سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ منظور کر لیا، جس میں مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری سے متعلق مجوزہ ترمیم بھی شامل ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 49 ترامیم منظور کیں، جو آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ ہے۔ اس ڈرافٹ میں اے این پی کی ترمیم پر بھی مہلت مانگ لی گئی ہے۔
آرٹیکل 42 میں لفظ پاکستان کی جگہ فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ تجویز ہے۔ آرٹیکل 59 میں ممبران کی مدت کی وضاحت شامل ہے، اور 11 مارچ کو مکمل تصور ہو گا۔
آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کریں گے، چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز ہے، وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحتی رہے گی۔
ایم کیو ایم کی بلدیاتی انتخابات سے متعلق مجوزہ ترمیم پر مہلت مانگ لی گئی ہے، بلوچستان کی نشستوں پر حکومت نے دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
اتحادی جماعتوں کو جواب دے کر انھوں نے اپنی تجاویز پر مہلت مانگ لی ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کی ترامیم پر وقت مانگا ہے۔
27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ 48 شقوں اور 25 صفحات پر مشتمل ہے، جو آئینی ترمیم کا میظوم کہلاتا ہے۔ اس میں آرٹیکل 42 سے لے کر آرٹیکل 243 تک شامل ہیں جس میں وفاقی حکومت کی مختلف حیثیتوں اور سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے جس میں وفاقی اداروں کی تشکیل نو، اور وفاقی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے جس میں وفاقی اداروں کی تشکیل نو، اور وفاقی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے جس میں وفاقی اداروں کی تشکیل نو، اور وفاقی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے جس میں وفاقی اداروں کی تشکیل نو، اور وفاقی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ اور اس میں شامل 49 ترامیم کو لینے سے قبل ہر پارٹی نے اپنی تجاویز پر مہلت مانگ لی ہے۔ یہ واضح طور پر دکھای رہا ہے کہ وفاقی اداروں کی تشکیل نو اور ان کے سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں سچے منصوبہ بنائے جا رہے ہیں، جو آئینی عدالت کو ایک مضبوط بنیاد دے گا۔
علاوہ ازیں، یہ مہمتی کوشش ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کا تقرر کو ایک واضح اور مضبوط نظام میں تبدیل کیا جائے۔ اس طرح، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحتی رہے گی۔
اس مجوزہ ڈرافٹ سے متعلق پوری بات یہ ہے کہ اس میں بھرپور تجاویز کی مہلت مانگ لی گئی ہے، جو ایک مضبوط اور مستحکم نظام کو بنانے کی راہ میں ہیں۔
یہ کافی ہے... آئینی ترمیم میں کسی بھی تبدیلی کی پوری کوشش کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ ترمیم پاکستان کی آگہستی کو تباہ نہیں کرے گی۔ اس میں سربراہان کی تقرری پر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جو کہ میرے لئے متاثر ہوگا...
تمام ترامیم کے بعد بھی یہ بات پتہ چلی گی ہے کہ اس میں آئینی عدالت کی تشکیل نو کی تجویز کو چھوڑ کر سینیٹ اور قومی اسمبلی کو ایک ایسا عمل پیش کیا گیا ہے جس سے وفاقی حکومت کے مختلف حیثیتوں پر پہلے بھی بات کی جائی چکی ہے۔ اس پر یقین رکھنے میں مشکل ہے کہ اب وفاقی اداروں کی تشکیل نو سے نتیجہ نکلے گا اور سربراہان کی تعیناتی سے متعلق کسی بھی رائے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ اس مجوزہ ڈرافٹ میں پاکستان آرمی اور اس کی سربراہی ایک پوری اچھی طرح سے بنائی گئی تھی، اس لیے ہم تمام فوجی افسران کو یہ دیکھنا چاہیں گا کہ وہ اپنے معاشرے کی ایسی خدمات کر رہے ہیں جس سے پاکستان کا نام روس میں بھی سنایا جائے!
یہ بہت متاثر کن منظر ہے، آئینی ترمیم کا یہ مجوزہ ڈرافٹ پورے ملک میں بحث کی فضا پیدا کر رہا ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی نے ایسا کوئی نئا موڑ دھارنا ہو گیا ہے جس سے وفاقی حکومت کے سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں یہ بحث ہوتی ہے کہ صدر کی عطیہ سے بھی چیف آرمی اسٹاف کا چیف آرمی اسٹاف بننا ہو گا؟
یہ بات بھی واضح ہے کہ اتحادی جماعتوں نے اپنی تجاویز پر مہلت مانگ لی ہے، اور یہ بات بھی آئے ہوئی ہے کہ بلوچستان کی نشستوں پر حکومت نے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے پورے ملک میں تشدد اور دھمکیوں کی فضا پیدا ہوسکتی ہے، اور یہ بات بھی آئے ہوئی ہے کہ 11 مارچ کو مکمل تصور ہو گا۔
یہ نئے مجوزہ ڈرافٹ میں آرٹیکل 243 کو دیکھتے ہوئے، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر ہونا بہت اہم بات ہے ۔ یہ سچا پھول کا موقع ہے کہ شعبے کی وضاحت ہو اور اس پر کام کیاجائے۔ میں محنت کرنے والوں کو بھی اپنی ترامیم پر مہلت مانگ کرنے کی بھی تعلیم دی جا سکتی ہے، نہیں تو دوسرے جماعتوں کو جواب دینے کے لیے وقت مانگنا زیادہ پچیس کا کام نہیں ہوگیا۔
یہ واضح ہے کہ آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ نہیں، بلکہ یہ 27 ویں آئینی ترمیم کے بارے میں ایک تجویز ہے جو پارلیمانی کمیٹی نے منظور کر لی ہے۔ یہ تجویز مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری سے متعلق بھی شامل ہے، جس میں ایک واضح پلاٹ فارم ہونا چاہئیے۔
اس تجویز پر اتحادی جماعتوں نے بھی اپنی رائے دی ہے اور انھوں نے مہلت مانگ لی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تجویز پر کام کرنے میں وقت لگے گا۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ پہلی بار کھانا کھلنا کی وجہ سے دوسرا کھانا کھیلنا ضروری ہوتا ہے؟ وہاں تک کہ میٹرے سے بنائے جانے والے پکوان تھوڑے اچھے لگتے ہیں، لیکن گریجویٹ مینوں کو ڈونٹس پر وہاں تک چل سکتے ہیں!
عجیب عجیب جہاں وہ لوگ 11 مارچ کو مکمل تصور کرتے ہیں، کیوں کہ اس وقت وہ ابھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مابین میڈیشن بنانے کی بات کرتے ہیں جس سے ان کی زندگی پوری طرح بدل جائے گی। اور نہ یہ بھی تھا کہ وہ آرٹیکل 42 میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا لفظ پاکستان کی جگہ لaga دیتے، ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی جگہ کی بدولت اس کی پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں؟
جب تک مملکت کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کی تجویز پر تبصرہ نہیں کیا جائے تو اس کی اہمیت کو سمجھا نہیں سکتے۔ اقدامات میں معاشی منظر نامہ کی بھی ضرورت ہو گی، اس لیے انھیں اس سے متعلق پہلے رائے دی جانی چاہئے۔
ہمیشہ سے پتا چلا ہے کہ پارلیمنٹری کمیٹیوں میں نئے ووٹنگ سسٹم کی تجویز اور مختلف جماعتوں کے متعلق ترامیم شامل ہونے والی بے پیمانہ رائے دی جاتی ہے، لیکن یہاں ناواقف لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جس سے پارلیمنٹری کام آسان ہو جائیں گے وہ ایک حقیقی ترمیم نہیں ہوگا، اور اس کی بجائے بہت سی پابندیاں اور معاملات پر نظر رکھنے والی سسٹمز قائم کر دی جائیں گی۔
آرٹیکل 243 میں لکھا گیا ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کو تقرر کریں گے، لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ آئینی عدالت نے وفاقی اداروں کی تشکیل نو اور ان کے سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں رائے دی ہے، لہذا چیف آف آرمی اسٹاف کو تقرر کرنے سے پہلے ادارہ کی تشکیل نو ہو گی۔
اس 27 ویں آئینی ترمیم پر میرے خیال میں یہ ایک اہم قدم ہے جس کے ذریعے وفاقی حکومت کی مختلف حیثیتوں کو سمجھایا جا سکتا ہے۔
اس میں معاشی، منصوبہ بندی اور فوجی امور سے متعلق ترامیم شامل ہیں جس کے ذریعے ملک کیSecurity کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔
اس میں معاشی اداروں کی تشکیل نو، وفاقی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق رائے دی گئی ہے۔
فوجی امور میں تقرری کے لیے صدر مملکت وزیراعظم ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کو تقرر کریں گے، جو فیلڈ مارشل اور ڈپٹی چیف آف ڈیفنس فورسز کا رینک مراعات اور وردی سے لگایا جائے گا۔
اس میں ملازمین کو ایک بہتر ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ انھیں اپنے کاموں کے دوران پوری مدد اور سہولت مل سکے۔
یہ دیکھا جانا بہت ہی اچھا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 49 ترامیم منظور کر لی ہیں، جو آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ ہے۔ اس میں اے این پی کی ترمیم پر بھی مہلت مانگ لائی گئی ہے، جس سے وفاقی اسمبلی کو اپنی اچھیاں جگہ دینے کی فرصا ملتی ہے۔
آرٹیکل 42 میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کی تجویز بہت اچھی ہے، جو آئین کی تشکیل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ اس سے دوسری سربراہان کی ترمیم پر رائے دی جائیگی، جو وفاقی حکومت کو بھی اس میں شامل کریں گی۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ صرف مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری سے متعلق رائے دی جانے والی سے نہیں، بلکہ وفاقی حکومت کی مختلف حیثیتوں اور سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے۔ میرے لئے یہ ایک محض رائے دی جانے والی جیسے 48 شقوں اور 25 صفحات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں کیا پھیلاؤ ہے؟
کیا یہ مجوزہ ڈرافٹ صرف ایک چھوٹی سی بات ہے یا اس میں بھی کچھ اور بے بس ہوسکتی ہے؟ یہ سارے پوائنٹس کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اس میں کوئی نئی تبدیلیاں ہوں گی، جس کی وجہ سے یہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ ایک بڑا معاملہ بن جائے گا۔
کیوٹا ایسا ہوتا ہے نا ہوتا، آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ منظور ہوا ہے اور اب 49 ترامیم کیDiscussion ہی رہ گئی ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے مجوزہ ترمیم پر کچھ تبدیلیاں بھی کروائی ہیں جیسے اے این پی کے ترمیم پر مہلت مانگ لی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کی بھی مشاورت کی، اور اب انھوں نے اپنی تجاویز پر مہلت مانگی ہے۔ آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ تو بالکل ایک ڈرامہ تھا!
یہ خبر ایک بڑی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے، جو پارلیمانی کمیٹی نے بنائی ہے۔ یہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ ہے، جس میں مختلف اہم رائے دی گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ تبدیلی بہت زیادہ اہم ہے اور اس پر سارے پارٹیوں کی پچھان کی ضرورت ہے۔ اور ایسے میں ہر کس کو اپنی رائے دینا چاہیے، تاکہ یہ تبدیلی بہتر بن سکیے۔
یہ پھر ایک سیاسی معاملہ ہے... کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا فیڈرل لینڈز کے طور پر تعینات ہونا، اسی طرح سے چیف آف آرمی اسٹاف کو صدر کے ریکارڈ کی ایڈوائس پر چیف آف ڈیفنس فورسز بنانے کا یہ فیصلہ تو اتھانیائی جماعتوں کے لئے بھی ایک political move ہے... مگر یہ سوال یہ ہے کہ وفاقی اداروں کی تشکیل نو سے متعلق یہ ترامیم ہمیشہ کسی جماعت یا حزب کی فوج کی رائے پر نہیں بنتے... کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کو ایک Political Institution بنانے کا فیصلہ تو اس سے political stability کے لئے bhi benefit ہوگا...