پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، جو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر ہے۔
نوٹس میں انھیں سات روز کے اندر تحریری وضاحت طلب کی گئی ہے۔ اس شوکاز نوٹس میں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو کہا گیا ہے کہ آپ نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے حق میں ووٹ دیا ہے، جس کے لیے آپ کو پارٹی کے فیصلے کے تحت 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
شوکاز نوٹس میں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو پارٹی پالیسی سے متعلق ہدایات باضابطہ طور پر سینیٹر تک پہنچا دی گئیں، جو واضح ہیں اور انھیں یقیناً معلوم ہوں گی کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے آپ ایسے تصرف کر رہے ہیں جو آئین میں بھی نہیں ہیں۔
اس شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے پر سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو آئین کی آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف قرار دیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق، پارٹی کی ہدایات لازمی اور پابند ہیں جو کوئی بھی ایسا تصرف نہیں کر سکتا۔
ਅੱਜ ਪਾਕستان میں کیا ہوتا رہا?! سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز نوٹس جاری ہوا اور وہ 7 دن بعد توسیع کی ضرورت ہوگی। یہ ایک گڑھی مضمون ہے، پاکستان میں سیاسی تحریک انصاف کا یہ چلنا پچھنا کیا ہے!
اس شوکاز نوٹس میں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے ایسے تصرف کر رہے ہیں جو آئین میں نہیں ہیں اور یہ سینیٹر کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا. واضح طور پر اسے ہدایات دئی گئی ہیں کیونکہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنا ایسا اہم مضمون ہے جس کے بارے میں کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں سکتا.
اس کے علاوہ پارٹی کی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے پر بھی انہیں دھیا دئی گئی تھی جو پوری طرح واضح ہیں. اور یوں سے اس شوکاز نوٹس کے ذریعے پارٹی کی ہدایات کو ایک نیا جائزہ دینا ضروری ہوا ہے، خاص طور پر یہ دیکھنا کہ انہوں نے آئین میں بھی اس طرح کا اہم مضمون نہیں بنایا ہے جو ایسے مواقع کو روک سکتا.
یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا؟ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز نوٹس لگایا گیا اور پتہ چلتا ہے وہ پارٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے حق میں ووٹ دیا تھا؟ اس کی وجہ کیا ہوئی؟ تو یہ سب کچھ بہت غریب ہے، میرے لوگ اس کو لگ رہے ہیں کہ وہ سینیٹر ایسا کیسے کیا؟
اور جب میں پارٹی کی پالیسیوں پر بات کر رہا تھا تو میں یہ سوچتا تھا کہ ان پر کوئی علاج نہیں ہوتا؟ میرے لوگ اس بات کو بھی سوچتے ہیں کہ اسے ایسا نہیں کیا جا سکتا؟
اس صورت حال میں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، جو یہ بات ثابت کرنے کی پہلی کوشش ہے کہ وہ پارٹی کی پالیسی سے باہر جانا چاہتا ہے۔
اس شوکاز میں انھیں اس بات پر توجہ سے لینا پڑتا ہے کہ پارٹی کی پالیسیوں کو پابند اور لازمی سمجھنا چاہئیے۔ اگر پارٹی کی پالیسیوں میں کسی بھی شخص سے بھاگدوتی نہیں ہوتے تو وہ ایسے اقدامات نہیں کر سکتا جو اس کو آئین کے خلاف لے جائے۔
اس شوکاز نوٹس پر کچھ بات کرنے والے لوگ بتائیں ہیں کہ اس سے پی ٹی آئی کے اراکین کی کامیابی کو نقصان پہنچے گا
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے، یہ سوال کہیں بھی نہیں آ سکتا۔ پارٹی کی پالیسی کو اپنے اراکین کے ذہن میں لائیں تو کیا نتیجہ ہو گا؟ ایسے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ سینیٹر کو کیا دکھایا گیا ہے، جب کہ وہ پارٹی کی پالیسی پر توجہ دی رہے تھے تو اس بات کو بھول گئے تھے کہ وہ parliament ki committee mein bhi rehte hain
یہ واضح تھا کہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی کارکردگی میں تو کوئی بات جھگڑا نہیں ہونی چاہئیے، لہٰذا اس نوٹس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی پالیسی سے متعلق ہدایات بھی ضروری ہیں اور انھیں اچھی طرح سمجھنا چاہئیے تو وہی کچھ ہوتا
اس شوکاز نوٹس میں دیکھا گیا ہے کہ پارٹی کی ہدایات کو کوئی بھی رکاوٹ نہیں کر سکتا، یہ سب سے آسان بات ہے۔ ابھی انھوں نے حق میں ووٹ دیا تھا، اور اب شوکاز نوٹس جاری کر دئیں گے کہ ووٹ دیا گیا تھا وہ جائز نہیں تھا؟ یہ سچمایے پر بھی پورا انصاف کی بات ہے…
یہ دیکھنے میں بے حسی آ رہا ہے کہ کیسے ایک پارٹی سے متعلق کوئی تصرف کہلائے بغیر پارٹی کی پالیسی پر اس کی چوری کھیل سکتی ہے اور فوج کے بے چینی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، جو اس بات کو یقین دلاتا ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے ووٹ دیا گیا، لیکن ابھی تک نہیں سمجھایا گیا تھا کہ اس پر ان کا کیا معاملہ ہو گا؟
یہ واضح تھا کہ انہوں نے پارٹی کی ہدایات کو چھوڑ کر ایسا تصرف کیا جس کے لیے وہ پارٹی میں ہی نہیں مگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہے تھے؟ یہ بھی واضح تھا کہ انہیں اپنے تصرفات پر احتیاط رکھنا چاہیے اور 27ویں آئینی ترمیم کو توہت نہیں دینا چاہیے، پھر بھی وہی جانب سے کیا تھا جو کہ اس حوالے سے ایسا نہیں ہو سکتا؟
اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ انہیں سنیٹر تک پہنچنے والی شوکاز نوٹس نے ہمیشہ سے اس بات کو سمجھا ہوا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسیوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں اور جب انھوں نے اس ہدایات کو چھوڑ کر ایسا تصرف کیا تو یہ تو واضح تھا کہ وہ پارٹی کی پالیسیوں پر انحصار رکھتے ہیں نہیڹ کہ وہ اپنی حقیقت کو سمجھتے ہیں؟
اس شوکاز نوٹس میں ان سینیٹر کو کہا گیا ہے کہ پارٹی کی پالیسیوں پر انحصار کرنے کی جای وہ ایسے تصرفات سے پرامن ہوتے ہیں جو آئین میں نہیں ہیں، یہ بھی اچھا ہے کہ پارٹی کی پالیسیوں پر انحصار کرنے کی جای وہ اپنی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں؟