کی یہ سوچا کہ ہمیں ایک آئینیRights کو حاصل کرنا ہوگا۔
عوامی فلاح اور تحفظ کا اہم ترین ترجیح ہونا چاہیے، اور منظم عملی اقدامات کے ذریعے اس کے لیے کام کرنا چاہیے، پالیسی ساز اداروں کو متحد ہوکر جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، بیرونی اور اندرونی خطرات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے، اور جرگوں کو ویلکم دینا چاہیے مگر اس سے زیادہ ایک قابل عمل حل اور واضح روڈ میپ کو حاصل کیا جانا چاہیے۔