پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے آج کوئٹہ میں اپنے مرکزی سیکریٹریٹ کی پریس ریلیز جاری کردی ہے، اس میں انہوں نے 27ویں آئینی ترمیم کو بدترین آمریت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک استعماری منصوبہ ہے جو عوام کی آزادی کو کمزور کرنے والی ہے، پارٹی نے بتایا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد قائم پارلیمانی نظام کو رول بیک کر کے اقتدار کو محدود حلقوں تک مرکوز کیا جا رہا ہے، اس سے ان کی آزادی اور استحکام کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔
پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی سیکریٹریٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات چھین کر وفاقی آئینی عدالت کو فوقیت دی جا رہی ہے، جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہے اور اس طرح جمہوریت کی بنیاد پر استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔
صدر کے اختیارات کم کر کے فوجی کمانڈ کو آئینی حیثیت دی گئی ہے اور عدلیہ کی آزادی کو بری طرح متاثر کیا جا رہا ہے، جس سے وفاقی حکومت کے خلاف مزاحمت کا راستہ آسان ہو گیا ہے۔
پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے ملک کی تمام جمہوریت پسند، سول سوسائٹی اور سیاسی قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس آئین شکن اقدام کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں اور اگر حکومت نے ترمیم واپس نہ لی تو عوامی اور جمہوری قوتیں یکجا ہو کر مزاحمت کریں گی۔
یہ استعماری منصوبہ عوام کے خلاف ہے، جس سے ان کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور وفاقی حکومت کو ایک آئینی حیثیت دی گئی ہے جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہے۔
یہ منصوبہ بالکل ناکام ہوگا، وفاقی حکومت بھی اسے مسترد کر دیں گے اور عوامی رائے کے خلاف یہ منصوبہ کو سرہ Knot ڈال دے گی، انہوں نے جب تک عوامی رائے کی موجودگی سے بات نہیں کیتی تھی اس لیے اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔
اج دیر رات تک ہونے والی یہ ریلیز کو اس سے پہلے بھی کیا جاسکتا تھا، وہ انہوں نے ہی کیا ہوگا اور اب وہ دیر رات تک پریس کنفرنس میں کہیں نا کہیں گئے تو بھی عوامی رائے کو اس پر انصاف نہ ملے گا، وہ لوگ جو آج یہ کہتا ہے وہ 10 سال بعد اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہوں گے۔
ایسے منصوبوں سے ملک میں پوری طاقت متاثر ہوتی ہے اور عوام کی آزادی کو نقصان پہنچاتا ہے، اس لیے انہیں روکنا ضروری ہے، اگر وہ لوگ جو آج یہ کہتے ہیں وہ جدوجہد کرو سکیں تو ملک کو ایسا نہ ہونا چاہئے۔
اس نئے منصوبے سے بڑاproblem hai ki یہ عوام کی آزادی کو کمزور کرنے والی ہوگی اور یہ فوجی کمانڈ کی آئینی حیثیت دی گئی ہے جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ان پر متھک نہیں ہوگا اور وہ اپنی آزادی کو چھین لیتے ہیں.
یہ منصوبہ صرف کھلے عام ریاست میں حکومت کی چپکتی کو بڑھانے کا ہے ، عوام کے حقوق کو کمزور کرنے کا نئا ذریعہ اٹھایا گیا ہے، یہ وہی بات ہے جو بھرپور مزاحمت کی وجہ سے نہیں ہو سکتی، عوام کو ایک آئین کے تحت اپنی آزادی اور حقوق کو مستقل رکھنے کا راستہ ملنا چاہیے ، آپریٹنگ ورڈ جیسا سسٹم جو اس منصوبے سے متعلق ہے، کیپیتول میں قائم ہونے والے نظام کا نتیجہ بھی دیکھنا پڑے گا، یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے جو عوام کو اس کی آزادی سے محروم کرائیں گے۔
یہ بڑا خطرناک منصوبہ ہے، میں اسے توپوں کی فوج کے برعکس سمجھتا ہوں یہ پارٹی کو دوسرے سب سے بدترین طاقتوں کے مقابلے میں لاتے ہیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس منصوبے کو بہت اچھی طرح سے تیار کیا ہوگا، وہ عوام کی آزادی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ انہیں اپنی جیت کے بعد اس منصوبے پر کھڑے رہیںگی اور عوام کو ایسے منصوبوں سے بچانگی
ایس کے منصوبے پر توجہ دینا ضروری ہے؟ یہ جانتے پھنک کر بڑی وہیڈی کی وجہ سے نکلتے ہیں، اور ان کے ورڈز کو توثیق کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہوتی؟ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک استعماری منصوبہ ہے، لیکن اس پر جھوٹی بات کہنا بھی مشکل ہے، کیونکہ وہ کیا چارہ جارہا ہے؟
منچنے والا یہ منصوبہ پورا غلط ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آئین میں ان کی آزادی اور استحکام نہیں ہوا تو وہ بھی کچھ نہیں ہوتا، یہ صرف ایک استعماری منصوبہ ہے جس کے لئے عوام کی آزادی کو کمزور کرنا پڑتا ہے، اور یہ سچ ہے کہ یہ کتنا ایک دھوکہ دہ منصوبہ ہے جس کا مقصد عوام کی آزادی کو نقصان پہنچानا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عوام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو کہ وہ اپنی آزادی کو کمزور کرنے والے منصوبوں سے بچنا چاہتے ہیں، یہ ایک اہم بات ہے کہ عوام نے اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی صلاحیت دکھائی ہو۔ اگر وہ ایسی قوت بن جائیں جس پر حکومت کو عمل करनا پڑے تو یہ حکومت کے لیے بڑی چیلنج بن سکتا ہے.
یہ استعماری منصوبہ ہمارے لیے بہت خوفناک ہے، جس میں عوام کے حقوں کو نقصان پہنچانا ہے اور وفاقی حکومت کو ایک آئینی حیثیت دی جاتی ہے جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہوتی ہے۔
یہ 27ویں آئینی ترمیم کا استعمال ہے جو انہوں نے مسترد کر دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی آزادی کو کمزور کرنا اور پارلیمانی نظام کو کمزور کیا جائے گا جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہو گا۔
فوجی کمانڈ کو آئینی حیثیت دی گئی ہے، جس سے وفاقی حکومت کے خلاف مزاحمت اچھی طرح آسان ہو گی، یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے جو عوام کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
ملک کی تمام جمہوریت پسند، سول سوسائٹی اور سیاسی قوتوں کے پاس ہمت ہو گی، وہ ایسے لڑنے والے ہیں جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں اچھے نتیجات حاصل کریں گے۔
ایسے نئے منصوبوں کے بعد بھی عوام کی وکالت تو کروائے گی، لیکن ایسا یقین نہیں کہ عوام ایسی شدت میں اٹھ جائیں گے جو پارٹی نے بیان کیا ہے کچھ لوگ یہ بات بھی سوچ سکتے ہیں کہ آئین کو ایسا تبدیل کرنا پورے ملک کی ترقی کے لیے ضروری نہیں، اس سے ایسا سوچنے والا یہ دیکھنا مشکل ہو گیا ہے کہ عوام کتنی بہادری سے اٹھائیں گے
ابھی یہ منصوبہ چل پڑتا تھا کہ وہ عوام کو محتاج نہیں ڈالے گا، لیکن اب ساچ میں بھی یہ اسی طرح کی بات کرتا ہے جو کہ اس کے لئے اس کے پورے وجود کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک اعلان ہے کہ عوام کی آزادی اور استحکام کو نقصان پہنچانا چاہیے؟ ہر جگہ سے ایسے لوگ نکلیں گے جو انہی منصوبوں کے خلاف جدوجہد کریں گے اور عوام کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔
اس نئے منصوبے کو پڑھتے ہوئے، مجھے لگتا ہے کہ یہ واضح طور پر عوام کی آزادی کو کمزور کرنے والا منصوبہ ہے . اس میں سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کو فوقت دی گئی ہے، جو عوامی رائے کی موجودگی سے باہر ہے اور اس طرح جمہوریت کی بنیاد پر استحکام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسا لگتا ہے جیسے فوجی کمانڈ کو آئینی حیثیت دی گئی ہو اور عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ عوامی اور جمہوری قوتیں ایسے وقت میں ایک تھیڈ کر لیتی ہیں جب ان کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ایسے منصوبوں سے ناکام ہونے والی حکومت کو انہیں اپنی جانب سے متحد ہونے کی توقع بھی نہیں ہونی چاہئیے، ایسے میڈیا کے ذریعے رپورٹ کرنا چاہئے کہ عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے ان منصوبوں کی آگے بڑھنا نہیں چاہیے، وہ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے ان منصوبوں سے ہمیں متاثر ہونا چاہئیے؟
اس میں کھل کر بات کی جا سکتی ہے کہ یہ آئینی ترمیم تو ایسی جھگڑیوں کو بڑھا دیتے ہیں جو پوری ملک کو متاثر کر رہی ہیں اور عوام کی آزادی کے درپیش مسائل پر غور نہیں کیا جارہا ۔ سول سوسائٹیوں اور سیاسی قوتوں کو مل کر ایسے منصوبوں پر نظر انداز نہ کرنا چاہئے جو عوام کی آزادی کو کمزور کرنے والے ہیں۔
اس آئین کے بارے میں عوامی رائے کی موجودگی سے باہر نہیں جانا چاہئے اور عوام کو اس پر اپنی نظر انداز کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ وہ ان مسائل کے بارے میں غور कर سکیں اور آگاہ رہیں۔
یہ منصوبہ تو بہت خطرناک ہے، کیا ہم اسے قبول کرنا چاہتے ہیں؟ عوام کے لیے آزادی اور استحکام کی یہ چیز تو ان کی زندگی پر نہیں ملاتی بلکہ انھیں نقصان دہ بناتا ہے، فوجی کمانڈ کو آئینی حیثیت دی جانے سے بھی یہ تو وہ سب پورا نہیں ہو گا اور عوامی رائے کی موجودگی پر یہ اقدامات اس لیے ناقابل قبول ہیں کہ ان سے عوام کا حق کو بھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے!