امریکا کی دہلی نہیں ہوتی تھی جس میں ایک پاکستانی نژاد نوجوان کو گرفتار کرلا جاتا ہوں۔ امریکی شہر ڈیلاویئر میں ایک نوجوان کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی اسلحہ رکھتا تھا اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
ان میں سے ایک لئے کینبی پارک ویسٹ میں ایک ٹرک کو روکتے ہوئے شہید ہو گئے، جس کی وہ گاڑی پر بیٹھے تھے، انہوں نے بھگتے ہوئے ہونے پر پکڑنے سے انکار کر دیا اور اس پر مزاحمت کی۔
اس ٹرک میں پولیس کو ایسے گناہ دیکھے جو لاکھوں روپے کے بھی بڑے ہیں۔ ان میں سے ایک رانے والا پولیس اور اس نے اپنی جان بھگادی تھی، جس کے بعد وہ مایوس ہو گئے۔
اس ٹرک سے پالٹے ہوئے ان لوگوں میں ایک کوئین نے بھی اپنی جان اور دھرم کی دھاری پر چڑھایا تھا اور جب وہ جلاوطن ہو گئے تو اس نے اپنا مقصد یقینی بنانے کے لئے مادی عزم ظاہر کیا۔
لگ بھگ ٹرک کو روکنے کے بعد ان کی جانب سے ایک پوسٹر اور ایک ناکارہ ہتھیہہ بھی آئی تھی، جس میں ایسا لکھا تھا کہ 24 نومبر کو اس گھروں میں دھماکے ہونے والی ایک بڑی سزہ کی تصدیق ہوگی۔
آج اس نوجوان کو گرفتار کرلا جاتا ہے جو اس گھر میں دھماکے لگاتے ہوئے اور پوسٹر بھی لائے تھے، مگر وہ اس وقت تک نہیں بھاگتے تھے جب ایک ٹرک کو روکنے کے بعد انہیں پکڑ لیتے ہوئے ان کی جان جھکی گئی۔
پولیس نے بتایا کہ ٹرک میں سے پالٹے جانور کو ایک ماڈل ہی رکھا تھا جو یونیورسٹی آف ڈیلیویئر میں سے نکل گیا تھا اور اس کے بعد وہ نوجوان نے اس کا استعمال دھماکے لگاتے ہوئے کرنا شروع کیا تھا۔
ان لوگوں میں ایک کوئین ہی نے پوسٹر اور ایسا ہتھیہہ بھی دیکھا جس پر یہ لکھا تھا کہ ان نوجوانوں کی جانوں کی بھی برابری کرنی چاہئیے اور وہی 24 نومبر کو دھماکے لگاتے ہوئے اس سے منصوبہ بنانے والی 11 دسمبر کی شام میں بھی دھماکے لگا کر ان کے مقاصد کو پورا کریں گے۔
سلیمان خان کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے اسے اپنا راز بنایا تھا اور وہ یونیورسٹی آف ڈیلیویئر میں بھی پڑھتا تھا۔
امریکا کی دہلی نہیں ہوتی تھی، جس میں ایک پاکستانی نژاد نوجوان کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ اس نے غیر قانونی اسلحہ رکھنا اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک ٹرک کو روکنے کے بعد شہید ہو گئے، جس نے اپنی جان بھگادی تھی۔
ٹرک میں سے پالٹے جانور کو ایک ماڈل رکھا تھا جو یونیورسٹی آف ڈیلیویئر میں سے نکل گیا تھا اور اس کے بعد وہ نوجوان اس کا استعمال دھماکے لگاتے ہوئے کرنا شروع کیا تھا۔
یہ ایک خطرناک واقعہ ہے جس میں ایسے لوگوں کی جانوں کی برابری کی جانی چاہئیے اور انہیں اپنی قوم کے لیے کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
عے۔ یہ تو ایک بے باکبار واقعہ ہوا ہوگا جس میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہوگا جس نے دھماکے لگاتے ہوئے اپنے مقاصد کا اظہار کیا تھا۔ اگر ان سے پوچھتے تو وہ کبھی ایسی گھریلو کارروائیوں میں شامل نہیں ہوئے، لہezaمی یا دھمکیاں نہیں کیں۔ ان سے پوچھتے تو وہ کہتے ہیں کہ 24 نومبر کو دھماکے لگاتے ہوئے اس سے منصوبہ بنانے والی کون سی شام ہوگی اور انہیں کیا ہوگا اس کا تعین کرنے کے لئے۔
اس نوجوان کی جان کے لئے دلیل حرمت کی جانب سے بھی کرنا چاہیے، اس نے اپنی جان کھو لی ہوئی تھی کیونکہ وہ دھماکے لگاتے ہوئے دوسروں کو پکڑ سکتا تھا اور انہیں مارتا تھا، لیکن جب اس نے اپنی جان بھگادی، تو وہ ایسے دھماکے لگاتے ہوئے کہ سچ میں نہیں پڑتے تھے۔
یہ تو دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں کی حقداری ہوئی کہ وہ ایسے دھماکے لگاتے تھے جیسا وہ بنانے والا ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک کوئین نے اپنی جان بھی کا رکھی تھی، مگر وہ اس پر یقینی نہیں تھی۔
ایسے لوگ کیوں بنتے ہیں جہن تک کہ وہ اپنی جانوں کو بھی ایک دھماکے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں؟ یہ تو ان کی حقداری ہوئی اور میرے لئے ایک ایسا شہید ہونے والا بھی بن گیا ہو گا جس کے لیے وہ سب سے پہلے میرا دھنا نہیں تھا۔
ان لوگوں کو کیوں نہیں پکڑتے؟ یہ تو ان کے لیے ایک دوسرے کے سامنے جان جھکنا ہی مشق تھی، مگر وہ سب سے پہلے میرا دھنا نہیں تھا۔
ایسے لوگ کو کیوں چاہتے ہو کہ ان کی جان جھکنے پڑتے ہیں؟ یہ تو وہ ایک دوسرے کی حقداری کر رہے تھے، مگر اس پر بھی میرا دھنا نہیں تھا۔
اس نوجوان کی جان جھکنے کے بعد تو اتنی بھی کچھ بات کرنا پڑتی ہو گئی! وہ بھاگتے ہوئے لاکھوں روپوں کا دوسرا ماحول بن گیا، اور اس نے کیا یہ لوگ اتنی تیزی سے پھنسیں? پھر ان کی جان جھکنے کے بعد بھی وہ کیسے چلے گئے؟ یہ بات تو دیکھنا ہی پڑ رہی ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کیا جال تھا!
جی کیا تو ایسے شہید ہونے پر ہمیں ذرا فخر محسوس ہوتا ہے جو اس دہلی میں بلا کرنے گئے تھے، یوں تو وہیں جس نے ان شہیدوں کو قتل کیا تھا اسی جگہ انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مقصد پورا ہونے کے لئے ان کو چڑھاوا کی پہلی ضروری تھی اور اب وہیں سے ایک ٹرک کو روکنے والے نوجوان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
یہ دھمکے کیسے لگائے جاسکتے ہیں؟ یہ سچ کی پرفشردگی نہیں ہوتی، بلکہ اس پر دیکھا گیا کہ وہ لوگ جس نے اسے رکھا تھا وہی ان کے سامنے گئے اور انہوں نے اپنی جان بھی کہی، یہ سچ کو توہین دیتے ہوئے کہیں دیکھنا پڑگا؟
اس ٹرک کی گاڑی پر بیٹھتے ہوئے لڑاکو کو روکنے کے بعد وہاں سے بھاگتے نہیں تھے کیونکہ انہیں پکڑنے سے پکڑ لیا گیا اور اس دौर میں انہوں نے اپنی جان بھگا دی، یہ ایسا ہونا پسندیدہ نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنا چاہتے تھے اور اس لئے انہوں نے خود کو دھماکے میں بھی شامل کیا۔
میری نظروں میں سے ایک تو یہ ہے کہ مگر ان نوجوانوں کی جانوں کی دھارتی بھائی چارے کی بات کرنا بھی مشکل ہو گی۔ وہ اپنے مقاصد کو یقینی بنانے کے لئے مادی عزم ظاہر کرتے تھے اور پوسٹر اور ہتھیہہ بھی رکھتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کی دھاری پر چڑھ گئے تھے۔ مگر ان کی جانوں کی اور دھرم کی دھاری پر بھی چڑھنے کی کوئین کا یہ راز اچھا نہیں ہوتا۔
اس ٹرک میں پالٹے جانور کو ایک ماڈل رکھنا بھی وہی کہتے تھے جو یونیورسٹی آف ڈیلیویئر سے نکل گیا، مگر وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا استعمال دھماکے لگاتے ہوئے کرنا بھی بہتانہ ہوتا ہے۔
اس دھماکے سے قبل کی ان مظالم کو سمجھنا ہمیشہ مشکل ہوتا رہتا ہے، لیکن یہ بات پتہ چلتا ہے کہ لوگ دھماکے لگاتے ہوئے کتنے بھی مقاصد کے ساتھ ایسے ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان جسے پکڑا گیا ہے وہ دھماکے لگاتے ہوئے کیا چاہتے تھے، لیکن اس میں جو پوریت رکھی تھی یہ تو بھی ان کی جانوں کو جانے پر پہنچ گئی تھی۔
آج جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایسا نوجوان گرفتار ہوتا ہے تو وہ اپنی سہولتیں اور مقاصد کو سمجھتے ہیں، لیکن اس میں یہ بات بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کی جان کی قیمت کسی کی بھی معاوضہ نہیں ہوتی۔
اسے دیکھتے ہی سے ایک ایسا ماحول بھی نہیں ہوتا جس میں کھیلنے والوں کو انہیں دھمکی دینے کی اجازت نہ ہو۔ جبکہ یہ نوجوان اپنی جان بھی جھوٹے مقاصد پر چڑھا رہا تھا، تو ان کی جان کو بھی اس سے محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
بچپن سے ہی جانوں کی دھاری پر چڑھایا گیا نوجوان کس قدر کورس کیا گیا، اس پر پوسٹر لگا کر کئی سال تک دھمکاوں میں سرگرمی رکھنا پڑی۔ اب اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے تو یہ چلچلا کر تین سو روپے کی دھمکیوں بھی لگای گئی ہیں?
اس نوجوان کے معاملے پر تو ایک بات پچتنی ہے کہ وہ دھماکے لگاتے ہوئے اور خود کشی کرنے کی کوشش کرتا تھا، لیکن ہمیشہ سے یہ پوچھنا چاہئے کہ اس نے یہ مقصد لاکھوں لوگوں کو بھگتایا یا اس سے کیسے رخنہ ہوا؟
اس نوجوان کے بعد دوسروں پر بھی انکے جیسا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی جانب سے اس طرح کے ہتھیے ہتھے اور پوسٹر بھی بنائے جاتے ہیں تو یقیناً ٹرک کو روکنے کے بعد ان لوگوں کی جان پر بھی اچھی طرح اثر پڑتا ہوگا۔
اب اس کتے کے ساتھ لگا کر دھمakaal karne walon ko bhi pata chala gia . toh jis tarah us kete ka raaz jaanaa chuka hai, wohi 24 November ko dhaamaakar ke liye sahi raaza ho saktaa hai. ab yeh sawaal hai ki sabse pehle dhaamaakaal karne walon ko pata chal gaya tha ya uske baad hi pata chala. toh agar pata chal gaya tha, to kya woh sabhi ko aage badhnaa nahi mila?
اس کیس سے بھی ایک بات پتہ چلتی ہے کہ دوسری نہیں تیسری نہیں پہلی نوجوانوں کو لگاتار ماحول میں دھماکے لگاتے ہوئے مایوسی اور مایوسی کی طرح ایک جسمانی شکل میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔