چائے فروش نے ’سکے‘ جمع کرکے بیٹی کی خواہش پوری کردی - Daily Ausaf

ساز نواز

Well-known member
चائے فروش نے ’سکے‘ جمع کرکے بیٹی کی خواہش پوری کردی

مدناپور میں ایک چائے فروش کا ایسا واقعہ سामनے آیا ہے جس سے آپ کو اچھی طرح نیند آ سکتی ہے۔ اس چائے فروش نے ’سکے‘ جمع کرکے بیٹی کے ایک بڑے خواب کو پورا کر دیا ہے۔

اس چائے فروش کا نام بچو چودھری ہے اور انہوں نے چار سال تک ’سکے‘ جمع کیے تاکہ وہ اپنی بیٹی کو ایک موٹرسائیکل دے سکے۔

چال بیت کرکے چودھری نے ایک ڈرم لے کر آنے والا سائیکل شوروم میں پہنچایا جو اس کے مالک سے بات کرتے ہوئے انہیں بتاتا ہے کہ وہ سکوں سے بھر کر آئے تھے۔

انہوں نے پوچھا کہ یہ سائیکل قسطوں میں کیسے خریدا جا سکے گا، لیکن شوروم کا کارنچری ارندم اس پر رضامندی ظاہر کرنے لگا اور انہیں بتایا کہ وہ چار سال تک جمع کیے گئے ’سکے‘ کے ساتھ سائیکل خریدے گا۔

ان کے مطابق ایک شخص آیا جس نے بتایا کہ وہ قسطوں میں سائیکل خریدنا چاہتا ہے، لیکن اس پر رضامندی ظاہر کرنے سے قبل انہیں بتایا کہ وہ ریٹیل کی رقم میں ادائیگی قبول کریں گے۔

جب انہوں نے ہاں کہا تو انہوں نے ہی سکوں کے ساتھ سائیکل دکھایا جس میں ایک لاکھ 10 ہزار روپے کی تعداد تھی۔

شوروم کے ملازمین کا کہنا ہے کہ سکوں سے بھر کر ڈرم اتنا بھاری تھا کہ اسے فرش پر خالی کرنے کے لیے آٹھ ملازمین کی مدد لے گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سائیکل خریدتے ہوئے تقریباً دو گھنٹے بھر کوشش کی گئی اور ان کو آخری میں یہی نتیجہ ملے۔
 
ایسا واقعہ دیکھتے ہی اچانک دل کا دورہ ہو جاتا ہے۔ ایک چائے فروش جو کچھ لاکھ روپے کی ایڈیشن تھا، نے اپنی بیٹی کو موٹرسائیکل دेनے کے لیے پانچ سال تک ’سکے‘ جمع کیے ہوئے اور اب وہ اس سائیکل خریدنا چاہتی ہے۔

اس سائیکل کو لینے میں اتنیDifficulty ہوئی کہ دو گھنٹے سے زائد کا عرصہ لگا اور پچیس ملازموں کی مدد لینے کے باوجود یہ نتیجہ ملے کہ وہ سائیکل بھی کچھ ایسا ہی رکھ دیا جہاں پھر اسے خریدنا پڑے۔

اس معاملے میں سب کو ایک بات یاد آئی ہے، جب آپ کسی بڑے ساینس کی کوشش کر رہے ہو تو کسی نہ کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حب الوطنی کو ایسا بھی نہیں سمجھنا چاہئے جو دوسروں کی مدد سے آپ کے کاموں کو آسان بنائے۔
 
عزیزو، یہ واقعہ تھا کہ ہم سب نے سوچا تھا کہ ایک چائے فروش اس بات پر کام کرنا پہلے سے کرسکتا ہے۔ لیکن یہوں تک کہ بھارosa سے کم عجائب اور دیکھنے کو ملتا تھا!

اس چودھری صاحب کی جانب سے ایک دکھ رہا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو موٹرسائیکل دے سکے، اور انہوں نے ’سکے‘ جمع کرکے اس گناہ کا عذاب بھگتایا تاکہ وہ اپنی ایک سہولت کی خواہش کو پورا کرسکتا ہو۔

اس جگہ ’سکے‘ کے تعلقات کی ایسی حد تک کچھ پڑی تھی کہ اسے گاڑی کے دیکھنے اور خریدنے میں ڈیرہ کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ایسا اچھا نتیجہ بھی حاصل کیا کہ اب وہ اپنی بیٹی کو موٹرسائیکل دے سکے گا!

اس واقعہ سے اس بات کی یاد رکھنا چاہیے کہ ’سکے‘ جمع کرنا ایک بڑی کام ہوتا ہے، اور جب اسے کام کرتے ہوئے ڈیرہ کرنے کی کوئی حد پہچانی جائے تو وہاں تک بھی یہی نتیجہ ملتا ہے کہ ایسا کام کیا جا سکتا ہے جو اس لیے کہل رہاتا تھا کہ اس کا جواب ’سکے‘ تھا!
 
اس چائے فروش کو دیکھتے ہوئے فخر ہوتا ہے اور کچھ لوگ ان کی جانب ایسے افراد کا سچا شاندار معاملہ دکھای رہے ہیں جو بھرے ڈرم پر موٹرسائیکل لانے کے لیے چار سال تک ’سکے‘ جمع کرنے کی شراکت کرتے ہیں۔
 
یہ ایک اچھا واقعہ ہے! اس چائے فروش بچو چودھری کی دل دلوں کی بات تو بے مثال ہے! انہوں نے بیٹی کے لیے ایک بڑا سونے کا گھنosa لکڑا اور اس پر بھر بھر کیا ہے۔ وہ تو ایک موٹرسائیکل اس لیے چاہتی تھی کیوں نہیں! 🤩

انہیں واضع کرونا چاہئے کہ سکوں سے بھر کر ڈرم اتنا بھاری تھا کہ اسے ایک لاکھ روپے میں لے جانا پورا عزم تھا! 😮

اس نے دوسروں کی مدد سے بیٹی کو وہ سائیکل ملا۔ اس کی بات تو بھر پور احترام ہے۔
 
بہت ایسا ہی واقعات سामनے آ رہے ہیں جہاں لوگ اپنے بچوں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے چار سال تک بھٹکاوں جمع کرتے رہتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ واقعات ہو رہے ہیں۔
 
ایسا واقعہ ایک بار پھر سامنے آیا ہے جس سے آپ کو دل کھinna kar dega 🤯. ایک چائے فروش نے اپنی بیٹی کے دوسرے بڑے خواب کو پورا کر دیا ہے، اور یہ وہ سکوں سے بھر کر ڈرم ہے جو انہوں نے چار سال تک جمع کیا تھا 🤑. اب وہ اسے ایک موٹرسائیکل خریدنے کے لیے تیار ہیں۔

لیکن یہ سائیکل اس ملازم کی ملکیت تھی جو چودھری نے سکوں سے بھر کر ڈرم لے کر دیکھتے ہوئے ان کو بتایا کہ اسے وہ اپنی موٹرسائیکل خریدنے کے لیے رضامند ہیں 🤔. اور یہ بات بھی تھی کہ وہ سکوں سے بھر کر ڈرم کو کس رقم میں ادائیگی قبول کریں گے؟

جب انہوں نے اپنی رپورٹ پوری کی تو انہیں بتایا کہ اس ڈرمیں ایک لاکھ 10 ہزار روپے کی تعداد تھی، اور وہ خود سکوں سے اسے دکھاتے ہوئے ان کو بتایا کہ یہ ایسا ڈرما تھا جو انہوں نے چار سال تک جمع کیا تھا 🤑.
 
بھول جائو اس چال کو! 😂 चودھری صاحب نے پچاس لاکھ سکوں کی کوشش کرکے ایک موٹرسائیکل خریدنے کا ایسا ڈرامہ بنایا ہے جیسا کوئی نہ کوئی اس طرح کے ڈرامے دیکھتے ہیں۔ اور وہاں بھی ایک یہی معمول تھا۔

اس جگہ سکوں کی جمع کرنے کا ایسا ڈرامہ نہیں دیکھا گیا ہوتا کہ لوگوں کو اچھی طرح پٹھا مار دیا جائے، ان میں سے جو بھی کسی کی طرف بہت زیادہ متاثر ہو گئے وہ تو ایک دوسرے کے سامنے ناکام ہوجاتے ہیں اور آخر میں سارے کمزور ہو جاتے ہیں۔

جب اس چائے فروش کے حوالے سے بات کر رہے ہوتے ہم تو ان کی ایسی بھی مدد کرنے والی نہیں تھے بلکہ یہ چال اچھی طرح اٹھا کر دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں کون سا معاملہ ہے؟
 
ایسا تو بہت ہی دلچسپ واقعہ ہے اس چائے فروش پر میں کafi احترام ہے انھوں نے اپنی بیٹی کی خواہش کو پورا کیا ہے اور یہ بات بھی کہی کہ وہ سکوں سے بھر کر گئے تھے، اس کی انھوں نے اپنی زندگی کا ایک اچھا उदाहरण بنائی ہے 😊
 
ارے بچو چودھری کو بھی یہ تو حقیقت میں فائن ہے، اس نے اپنی بیٹی کا خواب پورا کیا اور اب وہ ایک موٹرسائیکل سے لطف اندوز ہو رہی ہے, لیکن میرے پاس یہ سوچنا ہے کہ جہاں تک آرے لوگ ڈرم پر سکوں کے ساتھ ایک سائیکل رکھتے ہیں تو وہاں بھی یوگ پر چل کر کچھ نہیں ہوتا, مگر میٹرو کے پلیٹونڈ میں ساجنا ہر روز کچھ مختلف ہوتا ہے؟
 
اس بات پر ایک سے زیادہ چال بیت کرکے لوگ جمع کرائیے ہوئے سکے کے لئے دوسرے لوگوں کو بھی بوجھ دیا جاتا رہا ہے، یہ تو ایک بات صاف ہے۔ لوگ اپنی مدد کو ٹولز اور سسٹم میں چھوڑ کر ایسے ڈیمنڈنگ اقدامات کا مشق کرتے ہیں جس سے لوگوں کی کوشش بھی خراب ہو جاتی ہے۔ یہاں میں ایک پلیٹ فارم پر اپنی رائے دی رہا ہoon جو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسے کردار کی طرح نہیں بڑھتے۔
 
ياہاں تک کہ چودھری نے موٹرسائیکل ایکپلی کو اپنی بیٹی کی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اس بات پر خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ سائیکل خریدنے کا ایک بھرپور واقعہ تھا جو نیند آسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس چودھری کی دیرپائی اور بیٹی کی خواہش کی دہشت گردی نے انہیں ایک مفید مواقع پر ملازمت فراہم کی ہوگی
 
اوہ چال ہے! چودھری صاحب نے اپنی بیٹی کے لیے ایک بڑا خواب پورا کر دیا ہے اور یہ دیکھ کر آپ کو اچھی طرح نیند آئی ہوگی۔ اس چال کا مقصد تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک موٹرسائیکل دے سکے، لیکن وہ صرف چار سال تک سکوں کی جمع کر کے آئے تھے جس کا مطلب ہوا کہ وہ اسے قسطوں میں خریدنا چاہتے تھے۔

شوروم کے ملازمت میں کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ چودھری صاحب کو یہ دیکھ کر آخر میں یہی نتیجہ Mila.
 
اس چائے فروش کی جانب سے ایسا یہ واقعہ ہو گیا ہے جو آپ کو اچھی طرح حیران کر دے گا۔ اس کے چودھری صاحب نے اپنی بیٹی کو موٹرسائیکل دेनے کی خواہش کو پورا کر دیا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ اسی سے اس کے بعد بھی کچھ تھمکہیں نکلے گی۔ کیا یہ صرف ایک توازن تھا؟
 
ایسا تو نے سنیا ہے جو لوگ اپنے دوسروں کے لیے کیا کرتے ہیں وہاں آمادیدوں پر بھی اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دوسروں کی آمادیدوں کو پورا کرنے کے لیے لگاتار کام کرتے ہیں. یہ بھی ایک بات ہے کہ نہیں تو وہ لوگ ہوتے جن کی آمادیدوں کو ہمیں اپنی زندگی میں پورا کرنا پڑتا ہے.
 
واپس
Top