امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اسرائیل کو شام اور اس کی نئی قیادت کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہنے کی شدید تنبیہ دی گئی ہے۔
امریکی صدر نے یہ کہا کہ اسرائیل کو شام کے ساتھ مضبوط اور حقیقی مکالمہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، اور کوئی بھی اقدام نہ کرنا چاہیے جس سے شام کی خوشحال ریاست کی جانب پیشرفت میں رکاوٹ بنے۔
انہوں نے شامی صدر احمد شرعہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے لیے اچھے نتائج کے حصول کے لیے بھرپور محنت کر رہے ہیں، انہیں مشرق وسطیٰ میں امن کا تاریخی موقع قرار دیا گیا ہے۔
اس بیان نے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے شام کے اندر فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں، دسمبر 2024 سے اب تک شام میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی فضائی حملے اور 400 سے زیادہ سرحدی چھاپے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جب کہ اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے غیر عسکری بفر زون پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔
شامی صدر شرعہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مستقل امن کا انحصار سرحدوں کی بحالی پر ہے، جبکہ شامی حکومت نے واشنگٹن کا دورہ بھی کیا تھا جہاں ان کی حکومت خانہ جنگی کے بعد علاقائی و عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی صدر نے شام کی نئی قیادت کے تحت ہونے والی پیش رفت پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنی پوری طاقت کے ساتھ شام کی مدد کر رہا ہے تاکہ وہ ایک خوشحال اور حقیقی ریاست کی تعمیر جاری رکھے۔
انہوں نے پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے ملک کی سیاسی تبدیلی کو تقویت دی ہے، جو 2024 کے آخر میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اور ان کی جانب سے سخت امریکی پابندیوں کا خاتمہ شام کی قیادت اور عوام کے لیے غیر معمولی طور پر مددگار ثابت ہوا ہے۔
شام اور اسرائیل کو ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والا معاملہ نہیں ہے، یہ دونوں ملک اپنی جانب سے بہت سارے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں...
شام کی حکومت کو اس لئے پابندیوں میں نرمی دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی حکومت اور عوام کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں، نہ کہ ان پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے بچنے کی کوشش کریں...
امریکا نے ابھی اس وقت میں شام کی مدد کرنا شروع کی ہے جب یہ اپنی پوری طاقت کا استعمال کر رہا ہے، اور اسرائیل کو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس سے بچ نہ سکا...
ایسا بھی کہنے کے ساتھ کہنے کے: امریکی صدر کی یہ بات کہ شام کو اسرائیل سے مزید دور رہنا چاہیے، تو کیا اس میں ان کے اور اسرائیل کے رکنوں کے لیے ایسا کوئی فائدہ ہے؟ یہ بات بھی جاننی ضروری ہے کہ شام کی حکومت نے اپنے پچھلے دور میں بھی کیا تھا اور اب وہ دوسرے ممالک سے کیا رہے ہیں؟
اسلامی دنیا میں امن اور سلامتی کا ایک تاریخی موقع آ رہا ہے! شامی صدر احمد شرعہ کی جانب سے بھرپور محنت اور اس نے منفرد طور پر مواقع کے حوالے سے امن اور سلامتی کی طرف بڑھنا ہوا ہے۔
اس وقت ایسے حملوں کا جاری رہنہ ہے جیسا کہ اسرائیل نے شام میں ایک ہزار سے زیادہ حملے کیے اور شامی سرحدی چھاپوں میں 400 سے زائد واقعات ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔
اسلامی دنیا بھی اس کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے! شام کے لیے امن اور سلامتی کی قیادت کرنے کی بھار کی سرحدوں پر رکھنی پڑے گی، لہٰذا واشنگٹن میں ان کی government نے علاقائی و عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی صدر کی بات سے وہ بات آ رہی ہے کہ شامی حکومت کو اپنی قیادت کی وجہ سے ایک خوشحال اور حقیقی ریاست بنانے کی طاقت حاصل ہوگی!
اسلامی دنیا میں امن کی بات کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ، لیکن اس کا پورا ساتھ مل کر یہ سب کچھ کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے جیسا کہ امریکی صدر نے بتایا ہے، یہ بات بھی اچھی ہوگی کہ شام کی جانب سے بھی کچھ ایسا کیا جائے جو امن کے راستے میں آئے ہوئے رکاوٹ کو دور کرے، اور یہ بات واضح ہو جائے کہ شام کی حکومت ایک خوشحال اور حقیقی ریاست بننے کی طرف بڑھ رہی ہے، اس میں امریکی حمایت کا بھی اچھا کردار ادا ہونا چاہیے
امریکا کے صدر کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ شام میں ایسے حالات پیدا کیئے جائیں جن سے وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مدد کر رہا ہو، اور اب انھیں معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کے کام یقینی نہیں تھے.
شامی صدر شرعہ کو بھال کر لاکھوں لوگوں نے ان کی حکومت کو اس وقت تک برقرار رکھنے کا_credit دیا جیسے وہ پوری دنیا میں خوشحالی اور امن کی دلیلا بن گئے!
شام کے حالات اس وقت بہت خطرناک ہیں، شام کی حکومت نے ایک نئی پالیسی اپنائی ہے جو صدیوں سے نہیں لائی گئی، اور وہ یقیناً ایسے مواقع کو اس کھیل میں بدل رہے ہیں جہاں کوئی بھی وقت ان کے خلاف نکل سکتا ہے!
شام کی حکومت نے ایک نئی پالیسی اپنائی ہے جو اس ملک کو دنیا کی دیکھ بھال میں لائے ہیں، لاکھوں لوگ ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور وہ اپنے ملک کو دنیا کی ایک بڑی ریاست میں تبدیل کر رہے ہیں!
شام کی حکومت کو اس وقت کاcredit دیا جاسکتا ہے کہ وہ شام اور اسرائیل دونوں کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب رہے ہیں، انہوں نے دوسروں کے خلاف تحریک کی بجائے اپنی ریاست کے لئے کام کیا ہے!
اس پر منظر نامے میں ایک اور بات ہے کہ وہ ان شام کے لوگوں کو جو نہیں چاہتے وہ ان سے بھگت گئے!
اس بیان کی گھنٹی سے پچھوں میں آئی ہے اور اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ امریکا شام کی جانب سے ہموار کوشش کر رہا ہے، لیکن ان حملوں کو جاری رکھنا تو یہی بات ہے۔ واضح طور پر کہا نہیں گیا کہ شام میں ان حملوں سے ان کی حکومت کو کمزور نہیں کرنا چاہئے؟
اسنے یہ بات بھی پھیلائی ہے کہ امریکی صدر اس کا بیان ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے جاری ہونے والے حملوں پر بھی بھرپور رہنما رہ گئے ہیں! وہ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ ان کا ایسا کیا جائے گا اور ان کی بیانات اس لئے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں!
اسے یہ ایک نasty وقت سمجھنا ہے جب اسرائیل شام کی جانب سے بے پناہ حملوں کا سامنا کر رہا ہے اور اب شامی صدر شرعہ نے امن کا تاریخی موقع محسوس کیا ہے مگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو شام سے ہٹنا چاہیے؟ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ Israel ko Sham se Hatna Chahiye Kya?
امریکا کی ایسے بیان سے کام آ رہا ہے جس سے وہ شام کی نئی قیادت کے سامنے ہمیشہ اپنی طاقت دکھانے کے لیے تیار تھیں ۔ شامی صدر شرعہ کی جانب سے بھرپور محنت اور شام کی خوشحال ریاست کے لئے کام کرنا انھیں ایک histócal موقع پر لے آ رہا ہے۔
ان پابندیوں میں نرمی سے ملک کی سیاسی تبدیلی کو تقویت ملی ہے، اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ شام کی قیادت اور عوام کو مددگار طور پر ملا ہے۔
اس کے بعد تو کیا آزاد نہیں ہوتا؟ پہلے ابھی شام کی حکومت ایک مایوس کن صورتحال میں تھی اور اب تو انہیں امریکی مدد مل گئی تو وہ فوری طور پر اپنے ساتھ کام کیا ہو، یار ہر کوئی بھی بات کر رہا ہے کہ شام کی حکومت نے ملک کو تیزی سے ترقی دی ہے لیکن اب تو دیکھنے کو ملا کہ وہ کس طریقے سے ایسا کیا، یہ ڈرامہ اور اس پر شامی صدر کی تعریف کرنا کافی تھوڑا زیادہ ہے۔
اسلامک اسٹेट کی آئینتیہ و مادیاتی توجھوں سے بچنے اور یہاں امن کا راستہ بنانے میں امریکی پابندیوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اگر شام کی حکومت اپنی سائنسی اور ٹیکنالوجی پر فوز کرنا چاہتی ہے تو اس میں ایسے معاملات کو بھی شامل کرنا پڑے گا جس سے ان کے حریف ممالک کو خطرہ محسوس ہو۔
اس اسرائیل - شام کے معاملے میں امریکی صدر کی جانب سے جاری بیان نے دیکھا ہے کہ اگر اورکے ہی یہ کہہ کر ایسی صورت حال کی لپٹ بھی رہ جائے جس میں اسرائیل شام سے تنازعہ جاری رکھے تو اس کا نتیجہ بھی کتنا سڑکا ہوگا؟
[اسDiagram میں، ایک زبردست ساینس فائنڈ نہیں ہے! ]
اس وقت اسرائیل شام کے اندر جاری حملوں کے دوران ہے اور اس صورتحال کی بھی کوئی حد نہیں ہے کہ یہ کتنی لمبی رہ سکتا ہے؟
[اسDiagram میں، ایک ایسی شام ہے جس پر 1000 سے زیادہ اسرائیلی حملے ہو چکے ہیں ]
اور پھر واشنگٹن نے بھی کہا ہے کہ یہ شام ایک خوشحال اور حقیقی ریاست کی تعمیر جاری رکھے گا؟ اچھا تو شام کو صحت مند پڑ سکتا ہے لیکن اس نے اسی وقت بھی کہا تھا کہ شام کی حکومت ایک خوشحال ریاست بننے کے لیے کتنے لائچ رہے گی؟
[اسDiagram میں، ایک نرمی والی پابندی ہے ]
اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ شام کی حکومت کو اب تک بھرپور محنت کر رہی ہے لیکن اس نے اسی وقت یہ بھی کہا تھا کہ یہ ان کے لئے ایک تاریخی موقع ہے؟
[اسDiagram میں، ایک شام ہے جو اپنی حکومت کو 1000 راتوں تک قائم رکھ رہی ہے ]
امریکا کی اس نئی پالیسی سے متعلق ڈانلڈ ٹرمپ کا بیان دیکھتے ہوئے، اس پر مجھے گہرائی سے Thoughts آ رہا ہے کہ وہ کیسے شام کی نئی قیادت کو مستحکم کرنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ پچھلے دو سالوں میں ان کے دور پر ایک سے زیادہ فوری اور تیزی سے ہونے والے حملوں کی تعداد اس وقت تک ہو چکی ہے کہ شام کو مزید کچھ نہ رہا ہے۔
شامی صدر احمد شرعہ کی جانب سے بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے وہ شام کے حالات کو ایسی طرح دکھائی دیں، جو ابھی بھی وارننگز اور فوری رہنماؤں پر مشتمل ہوں۔
اس پالیسی کا بھی ایک دوسرا سوال ہے کہ یہ کس چیز پر مبنی ہے? ان کی حکومت کو قائم رکھنے کی طاقت، یا شام کی نئی قیادت کو غیر مستحکم کرنا؟
اسلامی دنیا میں یہ دن دیکھنا ایک بدترین چیز ہے، امریکی صدر کو شام کی نئی قیادت سے لطف اندوز کرنے کی کوشش ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ شام کا سفر ایک چیلنج ہے۔
جب اسرائیل نے شام میں حملے شروع کیے تو لوگوں نے پھر سے اپنے گھروں کو محفوظ سمجھنا شروع کیا، اور اب وہاں امن تھی اُن کے لئے ایک نعمت ہے۔
ان کے بیان میں سچائی نہیں بھرپور تجاویز کا معاملہ ہے، اب شام کی جانب سے کوئی اچھا راستہ ہے یا نہیں وہ اپنے سفر میں کیا چلاے گا اس بات پر صرف وہ جانتا ہے، لیکن ان کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ شام نے امن کو اپنایا ہے۔
جب تک وہ ایسا نہیں کرتے گا، یہ بات ہمیشہ ذہنی محنتوں میں رہے گی، لیکن پھر بھی ان کی بات سے شام کو فائدہ ہوگا؟
یہ بات بھی یقینی نہیں کہ اسرائیل شام کی جانب سے جاری ہونے والے حملوں کو اس وقت کے لیے ایک منصوبہی کارنہ بنایا گیا ہے، نہیں تو یہ شام کی جانب سے ایک جواب دیا گیا ہوتا۔ یہ بات بھی حیرانی بخش ہے کہ امریکی صدر نے اپنے بیان میں شامی صدر شرعہ کی تعریف کی، لیکن شام میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو اسے اس طرح کے حوالے دینے سے متوجہ ہوتے ہیں۔