پی ٹی آئی کی جانب سے کیا گیا رویہ، حکومت کو پابندی پر غور کرنا پڑ سکتا ہے اور اس پر ایک نئی پالیسی سے متعلق معاملات پر نظر انداز رہنے کی وجہ سے بھی.
اس्लام آباد میں انٹرنیشنل اسسٹیو ٹل کے ادارے میں ایک ملاقات ہوئی جتھے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اپنے حلقے کے لوگوں سے بات کی اور ان پر تناول کی گئی پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا، جس میں بھرتی فوج کے لیے ایک نئا معاہدہ شامل ہے جو ناوٹس کو مسلسل ایک نئی تیز گتی پر لانے والی پالیسیوں سے متعلق ہے.
رانا تنویر حسین نے کہا، "اگر صورتحال اس طرح رہی اور قیادت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات آتے رہے تو حکومت کو پی ٹی آئی پر پابندی کے آپشن پر بھی غور کرنا پڑ سکتا ہے، یہ ایک نئی پالیسی سے متعلق معاملات پر نظر انداز رہنے کی وجہ سے ہے، اور اس کے حوالے سے جس معاہدے کو اسٹریٹجک ایڈوانس ٹیکنالوجیز بل نے بھی طے کیا ہے اسی کی وجہ سے."
انہوں نے مزید کہا، "ایک صوبے میں وزیر اعظم نے اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں کی تو یہ سیدھی بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور ریاست ایسی روش برداشت نہیں کر سکتی۔"
رانا تنویر حسین نے 2014 سے ان کا اپنا موقف رکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ملکی سلامتی سے کھیل رہے ہیں، اس لیے اس لیے ان کی طرف سے دھرنے کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور بل پھاڑنے جیسے اقدامات سول نافرمانی کی واضح مثالیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "دہرنے کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور بل پھاڑنے اور اورٹیلٹی بلز جمع کرنے جیسے اقدامات سول نافرمانی کی واضح مثالیں تھیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا، یہ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے بھی ہوئے۔"
رانا تنویر حسین نے مزید کہا، "انہوں نے کہا کہ نوازشریف اوربینظیر بھٹو نے کبھی ریاست مخالف تحریک یا سول نافرمانی کا راستہ اختیارنہیں کیا، اور لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوری اندازمی میں ایک دوسرے کی پالیسیوں پر تنقید کی اور نظام کو مضبوط کیا۔"
انہوں نے مزید کہا، "اجداحال بھی اس حقیقت سے متعلق ہے کہ وہ معاملات جو اٹھا رہے ہیں ان میں 18ویں ترمیم پر بات کی جا رہی ہے جس میں کچھ ترامیم پر صوبے نے کارکردگی دکھائی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مکمل واپسی کی بات نہیں، مگر کچھ ترامیم پر صوبے نے کارکردگی نہیں دکھائی جو اس حقیقت سے متعلق ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ کہا جانا چاہئے کہ ان سے منسلک معاملات میں مہاراجہ پاکستان کی برتری کو دیکھنا ہو گا اور اس حقیقت کو جانتے ہوئے حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے جو وہ رکھی ہے."
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ مہاراجہ پاکستان کو دیکھنا چاہئین گے اور اس حقیقت پر غور کرنے چاہئین گے جو ان سے متعلق ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر وہ ان معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی جس کی وہ اپنی پالیسیوں پر مبنی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا
اس्लام آباد میں انٹرنیشنل اسسٹیو ٹل کے ادارے میں ایک ملاقات ہوئی جتھے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اپنے حلقے کے لوگوں سے بات کی اور ان پر تناول کی گئی پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا، جس میں بھرتی فوج کے لیے ایک نئا معاہدہ شامل ہے جو ناوٹس کو مسلسل ایک نئی تیز گتی پر لانے والی پالیسیوں سے متعلق ہے.
رانا تنویر حسین نے کہا، "اگر صورتحال اس طرح رہی اور قیادت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات آتے رہے تو حکومت کو پی ٹی آئی پر پابندی کے آپشن پر بھی غور کرنا پڑ سکتا ہے، یہ ایک نئی پالیسی سے متعلق معاملات پر نظر انداز رہنے کی وجہ سے ہے، اور اس کے حوالے سے جس معاہدے کو اسٹریٹجک ایڈوانس ٹیکنالوجیز بل نے بھی طے کیا ہے اسی کی وجہ سے."
انہوں نے مزید کہا، "ایک صوبے میں وزیر اعظم نے اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں کی تو یہ سیدھی بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور ریاست ایسی روش برداشت نہیں کر سکتی۔"
رانا تنویر حسین نے 2014 سے ان کا اپنا موقف رکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ملکی سلامتی سے کھیل رہے ہیں، اس لیے اس لیے ان کی طرف سے دھرنے کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور بل پھاڑنے جیسے اقدامات سول نافرمانی کی واضح مثالیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "دہرنے کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور بل پھاڑنے اور اورٹیلٹی بلز جمع کرنے جیسے اقدامات سول نافرمانی کی واضح مثالیں تھیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا، یہ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے بھی ہوئے۔"
رانا تنویر حسین نے مزید کہا، "انہوں نے کہا کہ نوازشریف اوربینظیر بھٹو نے کبھی ریاست مخالف تحریک یا سول نافرمانی کا راستہ اختیارنہیں کیا، اور لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوری اندازمی میں ایک دوسرے کی پالیسیوں پر تنقید کی اور نظام کو مضبوط کیا۔"
انہوں نے مزید کہا، "اجداحال بھی اس حقیقت سے متعلق ہے کہ وہ معاملات جو اٹھا رہے ہیں ان میں 18ویں ترمیم پر بات کی جا رہی ہے جس میں کچھ ترامیم پر صوبے نے کارکردگی دکھائی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مکمل واپسی کی بات نہیں، مگر کچھ ترامیم پر صوبے نے کارکردگی نہیں دکھائی جو اس حقیقت سے متعلق ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ کہا جانا چاہئے کہ ان سے منسلک معاملات میں مہاراجہ پاکستان کی برتری کو دیکھنا ہو گا اور اس حقیقت کو جانتے ہوئے حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے جو وہ رکھی ہے."
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ مہاراجہ پاکستان کو دیکھنا چاہئین گے اور اس حقیقت پر غور کرنے چاہئین گے جو ان سے متعلق ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر وہ ان معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی جس کی وہ اپنی پالیسیوں پر مبنی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ اس معاملات میں مدد دیکھی نہیں پائی۔"
انہوں نے مزید کہا، "مگر یہ بھی ان کی طرف سے بتایا جائے گا