پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا واضح فैसलہ کیا ہے، جو کہ آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اہم قدم ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں گزشتہ روز دیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر امور کمیٹی کو پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اس ایسی صورت میں آئین ساز اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے صدر زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے رابطہ کیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر امور کمیٹی کو پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس صرف 17 اراکین موجود ہیں۔ آئین ساز اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے 9 رکن، پاکستان تحریک انصاف کے 4 رکن، مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے ایک رکن، اور فارورڈ بلاک میں 20 رکن شامل ہیں۔ اس صورت میں مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 26 ہو جائے گی۔
تاہم، مسلم لیگ ن کے آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر اور سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہیں گے اور حکومت سازی کا حصہ نہیں بنیں گے، جس سے فارورڈ بلاک کے اراکین کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے نمبر گیم مکمل کرنے کے لیے فارورڈ بلاک کے رکنوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔
جاری رہنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت حکومت بنانے کی حکمت عملی پر مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور آنے والے دنوں میں اہم سیاسی پیشرفت کی توقع ہے، تاہم اب تک پارٹی نے مطلوبہ تعداد کے حصول کی تصدیق نہیں کی ہے۔
عزیز قائم الحاجت، یہ سچ نہیں کہ حکومت پاکستان میں چلنے کی کوشش کر رہی ہے یا انہیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ اپنی پارٹی کی صلاحیتوں کو بھر نہیں پا سکتی؟
اور وہ لوگ جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لیے انہیں چند رکنوں کی تعداد حاصل کرنی پڑے گی، تو وہ لوگ بھی کیا کرتے ہیں? اور ایسے حالات میں انہیں ابھی بھی صدر زرداری سے رابطہ کرنا پڑتا ہے؟ یہ تو نوجوانوں کا ایک ناًنا کہلانے والا دور ہے!
اس بات پر مجھے انساف ہوا ہے کہ اس میں اچھا منظر نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کو عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ملازم نہیں تھے اور اس کی رکنیت ایسے اہل علم نہیں تھے جو آزاد کشمیر کے معاملے سے جانیا جاسکے۔
اس وقت پاکستان میں وہ پہلی بار ہوتے ہوئے ہیں جو اپنی پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے بھرتیں دے رہے ہیں اور یہ ایک بدترین نئی روایت ہے۔
اس سے میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی رکن اگر اپنی پارٹی کی قیادت کرتا ہو وہ ایسا کردار ادا کرے جو اس کی پارٹی کے لیے مفید ہو گا۔
منہ بھر پیپلز پارٹی کی ایک بار फिर سےPolitics میں اہم کردار ادا کر رہی ہے. اب وہ آزاد کشمیر پر قابو پانے کے لیے اپنا تیزاب بھر رہی ہے. اس بات کو کوئی نہ کوئی جانتا ہے کہ آزاد کشمیر کی صورتحال ایسے میں آ گئی ہے جس سے ایک حکومت بنانے کا راستہ واضح ہو گیا ہے. لیکن اچھی بات یہ بھی ہے کہ اب تک پیپلز پارٹی کو اپنی طرف اشارے کی گئی ہیں اور وہ انہیں صاف ساف سمجھ رہی ہے. اس صورت میڰسے فارورڈ بلاک کے رکنوں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے پر زور دیا جائے گا. اس لیے اب تک دیکھنا مeryl اچھا نہیں تھا. کافی ترغیب حاصل کی جا رہی ہے۔
اس صورت میں سچ منے گا کہ آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی تو یہ واضح ہوگی کہ وہ اپنے منصوبے پر کس حد تک بھروسہ کر رہا ہے
جاری رہنے والی حکومت بنانے کی حکمت عملی کو لیے مسلم لیگ ن کے اچھے موقف سے ناکام ہونا بھی یقینی ہوگیا ہے، جبکہ فارورڈ بلاک نے اپنی ایسی طرح کی چال آگئی ہے جو اس کے لیے فائدہ مند لگ رہی ہے
ابھی تک یہ سوال یقینی نہیں ہو سکا کہ پیپلز پارٹی حکومت بنانے کی طرف کس حد تک توجہ دی رہی ہے، لیکن اب تو وہ اپنی تحریک کو جھینکنے سے باز رہنے کی کیلیفورنیا تلاش کر رہی ہوں گے
اس بات سے واضح طور پر پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس سے واضح طور پر ایک سیاسی کھیل شروع ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
جب تک پیپلز پارٹی نے اہمیت حاصل کرنے کے لیے معاونت کی کوشش نہیں کی ہے، انہوں نے اس کے بارے میں کوئی سرزمین در جائزہ لے رہے تھے اور یہ بات بھی پتہ چل رہی ہے کہ وہ اپنی اہمیت کی وجہ سے ایک پہلو کو دوسرے سے اپنا نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔
ایساFeels کیا جائے تو اس وقت کو آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کی طرف بڑھ رہی پیپلز پارٹی کے لیے ایک اہم مراحله مानنا چاہئے. پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں دیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر امور کمیٹی کو پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے.
اس صورت میں آئین ساز اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے صدر زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے رابطہ کیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر امور کمیٹی کو پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے.
آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس صرف 17 اراکین موجود ہیں.
اس صورت میں مسلم لیگ ن کے 9 رکن، پاکستان تحریک انصاف کے 4 رکن، مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے ایک رکن، اور فارورڈ بلاک میں 20 رکن شامل ہیں. اس صورت میں مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 26 ہو جائے گی.
تاہم، مسلم لیگ ن کے آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر اور سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہیں گے اور حکومت سازی کا حصہ نہیں بنیں گے، جس سے فارورڈ بلاک کے اراکین کی اہمیت بڑھ جاتی ہے.
پیپلز پارٹی نے نمبر گیم مکمل کرنے کے لیے فارورڈ بلاک کے رکنوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں.
جاری رہنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت حکومت بنانے کی حکمت عملی پر مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور آنے والے دنوں میں اہم سیاسی پیشرفت کی توقع ہے، تاہم اب تک پارٹی نے مطلوبہ تعداد کے حصول کی تصدیق نہیں کی ہے.
وہ ساتھ ہی بھی جاری ہے، پیپلز پارٹی کو اس پر تھوڑا زیادہ زور دینا چاہئے اور وہ اس فیصلے کی توجہ سے محفوظ رہیں گے، کیا نہیں؟ انہیں اپنی پارٹی کی موجودگی کو دیکھنا چاہئے اور وہ اس پر ہمیشہ تر فخر سے کام کریں گی
اس صورت میں بھی کچھ اور کچھ ہو سکتا ہے، لیکن میرے لئے یہ سب ایک ایسا معاملہ ہے جس کا نتیجہ آزاد کشمیر کی حکومت میں آئیں گا اور یہ صرف ایک اچھی طرف بھاگتے ہوئے نہیں ہوگا