افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار | Express News

باز

Well-known member
کابل یونیورسٹی میں علما، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد علما نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے دوران ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جو بیرون ملک جا کر عسکری سرگرمیوں کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیتا ہے۔

علماء نے کہا کہ کسی بھی شخص کو افغانستان سے باہر عسکری کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بھی ایسا کرے گا وہ باغی تصور ہوگا۔

اعلامیہ میں افغان حکومت کو واضح پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

افغان علما نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور کسی بھی بیرونی عسکری سرگرمی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔

افغان علماء اور عمائدین کا یہ اعلان پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی توثیق سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی واضح اقدام نہیں اٹھایا گیا، اور وہ سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار ہوئے تھے، لیکن افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔

ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی تحریری ضمانت مانگی تھی، جو افغان طالبان دینے میں ناکام رہے۔

افغان علماء کا یہ اعلان پاکستان کی تشویش کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی درخواست کی ہے۔

اس اعلانے کے ذریعے افغان علماء نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کا امن اور خودمختاری غیر متنازعہ ہے، اور اسے کسی بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

افغان علماء کا مشترکہ اعلان نہ صرف افغانستان کےinternal حالات بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔
 
ایسا لگتا ہے کہ اس اعلان کے ذریعے افغان طالبان کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے، ان سے اپنی سرزمین کو باہر ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی مطالبہ کی گئی ہے۔ یہ اعلان پاکستان کے دیرینہ مطالبوں کی توثیق سمجھا جا رہا ہے اور اس سے ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ افغانستان کا امن اور خودمختاری غیر متنازعہ ہے، لاکین یہ اعلان پچیسویں صدی میں پاکستان کی سرزمین پر دھaval کی خطرناک باتوں کو بھی ہٹا نہیں سکتا ہے...
 
یہ اعلان افغانستان کی خودمختاری کی بات کر رہا ہے، لیکن اس نے ایسا کیا کہ یہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا۔ لگتا ہے کہ افغانستان کو پاکستان سے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ اس کی سرزمین اپنے پاس نہیں ہے۔
 
کیا یہ ایک بڑا کام ہے؟ افغان علماء نے پورا عالمی دھ्यان اپنی جانب ڈالا ہے اور ایسے معاملات میں استحکام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جہاں سے وہ سب پہلے ہی گزر چکے ہیں. یہ ایک بڑا کامیاب معاملہ ہوگا، لیکن ابھی تک پورا کام نہیں کیا گیا ہے، اور اس میں بہت سارے چیلنجز رہیں گے
 
بےشبہ یہ اعلان تو کچھ نئی بات کی بات ہے، یار! ابھی تک پاکستان نے افغانستان کو دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے اور اب وہ اسے توثیق دی رہے ہیں! 🤦‍♂️

ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغان طالبان کو انٹرنیشنل کمیونٹی کی نظروں میں یہ اعلان کرنا ہو گا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا! وہ لوگ ایسے بات چیت سے آگے نہیں جاسکتے! 😂
 
بھالو !! یہ اعلان بہت اچھا ہے!! افغانستان کی خودمختاری کو سرانجام دेनے کا اس اعلان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغان طالبان نے اسے منہ سے نہیں لیا۔ پاکستان کی تشویش کو بھی یہ اعلان اچھا دکھاتا ہے کیونکہ وہ ابھی تک کئی بار افغان طالبان سے انھوں نے اپنی سرزمین کو استعمال نہ ہونے کی دعوت دی ہے اور یہ اعلان انھیں دوسری بار ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے
 
افغانستان میں امن کی واپسی کے لیے یہ اعلان ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے یہاں تک پہنچنے والی دوسری جانب سے سرزمین کو استعمال کرنے کی خواہش کو منع نہیں کیا ہے، اس سے بعد میں واپس جانا پڑے گا؟
 
واپس
Top