نیوزی لینڈ کی عدالت نے ایک سفاک ماں کو اپنے دو کم سن بچوں کے قتل کے جرم سزا سنادی ہے۔
سفاک ماں ہاکیونگ لی، جنوبی کوریا میں پیدا ہوئی تھی، نے اپنے ایک سالہ اور پانچ سالہ بچوں کو 2018 میں دوائیں کی زیادہ مقدار دیکر جان بوجھ کر قتل کیا تھا۔
قتل کے بعد وہ ان جسموں کو پلاسٹک میں لپیٹ کر سوٹ کیسوں میں رکھی اور ایک اسٹوریج لاکر میں چھوڑ دیا تھا۔
بچوں کی لاشوں کو 2022 میں آن لائن نیلامی سے استورج لاکر خریدنے والے ایک خاندان نے کھولا تو ان میں انسانی گلی کا تھا۔
نیوزی لینڈ پولیس نے اسی وقت تحقیقات شروع کر دی تھی لیکن ملزمہ ابائی ملک جا چکی تھی۔ جس پر نیوزی لینڈ نے جنوبی کوریا سے ملزمہ کی حوالگی کے لیے مقدمہ بھی کیا تھا اور جس کے نتیجے میں ملجمہ کو جنوبی کوریا سے لاکر نیوزی لینڈ میں مقدمہ چلایا گیا۔
ملزمہ نے عدالت میں خود کو پاگل پن کا مریض قرار دیکر معافی کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے اس کی سماعت مسترد کر دی۔ ملزمہ کے وکیل نے بھی Defense of the Innocent کہتے ہوئے Diet کہا کہ عمر قید نا انصاف ہو گی اور جج جیوفرے ویننگ نے یہ کہا کہ آپ جانتی تھیں کہ آپ کا جرم اخلاقی طور پر غلط تھا۔
جج نے مزید کہا کہ شاید آپ اپنے بچوں کو اپنی سابقہ خوشگوار زندگی کی یاد کے طور پر برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔
عدالت نے ملجمہ کو عمر قید کی سزا دی جس میں 17 سال کی کم از کم غیر مشروط قید شامل ہے۔
یہ کیس ایک حیرت انگیز واقعہ ہے، مگر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ نئے نیوزی لینڈ کی حکومت، پالیسی اور انٹرنیٹ کی واضح سانس کی صورت میں سزا سنانے میں کیسے تاخت رکھی، جس کے بعد ملزمہ نے بچوں کو ایسا ہی جان بوجھ کر قتل کیا؟ اس سلسلے میں یہ سوچنا ضروری ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت کی پالیسیوں پر انٹرنیٹ کی واضح سانس کی وجہ سے ملزمہ کو ٹھیک نہیں سمجھایا گیا؟
جس جگت پر رکھا گیا ہے وہ ایک گہرا ماسحہ ہے۔ ایک ماں جو اپنے دو بچوں کو جان سوز کر دیتی ہے اور ان کے جسم کو پلاسٹک میں لپیٹ کر رکھتی ہے وہ ایک جادوगर کی طرح کھلنے والی آجتھے ہیں۔ اس کی سزا سے بھی ان کا جسم ٹوٹنا نہیں چاہیے بلکہ ان کے دلتاں اور اسے ملنے والا ایک خاندان جس نے ان کے جسم کو پلاسٹک میڰ کر رکھا تھا وہ بھی اس کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے جس سے ہمیں انسانیت کی جانب سے دور ہوتے ہوئے ایک پائپ آئیڈل کا مظاہرہ دیکھنا پڑتا ہے۔
یہ گھناسٹی کا ایک معادو ہے! یہ دیکھنا بھی تھا کہ ملزمہ اپنی کھوتی مرگی کی وجہ سے جانیں چکی تھیں اور اب وہ قید میں ہو کر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا جرم تھا یا نہیں؟ لاکھوں لوگ اپنی زندگی میں ایسے نقصان دہ فیصلوں سے گزرتے ہیں اور اب اس ملجمہ کو پھر سے اسی جگہ تک لایا گیا ہے جو یقینی طور پر ان کے لیے بد قیمتی پہلے کی ہوگی اور اب وہ اپنی غلطی کو سمجھ کر اپنا کیا کہے؟
اس کا ایک گھنٹا بھی پوری دنیا سے جوڑتا ہوا نہیں، یوں تو جس ملزمہ پر قتل کرنا تھا وہ اب اپنی عمر قید کی سزا سن رہی ہے اور اس کے بعد بھی کوئی بات نہیں۔ ایک ماں جو اپنے دو بچوں کے قتل کا ذمہ دار ہونے کی بڑی گریฮت سے دھکے لگاتی ہے اور پھر ان جسموں کو اسٹورج میں رکھ کر ایک نیلامی سے بہت کم کीमत پر خریدنا تو گزائش کا ایک نئا ماحول ہو گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ایسی ہی ہے اور جھگڑے بھی ٹوٹتے ہیں۔
یہاں یہ رکھنہ ہوگا کہ یہ عدالت نے ایک بہت بد ترین کرپٹ ماں کو سزا دی ہے، جو اپنے دو کم سن بچوں کے قتل کے جرم مجرم بن گئی تھی। #سزامرکرپٹ #بچوںکاختنہ
ان کے ساتھ ان بچوں کی لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ کر سوٹ کیسوں میں رکھا اور آن لائن نیلامی سے استورج لاکر خریدنے والے ایک خاندان نے کھولا تو ان میں انسانی گلی کا تھا #بچوںکیلاشہ
نیوزی لینڈ پولیس نے تحقیقات شروع کر دی تھی لیکن ملزمہ ابائی ملک جا چکی تھی، جس پر نیوزی لینڈ نے جنوبی کوریا سے ملزمہ کی حوالگی کے لیے مقدمہ بھی کیا تھا #عدالت
ان کو عدالت میں پاگل پن کا مریض قرار دیکر معافی کی درخواست کی تھی، لیکن عدالت نے اس کی سماعت مسترد کر دی، اور جج نے یہ کہا کہ آپ جانتی تھیں کہ آپ کا جرم اخلاقی طور پر غلط تھا #عدالت
تازہ سزا میں 17 سال کی عمر قید شامل ہے، جو ایک بہت زیادہ سزا ہے اور اس سے ملجمہ کو بدلے نہیں مل سکا #سزامرکرپٹ
یہ سب کچھ تو ایک بہت سا دکھ و مایوسی ہے، میٹھی تو نہیں اور گھنے گہرے تھے اس قتل کی اقدامات، چاہے وہ ملزمہ کے دلوں سے پوچھ لی جائیں یا اس وقت کی حالات کو دیکھا جا۔ ایک ماں جو اپنے دو بچوں کو قتل کر دیتی ہے، وہ تو یہ تو ان کے لئے نہیں بلکہ ان کے جسم کو پھانستے ہوئے کام کر رہی ہوتी। اور اب وہ اس قتل کی سزا پاتے ہوئے، یہ تو بھرپور نستحکیم کا مظاہر ہے، بلکہ یہ سزا ایسے ملزمیوں کو دوئیں کا بھی شکار بنانے کی تیز گٹار لگاتی ہے جو اپنے جسموں کو پلاسٹک میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں اور ان کو استورج لاکر کھانے والے لوگوں کی شاپنگ مہلت ہے؟