38 سال سزا کاٹنے والے بے گناہ قیدی کے ہوشربا انکشافات

یوٹیوبر

Well-known member
38 سال سزا کاٹنے والے قیدی کی رہائی کے بعد وہ رہا سلاہتھے ، اور انہوں نے بتایا کہ اسے پولیس کے ایک بے گناہ کاررواں بے پناہ تشدد اور دھمکیوں سے مجبور کر کے جھوٹا اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

پیٹر سلیوان کو 1986 میں ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ متاثرہ خاتون سے حاصل ہونے والے مختلف نمونوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے خلاف مقدمے کا انحصار دانتوں کے نشانات جیسے ناقابلِ اعتبار سمجے جانے والے ثبوت اور ایک اقرارِ جرم پر تھا ہی جسے وہ بعد میں واپس لے چکا تھا۔

اس عرصے میں سلیوان نے بتایا کہ اس کو پوچھ گچھ کے لیے 22 مرتبہ بلایا گیا جہاں اسے نہ صرف بری طرح مارا پیٹا گیا بلکہ بنیادی ضروریات کی بھی محروم رکھا گیا۔ پولیس اہلکار میرے سر پر کمبل ڈال کر ڈنڈوں لاٹھیوں سے شدید تشدد کا نشانہ بناتے تھے انہوں نے اعتراف جرم سے انکار پر مزید مقدمے میں ملوث کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔

اس واقعے کو محض عدالتی غلطی قرار دیتے ہوئے، مقامی پولیس افسر نے کہا کہ اُس وقت کے افسران نے قانون کے مطابق کارروائی کی۔ پولیس نے معاملہ خود احتسابی ادارے کے سپرد کیا تھا مگر کسی اہلکار کے خلاف بدعنوانی ثابت نہ ہوسکی۔
 
یہ تو بہت متعجب کن بات ہے ایسے کیس میں بھی عدالت کی سزا کوٹ لیتی ہو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سزا کو ٹالنے والا قیدی کو کتنے کushiyaan diya gaya tha police ne. yei hai sachchai se door hai, yeh polisi ka mukawala hai.
 
ایسے کیوں ہوتا ہے? ایک معاملہ جس میں کوئی بھی جانچ پڑتال نہیں ہوتی تو اس کا جسم جس لئے سزا سنائی گیا تھا اور اس کی زندگی بھی جس حوالے سے اس پر تشدد اور دھمکیوں کا شکار ہوا تھا وہی معاملہ ہوتا ہے، یہ صرف ایک نئی پچھلی ہے جو اس میں سزا سنائی جائے گی اور فिर بھی یہی معاملہ ہوجاتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر چٹان نہیں پڑتی جو جھوٹ بولتے ہیں اور ایسی صورتحالوں میں اسے جسم لگایا جاتا ہے اور کیا وہ ذہن میں آتا ہے کہ اگر مجھے پوچھ گچھ پر بلایا جائے تو مجھ کو انصاف ملے گا؟ یہ سب کوئی نہیں سمجھتا۔
 
تھوڑا سا اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے سلیوان کو ناکام سمجھا گیا تھا ، لیکن اب وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے مجبور کرکے جھوٹا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ، اور ان کے خلاف مقدمہ میں بھی غلطی ہوئی ۔ پولیس نے اس کو یقینی بنانے کے لیے 22 مرتبہ پوچھ گچھ کیے تھے ، اور اسے بری طرح سے مارا پیٹا گیا تھا۔ اُس وقت وہ قیدی بھی نہیں تھا جس کا وہ کیسہ پیش کر رہے ۔
 
اس گھنٹوں سے تو ڈر پال رہا ہاتھو ، لکھتا ہوا پھر جب تک سچائی کا پتہ چلا تو بتاتا ہوا ان لوگوں کو بھی پوری طرح نا پٹے ، پورے ملک میں یہ بات ابھری ہے کہ پولیس کی گھنٹوں سے چلتی ہیں تاکہ لوگوں کو جھوئے رہنے کا موقع ملے ، آج تک کیا ان پر روکنے کے لئے کوئی دباؤ نہیں پڑا ۔
 
اس وقت سے پتہ چلتا ہے کہ جو معاملہ بھی ہوتا ہے وہ سب پرپوش ہو جاتا ہے. پیٹر سلیوان کو تو یہ بات سچ لگ رہی ہے کہ اس کو پولیس نے بھلائیوں سے لاکھ سارے سہمہ کیے تھے اور اس پر پہلی جرم پر ملازمت کرنے پر انکار کر دیر ہوئی کہ اسے انساف ملنا پڑا.

اس کا یہ بھی بات ہے کہ پولیس اہلکار نے جو بتایا ہے وہ سب سچ ہو سکتا ہے. لیکن ایک بات کھلی طور پر بتنی چاہیے کہ جس شخص کو ملازمت کرنے پر انکار کر دیا گیا وہ بھی اس کے خلاف مقدمہ دھارے سکتا ہے اور اس کی ایسی باتوں سے پکڑ لیا جاسکتا ہے جو وہ انکار کرنے پر لائے تھے.

یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح انساف ملنا چاہئیے اس میں بدلائیں اور غلطیاں بھی شامل ہوسکیں گی. پھر تو سچائی کی طرف ہمیں دیکھنا چاہئیے کی کون سی باتوں کو بدلیں اور کون سی باتوں پر پابند رہیں.

یہ بھی ایک بات ہے کہ جس شخص کی ملازمت کرنے پر انکار کر دیا گیا وہ اپنی جگہ سے نکل کر بھی کچھ پانے میں میڈم نہیں ہوتے. یہ معاملہ سلیوان کی جنت نہیں ہے بلکہ معاملہ اس وقت تک یقینی بننے کا لاکھوں اور لاکھوں راز کے بعد ہوتا ہے جب تک کہ سچائی کی طرف ایسا رہے.
 
بےشک یہ ریکارڈ دیرینہ ہے ، بچپن سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں جو تباہی ہوئی ہے وہ آج بھی واضح ہے ۔ پیٹر سلیوان کو اس جسمانی پدھر پر مجرم قرار دیا گیا تھا وہ اچھا نہیں ہے ، وہ ایک انسان تھا جو اپنی زندگی کے لیے مار چکی گئی ، اور اب ان کی جائے پیداوار پر سزا دے کر اسے بری طرح مار دیا گیا ،

اس کے باوجود یہ پولیس افسر ڈانتوں کے نشانات پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے بھی اس جرم کو صاف کر دیا ہے ، میرے لئے یہ کہاں ایسا ہوا کہ پولیس نے سلیوان کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا ، اسے مارا پیٹا اور اس کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا ، اور انہوں نے اعتراف جرم سے انکار کرنے پر مزید مقدمے میں ملوث ہونے کی دھمکیاں دیں ۔
 
اس کتنا پیٹر سلیوان کو حالات میں گرا دیا گیا ، پولیس کی ایسے کارروائیوں کے بھی نہ لگا تھا جو اس پر الزامات کھیل کر رکھیں گے 😡 . اس کا اعتراف جرم کس طرح کیا گیا ، اور پوچھ گچھ میں پانے کی کوششوں سے یہ کیس کی جانب بھی نکلنا پڑا 🤔 .

اکثر اور اکثر پولیس کے اہلکاروں میں بدعنوانی دیکھنے کو ملتی ہے ، اور یہ بات کتنیจรّی ہوتی ہے کہ وہ ان پر کارروائی کرنے سے پہلے تو جس جسم کی گریوٹ بھی چاہتے تھے اور یہ کیس کتنے غیرت کے ساتھ کھیلنے والے ہیں وہ ابھی پتا نہیں 😂
 
ایسا تو پتہ چلتا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں واضح طور پر اس کی خالی حیثیت سाबित ہوئی تھی لیکن پولیس نے اس کو یقینی بنانے کے لئے بہت زیادہ تشدد اور دھمکیوں کا استعمال کرکے جھوٹا اعتراف کرنے پر مجبور کیا تھا جو بے پناہ ہے؟ اسے بلایا گیا، پوچھ گچھ کیے جائیے اور انہیں دھمکیوں سے دھکواڑا کیا جائے تو یہ شہرت مند ڈپٹی کمشنر بھی نتیجہ کی جانب توجہ نہیں دیتے؟
 
اس سزا وٹنے والے کو رہائی دی گئی تو اس نے بڑی ہمت جیسا بتایا ، اور یہ کہ انھیں ایسے تشدد اور دھمکیوں سے مجبور کیا گیا تھا جو اپنی زندگی کو توڑ کر رکھتے ہیں ، اس کی بات سمجھنا بہت مشکل ہے ، اور یہ کہ انھوں نے جھوٹا اعتراف کیا تھا تو بھی اس کے بارے میں کسی کو شک نہیں ، لکین یہ بات کچھ دیر سے معلوم ہوئی ہے اور یہ کہ پولیس نے انھیں پوچھ گچھ کے لیے بھی بلایا تھا ، جو۔
 
عقیدہ کی جڑیں پتہ چلنے دے دیتی ہیں ، یہ بات کھانے کے لیے تھوڑا سا عزم اور ایک بھرپور مظالم کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس معاملے میں جس رہائی ہوئی اس پر فخر کروانے والے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ قانون کی بھرپور عید نہیں مل سکتی۔

تیری جگہ پھنسنے کے لیے پوچھ گچھ کے لیے 22 بار بلایا جانا اور انہیں نہ صرف لھوڑی بھر دی گئی بلکہ بنیادی ضروریات سے محروم رکھنا بھی دیکھنا ہی نہیں تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جو قانون کے خلاف کارروائی کر رہے ہوتے ہیں انہیں بھی ایسے لٹکایا جاتا ہے کہ انہیں کبھی بھی واپس نہیں آ سکتے۔

اس پر کسی کی غلطی دیکھنا زیادہ مشکل ہوگا۔
 
بھیڑ پھڑ سے یہ بات چٹکنی ہوئی ہے کہ پولیس اہلکاروں کو قانون کی تعلیم دینی نہیں ہے ، انہیں محض پریشانی سے جھٹکوانا چاہیے۔ پیٹر سلیوان کے حالات نہایت مایوسی کی وجہ بن رہے ہیں ، اور وہ یہ بات کبھی بھی نہیں کہتے کہ ان کا یہ خوفناک تجربہ انہیں معاف کرنے والا ہے۔ آج تک پولیس نے اسی طرح کی جھوٹی اور بدعنوان کارروائیوں پر نظر انداز کیا ہے۔
 
اس معاملے میں سچائی کی پوری بات چلیں تو یہ بات بھی چلنی چلیگی کہ پولیس افسرز نے قانون کا احترام کیا ہو یا نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کارروائی کی تھی لیکن یہ بات بھی چلنی چلیگی کہ 22 مرتبہ پوچھ گچھ کی بلاتکلیف کیا گیا تھا اور اس پر انہیں جسمانی تشدد اور ملازمت سے رکاوٹ پھیلائی گئی تھی ، مگر یہ بات بھی چلنی چلیگی کہ کونسے معاملات میں اس طرح کی غلطیوں ہوتی ہیں وہی معاملے ہر ایک کو نہیں معلوم ہوتے ۔
 
اس کا یہ جھوٹا تعلق اس وقت تک بھی باقی ہے جب تک پیٹر سلیوان اپنی دھائے کی بات نہیں کرے گا 💯 اور پولیس کو اپنے غلطیوں پر انکسار نہیں کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون کی پابندی، مگر کبھی بھی اِس طرح کی دھمکیوں سے انکار نہیں کیا جاتا، یہ دیکھنا مشکل ہی نہیں ہے کہ جو لوگ قانون کے خلاف کام کر رہے ہوتے ہیں ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، مگر یہ بات تو بھی صاف ہے کہ اس معاملے میں کوئی غلطی ہوئی اور یہ اِس فاتحہ کی نہیں تھی کہ وہ جیل سے باہر آ پڑے.
 
پتہ چلتا ہے انہوں نے کیسے ایسا سچ چھुपایا؟ 1986 میں اس کا تعلق وہی نمونہ ہوا جسے پتہ چلتا ہے اُس سے 22 بار پوچھ گچھ پر بلیک مینٹ نہیں کیا گیا، یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انہیں مارا پیٹا اور ضروریات سے محروم رکھا گیا تاکہ وہ جھوٹا اعتراف کر دے .
 
🤯 اس کا سلوک بہت متعصبینہ تھا , ان سے پوچھ گچھ کرنے والے وہ نہ صرف بری طرح ٹھریت دیتے تھے بلکہ اُن کے باپ بیٹے تک دباوں میں بھی لاتھے تھے۔ اگر ان سے پوچھ گچھ کرنا ناچنے والا ہوتا تو ان کی جان کے لیے ایسا نہیں ہوتا اس جیسا دباؤ پہلے کے شکار میرے بھائی کو ہوا تھا اور وہ جو معاف ہوئے ان کی بہت سی لائے جات کرلیں گے۔
 
اس جگہ پر ایسے معاملات بھی آتے ہیں جن سے خون بھر کے دل کو ٹوٹ پڑتا ہے اور یہ بات بھی دلوں میں لگتی ہے کہ کیا ہوا تھا ، 1986 سے شروع ہونے والے معاملات میں پیٹر سلیوان کو ایسا انکار جرم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جو اب تک کی تاریخ میں بے مثال ہے ، ہم نے یہ کہا کہ وہ اس معاملے سے نجات پانے والے مظلوم شخص کو پولیس نے بے پناہ تشدد اور دھمکیوں سے مجبور کر کے جھوٹا اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا تھا ، یہ وہ معاملات ہیں جو ہمیں اس بات کو یاد دلاتی ہیں کہ ہم سب کی جانے والی انصاف کا راستہ بھی اچھائی سے نہیں چل رہا ہے ، شوق میرے ساتھ ساتھ میرے ساتھ ایک وٹ ساتھ کروڈے کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی حقیقتی آنچ میں رہنا چاہیے
 
بilkul, یہ تو بتاتے ہیں کہ قیدی کو جھوٹا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر اس کے بعد وہ رہا سلاہتے تھے... پولیس نے یہ تمام کارروائیں ڈی این اے کے معاملے میں دکھائی دیں ہیں، اب اس کا معاملہ عدالت کی جگہ پہنچ گیا ہے۔ وہ چارٹر لائس بھی تو بتاتے ہیں اور یہ بات تو ایک جملے میں نہیں چل سکتی کہ وہ کتنا تشدد اور دھمکیوں سے مجبور ہوا تھا۔
میرا خیال ہے اس صورتحال کو محض عدالت کی غلطی قرار دینا ہی نہیں پورا حل ہے، مگر یہ بھی بتاتے ہیں کہ پولیس نے ان تمام کارروائیوں کو قانون کے مطابق کیا تھا اور وہ اپنی جان جب وہیں پہنچ گئے تو... یہ بات یقین کے ساتھ بتائی جا سکتی ہے کہ یہ معاملہ کسی بھی صورت میں ایک بددستور نہیں بننا چاہیے اور عدالت میں پہنچ کر اسے حل کرنا ہوگا۔
 
واپس
Top