پاکستان میں بے روزگاری کا عروج، جو کہ ملک میں نوجوانوں اور ذرتی طبقوں کو زیادہ پھیلنے والا ہے، ایک دیکھنے کو قابل ہے۔ 2021-22 سے بڑھ کر گزشتہ سال ان کی تعداد 80 لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور یہ شہر سے شہر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں روزگار کی فراہمی میں کمی ہو، بلکہ یہ صاف اور ایسی صورتحال ہے جس کے جواب میں نوجوان اور ذرتی طبقے بھی اس وقت ہی پھیلنے لگے ہیں کیونکہ وہ روزگار سے محروم ہو کر بیروزگاری کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ اس بات کو پھینکتے ہیں کہ اس معاشی حالات میں پاکستان کبھی بھی نہیں رہا۔
سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب میں ایک لاکھ 35 ہزار افراد روزگار سے محروم ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 12 لاکھ، سندھ میں 10 لاکھ اور بلوچستان میں تقریباً دو لاکھ افراد بیروزگاری کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح اس وقت سے زیادہ ہو چکے ہیں جس کے بعد اہل قارے نوجوان بھی بیروزگاری کا شکار ہوئے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید پھیلانے والا ہے۔
بے روزگاری سے لاپتہ 59 لاکھ افراد میں 46 لاکھ یعنی 77.5 فیصد نوجوان 15 سال کی عمر سے زیادہ ہیں اور ان میں سے 10 لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیمی ڈگری رکھنے والے بھی ملازمت سے محروم ہیں۔ اس بات کا ایک اور proof ہے کہ بیروزگاری میں نوجوانوں کی فہرست بھی شامل ہو رہی ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ روزگار سے محروم ہونے کے بعد نہ تو اپنی فیکلٹی کی تعلیم کی تکمیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس بات کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ روزگار کی تلاش میں ان پلیٹ فارمز پر ڈھونڈ سکتے ہیں جس میں وہ اپنی ذاتی خصوصیات کو ظاہر کرنے لگتے ہیں اور اس صورتحال میں پھیلنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کا ایک اور ذریعہ یہ بنتا ہے۔
سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں پچھلے پانچ سالوں میں اوسط ماہانہ اجرت میں 15 لاکھ روپے کی اضافی نہیں ہوئی بلکہ اس میں 3000 سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جب روزگار کی فراہمی میں کمی ہو تو وہ لوگ جو پچھلے سات دہائیوں سے روزگار سے محروم تھے، وہ بھی اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں کے ساتھ بیروزگاری کا شکار ہی رہتے ہیں۔
سروے سے بتایا گیا ہے کہ ایک لاکھ 18 لاکھ 30 ہزار افراد روزگار فراہم کرنے والے سروسز سیکٹر میں شامل ہیں، جس نے ملک کو ملازمت فراہم کرنے کا انحصار 41.7 فیصد کیا ہے اور اس سیکٹر کی سالانہ میڈیکل پروفیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام میں 300 بلازسکلیئر ماہانہ اجرت کی پیمانے پر اضافہ کیا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زرعی شعبہ دوسرے نمبر پر ہے جس میں روزگار کی شرح 33.1 فیصد اور ملازمت کی تعداد 2 کروڑ 55 لاکھ 30 ہزار ہے، ان لوگوں کا حصہ ملک کی کل روزگاری کا 32.6 فیصد رکھتا ہے اور اس سیکٹر میں ملازمت فراہم کرنے والی مملکت کو بھی ایک منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت ان لوگوں کو اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں سے زیادہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سروے سے بتایا گیا ہے کہ مصنوعی شعبہ تیسرے نمبر پر ہے جس میں روزگار کی شرح 25.7 فیصد اور ملازمت کی تعداد ایک کروڑ 98 لاکھ 60 ہزار ہے اور اس سیکٹر کا حصہ ملک کی کل روزگاری کا 24.1 فیصد رکھتا ہے، ان لوگوں کو بھی ایک منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں سے زیادہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح ان لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد ملے، ایک منصوبہ جو یہ بنانے کے لئے 50000 لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی اور اس کے لئے نوجوان اور ذرتی طبقے کو بھی اپنا استحکام حاصل کرنا ہو گا۔
سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب میں ایک لاکھ 35 ہزار افراد روزگار سے محروم ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 12 لاکھ، سندھ میں 10 لاکھ اور بلوچستان میں تقریباً دو لاکھ افراد بیروزگاری کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح اس وقت سے زیادہ ہو چکے ہیں جس کے بعد اہل قارے نوجوان بھی بیروزگاری کا شکار ہوئے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید پھیلانے والا ہے۔
بے روزگاری سے لاپتہ 59 لاکھ افراد میں 46 لاکھ یعنی 77.5 فیصد نوجوان 15 سال کی عمر سے زیادہ ہیں اور ان میں سے 10 لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیمی ڈگری رکھنے والے بھی ملازمت سے محروم ہیں۔ اس بات کا ایک اور proof ہے کہ بیروزگاری میں نوجوانوں کی فہرست بھی شامل ہو رہی ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ روزگار سے محروم ہونے کے بعد نہ تو اپنی فیکلٹی کی تعلیم کی تکمیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس بات کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ روزگار کی تلاش میں ان پلیٹ فارمز پر ڈھونڈ سکتے ہیں جس میں وہ اپنی ذاتی خصوصیات کو ظاہر کرنے لگتے ہیں اور اس صورتحال میں پھیلنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کا ایک اور ذریعہ یہ بنتا ہے۔
سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں پچھلے پانچ سالوں میں اوسط ماہانہ اجرت میں 15 لاکھ روپے کی اضافی نہیں ہوئی بلکہ اس میں 3000 سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جب روزگار کی فراہمی میں کمی ہو تو وہ لوگ جو پچھلے سات دہائیوں سے روزگار سے محروم تھے، وہ بھی اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں کے ساتھ بیروزگاری کا شکار ہی رہتے ہیں۔
سروے سے بتایا گیا ہے کہ ایک لاکھ 18 لاکھ 30 ہزار افراد روزگار فراہم کرنے والے سروسز سیکٹر میں شامل ہیں، جس نے ملک کو ملازمت فراہم کرنے کا انحصار 41.7 فیصد کیا ہے اور اس سیکٹر کی سالانہ میڈیکل پروفیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام میں 300 بلازسکلیئر ماہانہ اجرت کی پیمانے پر اضافہ کیا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زرعی شعبہ دوسرے نمبر پر ہے جس میں روزگار کی شرح 33.1 فیصد اور ملازمت کی تعداد 2 کروڑ 55 لاکھ 30 ہزار ہے، ان لوگوں کا حصہ ملک کی کل روزگاری کا 32.6 فیصد رکھتا ہے اور اس سیکٹر میں ملازمت فراہم کرنے والی مملکت کو بھی ایک منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت ان لوگوں کو اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں سے زیادہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سروے سے بتایا گیا ہے کہ مصنوعی شعبہ تیسرے نمبر پر ہے جس میں روزگار کی شرح 25.7 فیصد اور ملازمت کی تعداد ایک کروڑ 98 لاکھ 60 ہزار ہے اور اس سیکٹر کا حصہ ملک کی کل روزگاری کا 24.1 فیصد رکھتا ہے، ان لوگوں کو بھی ایک منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ اپنی فیکلٹی کی تعلیم کے بعد نوجوانوں سے زیادہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح ان لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد ملے، ایک منصوبہ جو یہ بنانے کے لئے 50000 لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی اور اس کے لئے نوجوان اور ذرتی طبقے کو بھی اپنا استحکام حاصل کرنا ہو گا۔