میں ابھی کوئٹہ سے لوٹا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میرے اس سفر کا حاصل کیا ہے؟ جیسے ہی سوال ذہن میں آیا، ایک نورانی صورت آنکھوں میں سما گئی۔ بوٹا سا قد، نورانی چہرہ اور لبوں سے جھڑتے ہوئے پھول، فرمایا: ’یہ امت متصادم نہیں متشامل ہے‘
یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں، ایک لائحہ عمل ہے، صرف لائحہ عمل نہیں، مسلم امہ کے مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب سے قبل ضروری کہ اس جملے کی شان نزول بیان کر دی جائے۔
کچھ عرصہ ہوتا ہوتا، اقبال اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے مجھے خبردار کیا کہ کوئٹہ کے لیے تیار رہنا۔ ہماری رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے متحرک اور سرگرم ڈائریکٹر سہیل بن عزیز مجھے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اقبال اکادمی نے علامہ محمد اقبال ؒ کی سال گرہ کی مناسبت سے کوئٹہ میں بین الاقوامی کانفرنس کا فیصلہ کیا ہے جس میں رحمۃ للعالمین یوتھ کلب کوئٹہ تعاون کر رہا ہے۔
اتھارٹی کے ممبر کی حیثیت سے مجھے بھی اس میں شرکت کرنی ہے۔ یہ یوتھ کلب کوئٹہ کے معروف اور نیک نام تعلیمی ادارے تعمیر نو پبلک کالج میں قائم کیا گیا ہے جس کے کوآرڈینیٹر حافظ طاہر جیسی متحرک اور مخلص شخصیت ہیں۔ حافظ طاہر کا تعارف آسان نہیں۔ وہ جذبہ ٔ عمل سے سرشار ایسی شخصیت ہیں جن کا دل ایک مقصد اور نظریے کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر وہ اشک بہائے بغیر نہیں کر سکتے جب کہ امت کی زبوں حالی کا ماجرا بھی انھیں دل کے آنسوں سے رلاتا ہے۔
حافظ طاہر نے تعمیر نو ٹرسٹ کے چیئرمین بریگیڈیئر عبد الجلیل، ریٹائرڈ، پرنسپل پروفیسر عابد مقصود اور ٹرسٹ کے دیگر ذمہ داران کے تعاون سے یہ کانفرنس اس شان سے منعقد کرائی کہ ملک بھر سے آنے والے اہل دانش ایش کر اٹھے۔ کالج کے اساتذہ اور دیگر ذمہ داران نے کانفرنس کی ذمے داریاں نہایت محنت سے انجام دینے کے ساتھ ایسی مہمان نوازی کی جس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ ہماری ہوٹل کے ذمہ دار پروفیسر افضل تھے اور نوجوان لیکچرر زرک خان ان کے معاون۔ ان لوگوں کے احساس ذمے داری، اخلاص اور محبت نے، سچی بات ہے، ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔ اس محبت کا جواب دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں لہٰذا ان دوستوں کے لیے بہت سی دعائیں۔
یہ کانفرنس اقبالؒ کے تعلق سے تھی، اس لیے اقبالؒ کا ذکر تو ہونا ہی تھا۔ اقبالؒ کا ذکر ہو اور اسلام اور مسلمانوں کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی ہوا لیکن اس کے ساتھ بلوچستان کے دکھ بھی زیر بحث آئے۔
یوں یہ کانفرنس صرف اقبالؒ کانفرنس نہ رہی، امت مسلمہ کے دکھوں اور مسائل کی ترجمان بن گئی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے اہم ماہرین اقبالیات شریک تھے جن میں اسلام آباد سے ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، چیئرپرسن اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف، لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہد، سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، بریگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق، عبید اللہ کیہر، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ساؤتھ پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور ایمز ایجو کیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر الماس صابر شریک ہوئے۔
خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم خان سمیت برطانیہ سے ممتاز پاکستانی تعمیراتی کنسلٹنٹ ڈاکٹر سمیع اللہ ملک، ممتاز ادیب اور کویت میں پاکستانی برادری کے راہ نما رانا اعجاز کی شرکت نے کانفرنس کی اہمیت دو چند کر دی۔
ان کے علاوہ کئی برائر ملکوں سے بھی ماہرین اقبالیات شریک ہوئے جن میں بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف اسلامی تھاٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبد العزیز، مالدیپ کی نیشنل لینگویج اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اشرف عبد الرحیم، ایران سے ڈاکٹر علی کاوسی نژاد اور جامعہ الازہر مصر سے عثمان عبد الناصر شریک ہوئے۔
تمام پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین نے اقبال کی فکر کے مختلف گوشوں خاص طور پر خودی، بیداری اور تحرک کے علاوہ مسلم امہ کے اتحاد کے ضمن میں گفتگو کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مغرب کی بے حسی اور مفادات کے تابع انداز فکر کی غضب ناکیوں پر اپنے پرمغز مقالے میں روشنی ڈالی۔
کچھ مقررین نے غزہ کے حالیہ المیے کے پس منظر میں عالمی بیداری کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسی قسم کے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقبالؒ نے جہاد پر زور دیا ہے۔
خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم احمد خان نے اپنے خصوصی لیکچر میں فکر اقبال ؒ کے مختلف گوشوں کا بڑی جامعیت سے احاطہ کیا۔ ان کا ایک اعزاز کلام اقبال کی تحت اللفظ ادائی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے اقبالؒ کی کئی نظمیں پڑھ کر سماں باندھ دیا۔
سوال جواب کے وقفے میں دو طلبہ نے بلوچستان کی صورت حال کے پس منظر میں ان سے سوالات کیے۔ ندیم احمد خان کا کہنا تھا کہ فکر اقبال ایک پیکیج ہے جس پر عمل کی صورت میں علاقائی سوالات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور مشترکہ فلاح کا تصور ابھرتا ہے جس سے بلوچستان کے مسائل کے حل کی ضمانت بھی ملتی ہے۔
اس سیشن کی صدارت تعمیر نو ٹرسٹ کے سیکریٹری نسیم لہڑی اور ان سطور کے لکھنے والے نے مشترکہ طور پر کی۔
ان سوالوں کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کی صورت حال پر پورا پاکستان پریشان ہے۔ یہاں سے جب دکھی کر دینے والی خبریں آتی ہیں تو پنجاب سمیت پورا ملک غم میں ڈوب جاتا ہے۔ احتجاج اور ہڑتالیں ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ بلوچستان کو اللہ نے بہت قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے، پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ اللہ نے یہ خزانے بلوچستان کو عطا کیے ہیں تو ان پر حق بھی بلوچستان کا ہے۔ اس دولت سے بلوچستان کی قسمت بدلنی چاہیے اور نوجوانوں کو تعلیم، روزگار ترقی کے بہترین مواقع ملنے چاہئیں۔
میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کے اس حق کو پورا ملک تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس مقصد کے لیے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جدوجہد کے لیے بھی تیار ہے۔
میں نے یہ بھی報告 کی کہ حقوق کے حصول کا طریقہ خون ریزی نہیں بلکہ جمہوری اور عوامی جدوجہد ہے۔ خون ریزی خاص طور پر مسافروں کے قتل سے ذہنی اعتبار سے حالت جنگ میں چلے گئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں کشیدگی اور آویزش مسلسل بڑھ رہی ہے لہٰذا امن اور سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عقیدے کے اختلاف کا مطلب تصادم نہیں ہے۔ ایسے معاملات سلجھانے کا طریقہ محبت، حسن اخلاق اور حسن سلوک ہے۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی یہی ہے اور نسل آدم کی بقا کا بھی۔
حافظ طاہر نے کانفرنس کی آغاز میں کہا تھا کہ امت مسلمہ کا جسد خاکی خاک پر بے جان پڑا ہے، اسے سپرد خاک کرنا ہے یا اسے توانائی بخش کر اسے کارآمد بنانا ہے؟ علامہ زید گل خٹک نے اپنے دھیمے اور محبت بھرے انداز میں اس سوال کا جواب ایک مختصر جملے میں دے دیا اور بتایا کہ فکر اقبال ؒ بھی یہی کہتی ہے۔
ہم سنا کرتے تھے کہ بزرگ عطا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ شفقت فرماتے ہیں اور کشش لوگوں کو ان کے قریب کر دیتی ہے۔ غیر معروف علامہ زید کو میں نے ایسا پایا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں جس کسی کی نظر بھی ان پر پڑی وہ ان کی طرف کھنچا چلا آیا اور دعا کا درخواست گزار ہوا۔ علامہ زید گل خٹک کی دریافت میرے دورہ کوئٹہ کا حاصل ہے۔
یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں، ایک لائحہ عمل ہے، صرف لائحہ عمل نہیں، مسلم امہ کے مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب سے قبل ضروری کہ اس جملے کی شان نزول بیان کر دی جائے۔
کچھ عرصہ ہوتا ہوتا، اقبال اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے مجھے خبردار کیا کہ کوئٹہ کے لیے تیار رہنا۔ ہماری رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے متحرک اور سرگرم ڈائریکٹر سہیل بن عزیز مجھے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اقبال اکادمی نے علامہ محمد اقبال ؒ کی سال گرہ کی مناسبت سے کوئٹہ میں بین الاقوامی کانفرنس کا فیصلہ کیا ہے جس میں رحمۃ للعالمین یوتھ کلب کوئٹہ تعاون کر رہا ہے۔
اتھارٹی کے ممبر کی حیثیت سے مجھے بھی اس میں شرکت کرنی ہے۔ یہ یوتھ کلب کوئٹہ کے معروف اور نیک نام تعلیمی ادارے تعمیر نو پبلک کالج میں قائم کیا گیا ہے جس کے کوآرڈینیٹر حافظ طاہر جیسی متحرک اور مخلص شخصیت ہیں۔ حافظ طاہر کا تعارف آسان نہیں۔ وہ جذبہ ٔ عمل سے سرشار ایسی شخصیت ہیں جن کا دل ایک مقصد اور نظریے کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر وہ اشک بہائے بغیر نہیں کر سکتے جب کہ امت کی زبوں حالی کا ماجرا بھی انھیں دل کے آنسوں سے رلاتا ہے۔
حافظ طاہر نے تعمیر نو ٹرسٹ کے چیئرمین بریگیڈیئر عبد الجلیل، ریٹائرڈ، پرنسپل پروفیسر عابد مقصود اور ٹرسٹ کے دیگر ذمہ داران کے تعاون سے یہ کانفرنس اس شان سے منعقد کرائی کہ ملک بھر سے آنے والے اہل دانش ایش کر اٹھے۔ کالج کے اساتذہ اور دیگر ذمہ داران نے کانفرنس کی ذمے داریاں نہایت محنت سے انجام دینے کے ساتھ ایسی مہمان نوازی کی جس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ ہماری ہوٹل کے ذمہ دار پروفیسر افضل تھے اور نوجوان لیکچرر زرک خان ان کے معاون۔ ان لوگوں کے احساس ذمے داری، اخلاص اور محبت نے، سچی بات ہے، ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔ اس محبت کا جواب دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں لہٰذا ان دوستوں کے لیے بہت سی دعائیں۔
یہ کانفرنس اقبالؒ کے تعلق سے تھی، اس لیے اقبالؒ کا ذکر تو ہونا ہی تھا۔ اقبالؒ کا ذکر ہو اور اسلام اور مسلمانوں کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی ہوا لیکن اس کے ساتھ بلوچستان کے دکھ بھی زیر بحث آئے۔
یوں یہ کانفرنس صرف اقبالؒ کانفرنس نہ رہی، امت مسلمہ کے دکھوں اور مسائل کی ترجمان بن گئی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے اہم ماہرین اقبالیات شریک تھے جن میں اسلام آباد سے ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، چیئرپرسن اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف، لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہد، سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، بریگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق، عبید اللہ کیہر، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ساؤتھ پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور ایمز ایجو کیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر الماس صابر شریک ہوئے۔
خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم خان سمیت برطانیہ سے ممتاز پاکستانی تعمیراتی کنسلٹنٹ ڈاکٹر سمیع اللہ ملک، ممتاز ادیب اور کویت میں پاکستانی برادری کے راہ نما رانا اعجاز کی شرکت نے کانفرنس کی اہمیت دو چند کر دی۔
ان کے علاوہ کئی برائر ملکوں سے بھی ماہرین اقبالیات شریک ہوئے جن میں بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف اسلامی تھاٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبد العزیز، مالدیپ کی نیشنل لینگویج اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اشرف عبد الرحیم، ایران سے ڈاکٹر علی کاوسی نژاد اور جامعہ الازہر مصر سے عثمان عبد الناصر شریک ہوئے۔
تمام پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین نے اقبال کی فکر کے مختلف گوشوں خاص طور پر خودی، بیداری اور تحرک کے علاوہ مسلم امہ کے اتحاد کے ضمن میں گفتگو کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مغرب کی بے حسی اور مفادات کے تابع انداز فکر کی غضب ناکیوں پر اپنے پرمغز مقالے میں روشنی ڈالی۔
کچھ مقررین نے غزہ کے حالیہ المیے کے پس منظر میں عالمی بیداری کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسی قسم کے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقبالؒ نے جہاد پر زور دیا ہے۔
خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم احمد خان نے اپنے خصوصی لیکچر میں فکر اقبال ؒ کے مختلف گوشوں کا بڑی جامعیت سے احاطہ کیا۔ ان کا ایک اعزاز کلام اقبال کی تحت اللفظ ادائی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے اقبالؒ کی کئی نظمیں پڑھ کر سماں باندھ دیا۔
سوال جواب کے وقفے میں دو طلبہ نے بلوچستان کی صورت حال کے پس منظر میں ان سے سوالات کیے۔ ندیم احمد خان کا کہنا تھا کہ فکر اقبال ایک پیکیج ہے جس پر عمل کی صورت میں علاقائی سوالات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور مشترکہ فلاح کا تصور ابھرتا ہے جس سے بلوچستان کے مسائل کے حل کی ضمانت بھی ملتی ہے۔
اس سیشن کی صدارت تعمیر نو ٹرسٹ کے سیکریٹری نسیم لہڑی اور ان سطور کے لکھنے والے نے مشترکہ طور پر کی۔
ان سوالوں کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کی صورت حال پر پورا پاکستان پریشان ہے۔ یہاں سے جب دکھی کر دینے والی خبریں آتی ہیں تو پنجاب سمیت پورا ملک غم میں ڈوب جاتا ہے۔ احتجاج اور ہڑتالیں ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ بلوچستان کو اللہ نے بہت قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے، پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ اللہ نے یہ خزانے بلوچستان کو عطا کیے ہیں تو ان پر حق بھی بلوچستان کا ہے۔ اس دولت سے بلوچستان کی قسمت بدلنی چاہیے اور نوجوانوں کو تعلیم، روزگار ترقی کے بہترین مواقع ملنے چاہئیں۔
میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کے اس حق کو پورا ملک تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس مقصد کے لیے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جدوجہد کے لیے بھی تیار ہے۔
میں نے یہ بھی報告 کی کہ حقوق کے حصول کا طریقہ خون ریزی نہیں بلکہ جمہوری اور عوامی جدوجہد ہے۔ خون ریزی خاص طور پر مسافروں کے قتل سے ذہنی اعتبار سے حالت جنگ میں چلے گئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں کشیدگی اور آویزش مسلسل بڑھ رہی ہے لہٰذا امن اور سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عقیدے کے اختلاف کا مطلب تصادم نہیں ہے۔ ایسے معاملات سلجھانے کا طریقہ محبت، حسن اخلاق اور حسن سلوک ہے۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی یہی ہے اور نسل آدم کی بقا کا بھی۔
حافظ طاہر نے کانفرنس کی آغاز میں کہا تھا کہ امت مسلمہ کا جسد خاکی خاک پر بے جان پڑا ہے، اسے سپرد خاک کرنا ہے یا اسے توانائی بخش کر اسے کارآمد بنانا ہے؟ علامہ زید گل خٹک نے اپنے دھیمے اور محبت بھرے انداز میں اس سوال کا جواب ایک مختصر جملے میں دے دیا اور بتایا کہ فکر اقبال ؒ بھی یہی کہتی ہے۔
ہم سنا کرتے تھے کہ بزرگ عطا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ شفقت فرماتے ہیں اور کشش لوگوں کو ان کے قریب کر دیتی ہے۔ غیر معروف علامہ زید کو میں نے ایسا پایا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں جس کسی کی نظر بھی ان پر پڑی وہ ان کی طرف کھنچا چلا آیا اور دعا کا درخواست گزار ہوا۔ علامہ زید گل خٹک کی دریافت میرے دورہ کوئٹہ کا حاصل ہے۔