پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے زیادہ اس خطے کے درمیان رہنے والے لوگ یہی واضح کر سکتے ہیں کہ یہ دو برادر مسلم قوموں کے دل کا حصہ ہے۔ سرحدی علاقہ جس میں کئی دہائیوں سے خوف اور بے یقینی کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے، اس میں مختلف بدثمرات نکلنے کے ساتھ ہی ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن سے عوام کے ساتھ ساتھ اہم ترین کاروباری سرگرمیوں پر بھی نقصان پڑا۔ ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان ایسے مواقع رہ چکے ہیں جس سے انہیں روزانہ کروڑوں کا نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے امن کے لیے ثالثی مذاکرات میز پر نشست دی تھی جس کے بعد ایک نئی بात چیت کی شروعات ہوئی تھیں مگر ابھی تک اس معاہدے کے نتائج نظر آنے سے کوئی دیر نہیں آئی اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی شروعات ہے جس پر دیکھنا ہوتا ہے کہ اس معاہدے میں کیا ہے اور اس کی کامیابی کیسے ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان نے اپنے تعلقات کو امن اور جنگ دونوں سے بھرپور رہا ہے، اس میں کئی دہائیوں سے غم و خوشی، شور و غل اور خاموشی کی چھت پر دو برادریوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا ایک سلسلہ اور یہی معاملہ ہے جس نے دوستانہ تعلقات کو کمزور کیا ہے مگر آج وہیں ایک نئی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں اور پاکستان کی جانب سے مہاجرین کو بھیجنا، کئی دہائیوں سے جاری معاشی نقصانات اور یہ سب ایک ہی پگھلے سر مندہ تہذیری وارثات کی وجہ سے یہاں ایسے واقعات نکلنے کے ساتھ ہی جس میں دو دھمکے اور دو بار بھی لڑائی ہوئی ہے اس معاملے کی ختم کرنا ضروری ہو گا۔
آج کے وقت آفیشل طور پر بھی ان دونوں ملکوں نے امن اور جنگ دونوں کو پورا کرنے کے لیے ایک معاہدہ تیار کیا ہے جو اس کے بعد پاکستان کی جانب سے افغانستان میں سفیر تفویض کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایسا نرمی کا مظاہرہ ہوا ہے جو اس سلسلے کی تاریخ کے باوجود ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا ہے اور اس معاہدے میں ایسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے جو ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑی نظر آرہے ہیں۔
یہ معاہدہ اس وقت بھی ممکن ہے جب تک افغانستان کی ناقص معیشت، پاکستان کی معاشی مصیبت اور دونوں ملکوں کے درمیان ایسے بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے نظر آرہے ہیں جو ان امکانات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جس پر قابو پانا مشکل ہے مگر دونوں ملکوں کے درمیان ایسی نرمی کی کوشش کرنے کا موقع ابھی تک موجود ہے اور اس معاہدے کے لیے واضح ہے کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کے مفادات کو ان دونوں ملکوں کے درمیان بھرپور تعاون سے نئی راہ کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
یہ معاہدہ پورا کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت کو دھمکے توڑनے اور دہشت گردانہ نیٹ ورکس کی کوئلے کو قتل کرنے کا وعدہ ہے جس کے بعد ایک نئی شروعات ہو سکتی ہے لیکن یہ معاہدے میں طالبان حکومت کی بین الاقوامی شناخت کی بات بھی شامل ہے اور اس کے بعد سے پاکستان کی طرف سے افغانستان کو سفیر تفویض کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے تعلقات میں نرمی کی ایک نئی جھلک نظر آئی تھی اور دونوں ملکوں نے اپنی مختلف وضاعلات کی وجہ سے طویل عرصے سے یہاں کافی دیر گزر چکی ہے، اس سلسلے میں دو برادریوں کے درمیان ایک نئی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے جس کی کامیابی سے دو ملکوں کے درمیان امن اور استحکام پیدا ہو گا۔
دونوں ملکوں میں ایسی نرمی کی کوشش کرنا ضروری ہے جو اس معاہدے کے لیے ایسے اہم مقام پر استعمال ہوسکے جس سے دونوں ملکوں میں ایسے بہتری کی رाह میں رکاوٹ بن کر کھڑی نظر آرہی ہیں، اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی کو ایسے حل پر نظر آنا ضروری ہے جو دونوں ملکوں کے لیے بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بچا جاسکے اور اس معاہدے میں پیدائش کردہ معاشی بھرپور تعاون، ترقی کی راستوں کی بحالی، مہاجرین کے مسئلے کا حل اور سرحدی علاقوں کی معاشی نشوونما شامل ہوسکے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان ایسی بھرپور تعاون کا امکان پیدا ہو۔
پاکستان اور افغانستان نے امن کے لیے ثالثی مذاکرات میز پر نشست دی تھی جس کے بعد ایک نئی بात چیت کی شروعات ہوئی تھیں مگر ابھی تک اس معاہدے کے نتائج نظر آنے سے کوئی دیر نہیں آئی اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی شروعات ہے جس پر دیکھنا ہوتا ہے کہ اس معاہدے میں کیا ہے اور اس کی کامیابی کیسے ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان نے اپنے تعلقات کو امن اور جنگ دونوں سے بھرپور رہا ہے، اس میں کئی دہائیوں سے غم و خوشی، شور و غل اور خاموشی کی چھت پر دو برادریوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا ایک سلسلہ اور یہی معاملہ ہے جس نے دوستانہ تعلقات کو کمزور کیا ہے مگر آج وہیں ایک نئی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں اور پاکستان کی جانب سے مہاجرین کو بھیجنا، کئی دہائیوں سے جاری معاشی نقصانات اور یہ سب ایک ہی پگھلے سر مندہ تہذیری وارثات کی وجہ سے یہاں ایسے واقعات نکلنے کے ساتھ ہی جس میں دو دھمکے اور دو بار بھی لڑائی ہوئی ہے اس معاملے کی ختم کرنا ضروری ہو گا۔
آج کے وقت آفیشل طور پر بھی ان دونوں ملکوں نے امن اور جنگ دونوں کو پورا کرنے کے لیے ایک معاہدہ تیار کیا ہے جو اس کے بعد پاکستان کی جانب سے افغانستان میں سفیر تفویض کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایسا نرمی کا مظاہرہ ہوا ہے جو اس سلسلے کی تاریخ کے باوجود ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا ہے اور اس معاہدے میں ایسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے جو ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑی نظر آرہے ہیں۔
یہ معاہدہ اس وقت بھی ممکن ہے جب تک افغانستان کی ناقص معیشت، پاکستان کی معاشی مصیبت اور دونوں ملکوں کے درمیان ایسے بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے نظر آرہے ہیں جو ان امکانات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جس پر قابو پانا مشکل ہے مگر دونوں ملکوں کے درمیان ایسی نرمی کی کوشش کرنے کا موقع ابھی تک موجود ہے اور اس معاہدے کے لیے واضح ہے کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کے مفادات کو ان دونوں ملکوں کے درمیان بھرپور تعاون سے نئی راہ کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
یہ معاہدہ پورا کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت کو دھمکے توڑनے اور دہشت گردانہ نیٹ ورکس کی کوئلے کو قتل کرنے کا وعدہ ہے جس کے بعد ایک نئی شروعات ہو سکتی ہے لیکن یہ معاہدے میں طالبان حکومت کی بین الاقوامی شناخت کی بات بھی شامل ہے اور اس کے بعد سے پاکستان کی طرف سے افغانستان کو سفیر تفویض کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے تعلقات میں نرمی کی ایک نئی جھلک نظر آئی تھی اور دونوں ملکوں نے اپنی مختلف وضاعلات کی وجہ سے طویل عرصے سے یہاں کافی دیر گزر چکی ہے، اس سلسلے میں دو برادریوں کے درمیان ایک نئی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے جس کی کامیابی سے دو ملکوں کے درمیان امن اور استحکام پیدا ہو گا۔
دونوں ملکوں میں ایسی نرمی کی کوشش کرنا ضروری ہے جو اس معاہدے کے لیے ایسے اہم مقام پر استعمال ہوسکے جس سے دونوں ملکوں میں ایسے بہتری کی رाह میں رکاوٹ بن کر کھڑی نظر آرہی ہیں، اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی کو ایسے حل پر نظر آنا ضروری ہے جو دونوں ملکوں کے لیے بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بچا جاسکے اور اس معاہدے میں پیدائش کردہ معاشی بھرپور تعاون، ترقی کی راستوں کی بحالی، مہاجرین کے مسئلے کا حل اور سرحدی علاقوں کی معاشی نشوونما شامل ہوسکے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان ایسی بھرپور تعاون کا امکان پیدا ہو۔