اپر چترال کے بالائی علاقوں میں ایک نامعلوم بیماری نے سفیدے کے درختوں پر تیزی سے اثر ڈالا ہے، جس کی وجوہات سے محض واضح نہیں ہیں۔ یہ بیماری دیکھنے میں بہت خطرناک ہے، اس کے باعث درختوں کے پتے اچانک سوکھنے لگے ہیں اور جھڑنے لگے ہیں، جو علاقائی معیشت کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔
سفیدے درختوں کی پہچان نہ صرف ایک خوبصورتی کے لیے بلکہ وہ ایسی لکڑی فراہم کرتے ہیں جو کم خرچ میں مفید ہوتی ہے، اس کی وجہ سے یہ درخت پورے علاقے میں بہت مقبول تھے اور یہاں کے باغبان انہیں نئے لینے پر ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
اب سے ہر روز یہ بیماری مزید تیزی سے پھیل رہی ہے، اور واضح طور پر اس کی وجوہات تک نہیں پہنچا سکا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کے اثر کو روکنے کی کوشش میں محکمہ جنگل اور ماحولیاتی ماہرین کو اپنی توجہ دی جانی چاہیے، جس سے مزید نقصان سے بچا جا سکے گا۔
ہمیشہ سے یہ بیماری واضح رہی ہے کہ اس کی وجوہات تک پہنچتے ہیں، لیکن اب یہ بھی اس بات پر متفق نہیں تھے کہ کیا ان کا حل مل گیا ہے؟ ہم نے سیکرٹری ماحولیاتی اقدامات کی جانب سے یہ کہنا بھی کہہ دیا تھا کہ وہ اس بیماری کا انکشاف کرنے پر اٹھے گئے تھے، لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ یہ نہیں ہوا۔
باغبانوں کو اپنی جانب سے بات کی جائے چاہئے، انہیں یہ بتایا جانا چاہیے کہ اگر انھیں اس بیماری کا علاج کرنا نہ ہو تو وہ اپنی زندگی گزارنے میں تباہ ہوجائیں گے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ انھیں یہ بھی بات بتائی جائے چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو اچھی طرح سے نئی لگائیں گے۔
جیتے ہیں! یہ بہت گھناسپتی کی بات ہے. سفیدے درختوں پر اس بیماری کا اثر ڈالنا، اب تک کیا پلاں رہا؟ ہمیں ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہئیے تاکہ انھیں اس بیماری سے بچایا جا سکے.
سفیدے درختوں کو ایک دیکھنے میں بھی خطرنا ہے، ان کی پتے سوخنے لگیں اور جھڑنے لگیں تو ان کا کام بھی ٹُٹ جاتا ہے، اور ایسا تھوڑا ہی عرصہ پہلے ہی اس کے نتیجے میں آ رہا ہے۔
بہت خوفناک ہے، سفیدے درختوں پر اس بیماری کی تیزی سے پھیلنے کا یہ بے وقفہ موڑ۔ لگتا ہے یہ شہر کو بھی نقصان پہنچائی گا، خاص طور پر جس شہر میں وہ زیادہ مقبول تھے۔ اور اب ان سے ناکام رہتے ہوئے محکمہ جنگل کے لیے کیا بچا کرگا؟ اس وقت کو ایک موہر بنانے والوں کی ضرورت ہے جو اس بیماری سے نمٹنے میں مدد کر سکیں۔
اس بیماری کو روکنے کے لیے پوری اقدامات کی ضرورت ہے، لگتے ہیں انھیں ایک ٹیم بنائی جانی چاہئے جو اس بیماری کا مطالعہ کریں اور اس سے نمٹنے کے لیے آپشنز کی تلاش کریں۔
یہ بیماری کس کی Cause ہو سکتی ہے؟ میرے خیال میں یہ وہی Thing ہو سکتی ہے جو انھوں نے Tell کر رکھی تھی، لیکن اگر یہاں تک پہنچنا مشکل ہے تو کیا اس کی Cause معلوم نہیں ہو سکتی؟ مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے جو کہا تھا وہ Bat ہوا ہے، لیکن اگر اسی Reason کے Cause ہیں تو یہ بھی Bat ہوا ہے کہ انھوں نے کیا تھا؟
ایسے بدتختیوں کی پیداوار ہر روز زیادہ ہوتی جا رہی ہے، اور اب یہ بھی بات واضح ہو گئی ہے کہ ہم اپنے علاقے کی صحت کو کس طرح محفوظ بناتے ہیں؟ اس بیماری نے ایسی پیداواری لکڑیوں کو تباہ کر دیا جس کے بغیر یہ علاقہ بھوک سے دوچکڑا ہوا۔
باغبانوں کو اپنی جانب سے دیکھنا چاہئے، ان کی زندگی تباہ کرنے والی پیداواری کارروائیوں پر فوج نہیں کرتے، لیکن آج اس بیماری نے ہر کوہ سہارا اٹھاکر یہاں تک پہنچ دیا ہے کہ اب ان کے لیے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آپ کی زندگی گزارنے کے لیے یہی نہیں ہے بلکہ یہاں تک پہنچ کر یہ سہارا اٹھنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
جب تک پانی دوسرے درختوں پر پھیلتے رہتا ہے تو یہ بیماری اس طرح کے درختوں میں بھی پھیل سکتا ہے، وہ سب ایک دوسرے کو آلودہ کر سکتے ہیں!
آبادی کی ذمہ داری ہے کہ اس بیماری کو روکنے کے لئے ہمیں ایسی چीजیں بنانے کی کوشش کرنی ہو جس سے درختوں پر یہ بیماری نہیں پھیل سکتا.
اس بیماری کے بارے میں غبٹناک ہے، پہلے اس کی وجوہات نہیں پہچانی گئیں اور اب یہ بھی واضح نہیں کہ اس کا حل مل گیا ہے یا نہیں؟
اس بیماری سے متاثر ہونے والے درختوں کو تو دیکھ کر ہی دل تباہ ہوتا ہے، ان کے پتے اچانک سوکنے لگتے ہیں اور جھڑنے لگتے ہیں، یہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے لیے بھی بھارپور ہوٹل کی طرح کچھ ہو سکے!
باغبانوں کو اپنی جانب سے بات کرو چاہئے، انھیں یہ بتایا جانا چاہیے کہ اگر انھیں اس بیماری کا علاج کرنا نہ ہو تو وہ اپنی زندگی گزارنے میں تباہ ہوجائیں گے، اور یہ جاننا ضروری ہے کہ انھیں اپنی زندگی کو اچھی طرح سے نئی لگائیں گے!
اس بیماری کی وجوہات تک پہنچنا مشکل ہے لیکن یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اسے روکنے کی ضرورت ہے. اس بیماری کو روکنے کے لئے محکمہ جنگل اور ماحولیاتی ماہرین کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے.
اس بیماری نے سفیدے درختوں پر بہت تیز ہاتھ پکڑ لیا ہے، اور اس کی وجوہات تک پہنچنا مشکل ہے. ایسے میں اگر انھیں روکنے کے لئے کوشش کی جائے تو نقصان سے بچا جا سکے گا اور درختوں کو بھی نجات ملیگی.
اس بیماری کی وجوہات تک پہنچنا مشکل ہے لیکن یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اسے روکنے کی ضرورت ہے.
یہ ٹھوس ہے، درختوں پر یہ بیماری نہیں ہونی چاہئیے۔ ماحولیاتی ماہرین کو اس سے لڑنے کی ضرورت ہے اور محکمہ جنگل کا بھی یہ کام کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بات بھی تباہ کن ہے کہ اس بیماری نے کتنے درختوں کو پہچان لیا ہے اور کیا انہیں ابھی بھی بچایا جا سکتا ہے؟
اس بیماری کا معاملہ تو دیکھنا ہی کافی تھاتا پہلے بھی، لیکن اب یہ حالات تیزی سے بدلتے جارہے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ مرغوب ہوگا کہ ہر روز اسے روکنے کی کوشش کی جاے۔
میں سوچتا ہوں کہ پہلے یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ یہ بیماری کبھی نہیں آئے گی، مگر اب واضح ہوا ہے کہ اس کی وجوہات تک پہنچتے ہیں اور ان کا حل نہیں مل پڑتا۔
ہم سب کو یہ کہنا چاہئے کہ اس مرغوب معاملے میں ہر کس کی جانب سے بھی بات کی جائے، جیسے باغبانوں کو یہ بتایا جانا چاہئے کہ اگر انھیں اس بیماری کا علاج نہ ہو تو وہ اپنی زندگی گزارنے میں تباہ ہوجائیں گے۔