کراچی میں پولیس تشدد سے جاں بحق نوجوان کے ورثا سے مذاکرات کامیاب، احتجاج ختم، میت بہاولپور روانہ

گیمر

Member
کراچی میں پولیس تشدد سے جاں بحق نوجوان عرفان کے ورثا سے مذاکرات سات گھنٹوں کی لہر میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد وہ اپنی مدعیت میں چلے گئے تھے کہ ان کا قتل انتہائی تشدد سے ناتوہ ہوا تھا، اور ان کی لاش پر ڈنڈے برسائے گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد ان کے چچا ضیا محمد آج نیوز کے پروگرام دس میں گفتگو کرتے ہوئے کہے کہ عرفان پر بدترین تشدد ہوا تھا، اور دم نکلنے کے بعد بھی ان کی لاش پر ڈنڈے برسائے گئے تھے۔

ضیا محمد واقعے کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور بتایا کہ عرفان کی ساتھی نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی بے دردی سے قتل کی تصدیق کی تھی۔

جمعے کے روز پولیس سرکار کی مدعیت میں واقعہ قتلِ خطا کے زمرے میں درج کیا گیا تھا، جس کے بعد دو اہلکاروں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔

دوسری جانب ورثاء نے پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے کو مسترد کردیا تھا، اور کہا تھا کہ "پولیس خود ہی قاتل ہے اور خود ہی مدعی بن گئی"۔

انہوں نے کہا کہ "پولیس نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی ہے، جسے ہم نہیں مانتے۔"

انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل اور اغواکی ایف آئی آر درج کی جائے، اور اس کے بعد ورثا نے ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ پر احتجاج کیا تھا۔

سہراب جو گاؤں میں تھوڑا ایک کئیک ہوئی، لاکھوں لوگ اس جگہ اتر کر احتجاج کرتے رہے، اور اس کی وجہ سے محنت و مشقت سے کام کرنے والوں نے بھی اپنی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا تھا اور جگہ لے لی تھی، جس کی وجہ سے محنت و مشقت کے لیے کام کرنے والوں نے اپنی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا تھا اور جگہ لے لی تھی، جس کی وجہ سے محنت و مشقت کے لیے کام کرنے والوں نے اپنی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا تھا اور جگہ لے لی تھی،

انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل اور اغواکی ایف آئی آر درج کی جائے۔
 
یہ صرف گھنٹوں سے بھی زیادہ طویل عرصہ تھا جب تک ورثا کے احتجاج نے ہزاروں لوگوں کو شہر چھوڑ کر گاؤں آکر جگہ لے لی... اور اب وہاں کی سٹریٹس پر بھی پھیل رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ شہر بھی محنت و مشقت کے لیے چھوڑ کر گاؤں آ رہا ہے... یہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سمجھ نہیں آ سکتی کہ کیا واقعہ ہوا...
 
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس کے اس ناقص محکوم کو سات گھنٹوں میں ہی ان پر حملے کر دیئے تھے اور ان کی لاش پر ڈنڈے برسائے گئے تھے... مگر وہ ایسا کیسے سات گھنٹوں میں ہی ایسا کر سکے? ایک اور بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پوری شہر دھوم لگتی ہے اور محنت و مشقت سے کام کرنے والوں نے اپنی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا تھا اور جگہ لے لی تھی... یہ سب کچھ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ واقعہ صرف چند گھنٹوں میں ساتھ دلا دیئے اور جگہ سے چلے جائیں...
 
ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے اس چھوٹے سے واقعے کو اپنے استحکام کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے، اور یہ لوگوں کی غلطی کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے
 
تھوڑا سا منظر دیکھنے کو میں ہیران ہوا 🤯، پولیس کے تہذیریع شکار ان نوجوانوں پر لگ رہی ہیں جو اس وقت اپنی زندگی کی باتیں کرنا چاہتے ہیں اور ان کو وہی ساتھی پہچانتے ہیں جو وہوں جاتے تھے، ایسا تو کیا ہوا، یہ دیکھنے میں بھی گالے لگتے ہیں اور اب یہ نوجوان ان کی موت کا شکار ہوگئے ہیں، اس کا پھر سے کیا تعلق ہے؟
 
اس واقعے کا مشق کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا رہتا ہے، پھر بھی ہماری نوجوانین کو وہ حق نہیں ملتا جسے ان کی مدد اور حمایت سے مل سکتا ہے۔ کیا یہ معاملہ صرف ایک فرد کے حوالے ہوتا ہے یا یہ مادیات اور سماجی نظام کی مشکل ہے جو اس نوجوان کے قتل کو توجہ سے لیتے ہیں؟

میری رائے میں یہاں ایک بڑا مہل رہا ہے، جس کی وجہ سے مجھے اس واقعے پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ پورے ملک میں ہمیں ایسی situations کا سامنا کرنا पड़तا رہتا ہے، جس سے ہمارا یوگ اور ماحولیہ بھی نقصان پاتا ہے۔

کئیک ہونے کے باوجود لاکھوں لوگوں نے شہر چھوڑ کر گاؤں آ کر احتجاج کیا، یہ ایک بے مثال پ्रतب्धی ہے۔ لیکن ابھی بھی یہاں کسی کی مدد نہیں کی جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ کہتا ہوا تھا کہ اس واقعے کو ایک ساتھ نہیں لینا چاہئے، بلکہ پورے ملک میں ایسی situations کا خاتمہ کرنا چاہئیے۔
 
اس واقعہ کا یہ نتیجہ کہیں تک صاف نہیں ہوا، جس میں پھر بھی نہایت بدقسمت سے بے دردی سے قتل کیے گئے ہیں اور ان کا ورثہ اب بھی اس معاملے سے نمٹ رہا ہے۔ یہ نتیجہ اس حقیقت کو ایک بار پھر ظاہر کر رہا ہے کہ جو کچھ بھی چلائے جائے گا، وہ ہمیں اتنا ہی یار نہیں دے گا اور اس سے ہمیں اب بھی حیران ہونا پڑے گا۔
 
مرحوم عرفان کی ساتھی نے بھی اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی بے دردی سے قتل کی تصدیق کرائی ہے، یہ بات سب کو چل پتی ہے کہ عرفان کا قتل انتہائی تشدد سے نہیں ہوا تھا۔

اس واقعے سے اور اس کی وجہ سے محنت و مشقت کے لیے کام کرنے والوں نے اپنی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا تھا اور جگہ لے لی تھی... یہ سب ایک بڑے دھڑے کا ایک حصہ ہے جو پولیس کی مدعیت سے نکل کر آئے تھے...

اس واقعے میں تو انہوں نے اپنی مدعیت سے شہر چھوڑ دیا تھا... اور اب وہ جگہ لینے کے لیے آئے ہیں... یہ سب کو محسوس کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنی مدعیت سے ایک بڑا دھڑا بھی پیدا کیا ہے جو اب شہر میں ہوا ہے...
 
اسے سمجھنا چاہئے کہ پولیس نے جو بات کی ہے وہ سب کچھ پوری ہونے سے قبل ہی محض تیز دوڑ پر چل رہی تھی، اور بعد میں جب واقعہ حقیقی طور پر سامنے آیا تو انہوں نے ایسا ہی دکھایا، یہ بات پوری کروائی جائے گی
 
اس بات کو یقین نہیں ہے کہ پولیس نے اس واقعے میں صرف ایک طرف سے بھرپور کارروائی کی، اگر وہ حقیقت میں ایسا کر رہی ہے تو ان سے سات گھنٹوں کے لئے مذاکرات کرنا اور بعد میں ملوث اہلکاروں کی گرفتاری پر ہمیشہ نہیں چل سکتی۔
 
اس واقعے سے دھچکہ لگ رہا ہے، اور یہ صرف ایک ایسے ملک میں ہوتا ہے جہاں پولیس کی جانب سے نالے کا پانی بھی نہیں کیا جاتا۔

اس واقعے میں ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنی اور دوسرے کی جان سے لڑنے سے انکار کر دیا، اور اب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی قربانی ایسے نالے میں ہوئی ہے جو انہیں بھی پانی لگا دیتا۔

ان سات گھنٹوں کی لہر کی وہ کامیاب رہی، لیکن اس نے ان کے ورثاء کو ایک reality show میں لے جानے کی کوشش کرنے سے بچایا ہے جو یہاں تک پہنچتا ہے کہ کیا ان کی جان کا قیمتی پانی چکائی دیتا ہے؟
 
یہی ہوا چاہے وہ پولیس یا ورثا ہوں، لوگ ہمیشہ کبھار تھوڑا ماحولیات پر غور کرنے والے ہوتے ہیں، لیکن کبھار نہیں تو پوری جگہ سے ان کی مدعیت میں شہر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جگہ لے لی جاتی ہے، یہ ایک بڑی بات ہے۔
 
واپس
Top