پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے | Express News

جنگل کا راجا

Well-known member
پاکستان کی پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ایک جسمانی صورتحال سامنے آئی ہے۔ اس میں قائد حزب اختلاف نہ ہونے کی صورت سے جمہوری نظام کا ساتھ چھوٹنا، پارلیمنٹ کی کارکردگی میں معراج گری ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب اس صورتحال میں مستقبل میں قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا وقار ختم ہو سکta ہے اور جمہوریت کے ان دونوں اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔

عاملات بھی اس صورتحال کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف سے منسلک دو رہنماؤں عمر ایوب اور شبلی فراز کا اس وقت مفرور ہونا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے اپنے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں، جن کی جائیدادوں کی ضبطگی کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔

ان میں سے دو رہنماؤں نے قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہے مگر ان دونوں کی نااہلی پر الیکشن کمیشن نے ان کو نَاہل قرار دیا تھا۔ ان میں سے دو کے نام محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس ہیں جو اب سینیٹ کے لیے قائد حزب اختلاف مقرر کیا گیا ہوا تھا مگر ان کی عدم موجودگی کی صورت میں پارلیمنٹ کو نقصان پہنچ سکta ہے۔

اس صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ ساتھ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ قانون میں ایک بھی ترمیم نہیں کی گئی تھی جس سے پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کا تقرر عرصے میں ہونا پڑتا، اس بناء پر ان کی ذمے داری جلد از جلد کو سنجیدہ کرنا چاہیے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے ایک رہنما مدثر رضوی نے اس صورتحال پر غور کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی سے ایک غلط روایت بن گئی ہے اور مستقبل میں پارلیمنٹ کو اپنے وقار کی بحالی کے لیے از سر نہیں انفرادی جدوجہد کرنی پڑے گی، دونوں ایوانوں سے قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی جمہوریت کے ان دونوں اداروں کی کارکردگی میں معراج گری ہوسکتی ہے۔
 
یہ صورتحال پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے بڑا خطرہ ہے، اگر وہ پارلیمنٹی کارکردگی میں معراج گری نہیں ہوتی تو یہ جمہوریت کے لئے گھات لگای دے گی۔
جب تک قائد حزب اختلاف کا کردار اس صورتحال میں حقیقی توجہ نہ دی جائے گا تاہم یہ بات صریع طور پر منکرنے والی ہوگی کہ پارلیمنٹی کارکردگی کو ساتھ چھوڑنا اور وہ اپنی ذمے داریوں کو جلد از جلد نہ سنجائیے گا، اس صورتحال میں انہیں قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی کے نتیجے میں پارلیمنٹی کارکردگی میں نقصان پہنچ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں قائد حزب اختلاف سے منسلک دو رہنماؤں کو اس وقت مفرور کیا جارہا ہے جن کی جائیدادوں کی ضبطگی کی کارروائی شروع ہوگئی ہے، یہ بات یقیننہ طور پر کہتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں اور بھی بات یہ ہے کہ قانون میں ایک بھی ترمیم نہیں کی گئی تھی جس سے پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کا تقرر عرصے میں ہونا پڑتا، اس بناء پر ان کی ذمے داری جلد از جلد کو سنجیدہ کرنا چاہیے۔
 
یہ تو ایک بڑا مسئلہ ہے، پارلیمنٹ کا ساتھ چھوٹنا بہت Problem hai, اگر قائد حزب اختلاف نہ ہوتا تو پارلیمنٹ کی کارکردگی میں معراج گری ہوسکتی ہے? Lekin bas isse pehle bhi ek problem hai ki un dono rahnoomiyaon ka warant jari karna uss ke liye thik nahi hai, aur ab unki jaizadon ki bhi captoria shuru ho gayi hai... yeh to ek big risk hai, phir bhi main sochta hoon ki ismein ek solution bhi hai, yeh ki parlement ko apne quality ko maintain karne ke liye azar se nahi badalna chahiye. 🤔
 
اس صورتحال نے مجھے سोचنے پر مجبور کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کی صحت مند موجودگی کس قدر اہم ہوتی ہے؟ جو لوگ اس کردار کو ادا کر رہے ہیں وہ ساتھ ساتھ اپنے نااہلی پر کام کر رہے ہیں، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ مگر اب جب قائد حزب اختلاف نہیں ہے تو میں اس سے انفرادی جدوجہد کرنا کیسے چاہوں؟ یہ سبھی ایک معضلات کے ساتھ بھرپور منظر ہے۔
 
پارلیمنٹ میں یہ صورتحال بہت مشکل دیکھ رہی ہے، قائد حزب اختلاف کی نا ہونے سے پارلیمنٹ کا شان ختم ہوسکتی ہے اور اس سے یہ بات بھی چلتی ہے کہ جسمانی صورتحال میں ایک جاسوسی پینٹنگ لگ گئی ہو تھی جو نہیں دیکھائی دیا گیا تھا اور اب وہ لوگ پارلیمنٹ میں موجود ہیں جن کی ذمے داریاں جیسے چیلنجنگ کئرئیر کے لیے کئے جانے پڑتے ہیں، اب وہ سب اچھی طرح چل رہے ہیں تاکہ وہ لوگ جسمانی صورتحال میں اس پر اپنی جائیدادوں کو پکڑ لینے کی کوشش نہ کر سکیں، میں انھیں اپنی جائیدادوں کو چھپانے کی کوشش نہ کرنے دیں گا

🤔
 
یہ بات تو یقیناً صوفیہ کے ایک پہلی سال کی طالبہ سے بھی ایسے سیکھنا چاہیے کہ اگر پارٹی نے قائد حزب اختلاف کو منتخب کر لیا ہو تو وہ رہے اپنے عہدے پر، اور اس طرح پارلیمنٹ کی کارکردگی میں معراج گری نہ ہونے دی۔ مگر یہ بات بھی یقیناً واضح ہے کہ ایک قائد حزب اختلاف کی صورت میں ایسی بھی اہمیت ہوتی ہے جس سے پارلیمنٹ کی کارکردگی میں معراج گری نہ ہو سکتی ہے۔

اب یہ سوچنا بھی کہ ایک قائد حزب اختلاف کو منسلک دو رہنماؤں کی عدم موجودگی سے پارلیمنٹ کا وقار ختم ہو گا تو بھی یقیناً نہیں، اس صورتحال میں کوئی بات نہیں کہ جس سے ایک قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی سے پارلیمنٹ کا وقار ختم ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے اپنے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں، یہ بھی اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی نہ کوئی رہنا منسلک دو رہنماؤں کی عدم موجودگی سے اس صورتحال میں نقصان ہو رہا ہے تو ایسا اچھا نہیں۔

عمر ایوب اور شبلی فراز کے وارنٹ جاری کرنا یقیناً ایک بڑا اقدام تھا، اس صورتحال میں کوئی بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس तरह کا اچانک کदम نہیں لگایا ہوتا۔
 
واپس
Top