امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کی سخت تنبیہ

گرگٹ

Well-known member
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو ایک ایسا خطاب سنا ہے جو وہ شام میں عدم استحکام سے گریز کرنے کے لیے لگاتار تین دھمکیوں کے بعد بھی کرتا ہے، اس خطاب میں انہوں نے اسرائیل کو بتایا کہ وہ شام اور اس کی نئی قیادت سے منسلک ہونے والے معاملات پر غور کرنے کے لیے مطالبہ کرتے ہوئے ایک لازمی اور ضروری قرار دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کو بتایا کہ اگر وہ شام کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں ایسا کرنا پڑے گا۔

امریکی صدر نے اسرائیل کے لیے ایک خطرناک خطاب دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ شامی حکومت کی جانب سے شام اور اس کی قیادت پر بھی توسیع کرتے رہتے ہیں، لہذا ان کے لیے کسی قسم کا معاملہ بھی نہیں رہا جس سے وہ اپنے حقداری معاملات میں اضافہ کر سکیں، اور ایسے حالات میں اسرائیل کو اس معاملے کی جانب سے منسلک ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔

متنازعہ علاقوں کے حوالے سے ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے اسرائیل اور شام دونوں ملکوں کے درمیان امن کی لڑائی بھی جاری ہے، جو اس وقت تک جاری رہے گا جتaka وہ دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے لیے لازمی طور پر اپنے تعلقات کو قائم کر رہیں گی، اس طرح سے دونوں ملکوں کے درمیان امن میں کمی نہ ہونے دکھائی دے گا اور وہ یہ معاملات حل کرنے پر مستحکم رہیں گی۔
 
سچ کے پہلے، یہ خطاب توسرائیل کو ایک خطرناک پہلو سے بھرنا ہوا ہو گا، کیونکہ وہ اپنے حقداری معاملات میں مزید اضافہ کرنے کے لیے شام کو ایسا ہی جانے پر مجبور ہوگا۔ اور یہ توسرائیل کی حکومت کی جانب سے شام اور اس کی قیادت پر بھی توسیع کرتے رہتے ہیں، لہذا اس معاملے کی جانب سے منسلک ہونے پر یہ حکومت ان کی حقداری معاملات میں مزید اہمیت حاصل کرنے کا ایک خطرناک راستہ اختیار کر رہی ہو گا۔
 
امریکی صدر کا یہ خطاب Israel ke liye bahut hi danger tha, kyonki yeh unhe sham aur uski nai qadamat se manak ho raha hai. America ko lagta hai ki agar Israel apne relationship mein zyada tarha samajna chahta hai, to unhienko uske liye kuch bhi na rahna padega.

Lekin yeh to baat bhi suni ja sakti hai ki sharm aur iski nai qadamat ke beech kya hota hai? Kya Israel ko lagta hai ki vah apne relationship mein zyada tarha samajh raha hai, ya phir koi andaza nahin hai?

Mujhe lagta hai ki yeh to America ke liye ek bade problem ka mudda ban sakta hai, aur isse pehle hi Israel aur sharm ke beech ek majaboot ladaai hoti hai. Toh kya hum unke beech se samajhdari aur shanti ko kar paayenge? 🤔
 
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایسے خطاب کی پھلتوں کو تواہی ہوگا جو اس خطاب سے باپھر ہوگا.
 
اس خطاب سے پتہ چalta ہے کہ ایسے معاملوں کو حل کرنے میں لگتار تین دھمکیوں کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ اٹھتے ہیں؟ یہ پوری دنیا کا انٹرès اور चिंतا کی بات ہے! 😳 میں یاد آتا ہوں جب نوجوانوں نے شام کی تھیٹر پروڈکشنوں میں بھाग لیا کرتا تھا، اور اب وہاں ایسے خطاب ہوتے ہیں جیسے کہ ایک خطرناک دوسرے کی طرف نظر ہوئی ہے! یہ معاملات ہمیشہ سے موجود رہتے ہیں، لیکن اب بھی کسی نے اسے حل نہیں کیا! 💔
 
امریکی صدر کی ایسی بات بہت خطرناک ہے جس سے اسرائیل کے حوالے سے معاملات کو حل کرنا مشکل ہو جائے گا 🤔
اس خطاب نے اسکے لیے ایک واضح لیندا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے شام سے منسلک ہونا ضروری ہو گا، یہ بات تو بھی نہیں کہ اس خطاب میں اسرائیل کو شام کی جانب سے شام اور اس کی قیادت پر توسیع کرتے رہتے ہیں
ایسا سونے کے دوسرے پھول نہیں، اسرائیل کو شام کی جانب سے ہمیشہ یہ معاملہ حل کرنا پڑتا رہا ہے…
 
اس خطاب سے Israel ko kya karna hai? Unhe sharmindha hone ke liye ya fir unki zindagi ko khatre mein rakhna hai? Mere according, America ko apni baat sahi dilate hain toh woh kuch bhi nahi. Ye taqat ki baat hai America ke saath Israel ka rishta.

Mujhe lagta hai ki America ko chinta hai ki Israel Shami sambandhon mein zyada aakarshit ho raha hai, aur wo kya karta hai? Yeh ek bahut bada sawal hai. Mujhe lagta hai ki America ko sharmindha hone ka mauka mila hai.

Lekin main sochta hoon ki America ko Israel ke liye koi aisa nahi hona chahiye, aur Shami sambandhon mein bhi kuch sahi ho sakta hai. Agar hum sab ek saath mil kar kuch karna chahte hai toh yeh possible hai.

Lekin, America ko khud ki baat karni hai toh ye banta hai ki Israel ke liye koi chinta nahi hai, aur woh Shami sambandhon mein zyada aakarshit ho raha hai.
 
امریکی صدر کی ایسی پوزیشن تو ایسے ہی ہوتی جس سے کوئی نتیجہ کا حقدار نہیں ہوتا، اس خطاب میں اسرائیل کو شام سے منسلک کرنا پڑے گا؟ یہ تو ایک بحران کا باعث بن جائیگا اور دونوں ملکوں کی امن کوششیں ٹوٹ جائیں گی 🤦‍♂️

اس طرح صدر نے اسرائیل کو بتایا ہے کہ اگر وہ شام کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنا پڑے گا، لہذا وہ شام کی جانب سے اپنی قیادت پر بھی توسیع کرتے رہتے ہیں؟ یہ کوئی نئی بات نہیں، ان ملکوں کے درمیان امن کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن امریکی صدر کی پوزیشن ایسے ہی ہوتی جس سے یہ معاملات تھوڑا ہی کوئے میں حل ہوجائیں گی 😒
 
امریکا کی طرف سے اسرائیل کو بھی ایسے خطاب کیا جاتا ہے جو شامی حکومت کی جانب سے اس پر دباؤ پڑنے کے لیے دیے جاتے ہیں، یہ خطاب اس لئے دیا جاتا ہے کہ اگر شام میں غیر منصفانہ سلوک چل رہا ہو تو اسرائیل کو اس پر دباؤ پڑنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ خطاب شامی حکومت کے لئے بھی ایک دباؤ والا ہوتا ہے، اس لیے اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کرنے کے لیے لگاتار تین دھمکیوں کے بعد یہ خطاب دیا جاتا ہے।

انقلابی اور ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے اسرائیل اور شام دونوں ملکوں کو اپنی بات چیت پر عمل میں لینا پڑے گا، یہ تنازعات جو اس وقت کچھ ہی سے بھی جاری ہیں ان کا حل کرنے میں ایسے خطاب کی اہمیت محسوس ہوتی ہے، لیکن ایک بھی معاملے میں اس کا فائدہ نہیں لگتا ہے۔
 
اس خطاب کے بعد سے اسرائیل کی آٹھ پانچ ہزار فوجیوں کو شام میں جانے پر مجبور کیا جائے گا، یہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر نے اسرائیل کو شام کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہوئے، اس لیے انہیں شامی حکومت کی جانب سے شام اور اس کی قیادت پر بھی توسیع کرتے رہتے ہیں، یہ ایک خطرناک گاڑھی پھاری ہے جس سے اسرائیل کو معاف نہیں کر سکیں گے؟
 
امریکی صدر کا یہ خطاب تو اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ شام اور اسرائیل دونوں کی جانب سے ایسے معاملات پر غور کرنے کا عزم کیا ہے جس سے یہ دو ملک اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کر سکائیں۔ لیکن وہ خطاب ایسا نہیں لگتا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہو کہ وہ شام کی جانب سے بھی ایسے معاملات پر غور کر رہے ہیں جس سے اسرائیل کی جانب سے حقداری معاملات میں اضافہ کیا جا سکے۔ یہ خطاب ایک خطرناک بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شام بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
 
اس خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی صدر اسرائیل کو ایک خطرناک منظر سے سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ بھی بات سچ ہے کہ اسرائیل شام کی جانب سے بھی توسیع کر رہا ہے، اس لیے انہیں ایسا معاملہ جو ان کو اپنے حقداری معاملات میں اضافہ کر سکے وہ نہیں چھوڑ سکتے 🤔
 
ایس لگتا ہے کہ امریکی صدر کی یہ خطاب اسرائیل کو ایک خطرناک منزلیں سے لے کر ایک تاریک پہاڑی علاقوں تک بھی لے جا رہا ہے 🌄 جس میں وہ اپنی زندگی کو توازن دیکھنا پڑے گا، اور یہ سچ ہے کہ ایک شخص جب کسی حادثے کی طرف رولنگ کرتا ہے تو اسے اس کے بعد پہلی بار وہی کھلاڑی بننے میں کامیاب ہو سکتا ہے جس نے اچھی طرح سے اس حادثے کی پیشگوئی کی تھی 🔄
 
ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کی اس خطاب سے اسرائیل کو بھی ایسی تشدد کی راہ میں پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے جس سے وہ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، لہذا اس سے یہ معاملے حل نہ ہونے دکھائی دیں گے۔
 
اس خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ شام اور اسرائیل کے درمیان ایک دھمکیوں سے بھی گریز نہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اسرائیل کو اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا پڑے گا، لیکن اس کے لئے سچھا وقت اور موقع نہیں مل رہا ہوگا۔

اس خطاب سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور شام دونوں کی جانب سے امن کے لئے لڑائی جاری رہے گی، لیکن ایسا نہ ہونے پر معاملات حل ہوسکتے ہیں، یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ دونوں ملکوں میں امن کا ایسا موقع نہیں دیکھ سکتے گئے جس سے وہ معاملات حل کر سکڑیں۔
 
اس خطاب سے پتا چalta ہے کہ امریکی صدر کی واضح تجویز یہ ہے کہ اسرائیل کو شام کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا پڑے گا، حالانکہ اس سے اسرائیل کے حقداری معاملات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک خطاب ہے جس سے اسرائیل کو شام کی جانب سے تعلقات میں مزید اہمیت حاصل کرنا پڑے گا، لہذا ان کے لیے کسی قسم کا معاملہ نہیں رہا جس سے وہ اپنے حقداری معاملات میں اضافہ کر سکیں۔
 
اس خطاب سے ان کا مقصد ہو رہا ہے کہ اسرائیل کو شام کی جانب سے اس معاملے میں شامل کرنا پڑے گا اور وہ اپنے حقداری معاملات میں اضافہ کر سکیں گے ۔ لگتا ہے ان کا یہ خطاب ایک خطرناک خطاب ہے جو اسرائیل کی سلامتی اور استحکام کو چیلنج کرتا ہے ۔
 
واپس
Top