پاکستانیوں کے لئے یونان اور بھی بہت سے یورپی ممالک جانے میں روکنے کی پہل گزری ہے، جس میں ہمیشہ اس بات کو منتظرم نہیں کیا تھا کہ اگر ویزہ مل جائے تو یہی اور دوسرے مملکتوں میں بھی جانے کی اجازت دی جائے گئی۔
پاکستانیوں کو یونان اور بھی ان سے زیادہ ملک ہیں جن پر یہ پابندی لگ رہی ہے، آج تک ڈالر، پائونڈ اور یورو میں فیس ادا کرنے کے بعد بھی وہاں جانے والوں کو روکا جا رہا تھا، اب وہ ہی بھی یوم ووم نہیں اُٹھ پائے گئے۔
جس وقت بھی پابندی لگائی جاتی ہے وہاں کے مسافروں کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کی دستاویزات پروٹیکٹ کرلیں، اور دوسرے بھی یہ ہی کہ وہیں جانے والے لوگ اپنے فون پر سٹاپ پر رہتے ہیں، ایسا کرکے ملازمت پر کام کرنے والوں کو چھٹکے میں لگیں نہ پائیں جائیں اور وہیں سے واپس آئے کروں۔
اس طرح یہ نہایت اچھا ہوگا، لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ایک مسافر اپنے ساتھ اس سے پہلے کی کئی گزائش کرتا رہتا ہے اور فون پر ملازمت پر کام کرنا تو لگاتار چھٹکے میں لگ جاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو کچھ بات چیت کرنے کا بھی فراز نہیں پریشان کرونا چاہئے۔
ایک مسافر نے کہا، میری والد 20 سال یونان میں رہے، ان کی وفات بھی وہیں ہوئی، مجھے بھی ویزہ ان کے ذریعے ملا تھا اور ایک ہزار یورو کے فیس میں اسے ادا کیا تھا مگر وہیں جانے والے کو روکا گیا، اور اب نہ صرف وہیں سے واپس چلا جاتا ہے بلکہ ایسا نہیں کرتا ہے جیسا انھوں نے 20 سال قبل کیا تھا، اس طرح یہ بھی پابندی لگنے کی پہل اچھی نہیں ہوئی۔
مشرقی یورپی ممالک جانے والوں کو روکنے سے پہلے نہیں ہوتا کہ ملازمت پر وہاں جانے والے اپنی اپنی اور گھریلو مسافروں کی بھی دستاویزات پروٹیکٹ کریں، اس طرح کسی کو نہ کسی کی ایک تو گھریلو کیریئر پر پابندی لگ جاتی ہے اور دوسری جاننے والی اپنی ذاتی زندگی کے قاہل تھام جاتے ہیں، یہی نہ ہو کر وہاں سے ملازمت پر کام کرنے والے کو چھٹکے میں لگیں رہتے ہیں اور وہ پانی چھوڑ کے ہو جاتے ہیں، یہ بھی نہایت حتمی نہیں ہے۔
پاکستانیوں کو یونان اور بھی ان سے زیادہ ملک ہیں جن پر یہ پابندی لگ رہی ہے، آج تک ڈالر، پائونڈ اور یورو میں فیس ادا کرنے کے بعد بھی وہاں جانے والوں کو روکا جا رہا تھا، اب وہ ہی بھی یوم ووم نہیں اُٹھ پائے گئے۔
جس وقت بھی پابندی لگائی جاتی ہے وہاں کے مسافروں کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کی دستاویزات پروٹیکٹ کرلیں، اور دوسرے بھی یہ ہی کہ وہیں جانے والے لوگ اپنے فون پر سٹاپ پر رہتے ہیں، ایسا کرکے ملازمت پر کام کرنے والوں کو چھٹکے میں لگیں نہ پائیں جائیں اور وہیں سے واپس آئے کروں۔
اس طرح یہ نہایت اچھا ہوگا، لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ایک مسافر اپنے ساتھ اس سے پہلے کی کئی گزائش کرتا رہتا ہے اور فون پر ملازمت پر کام کرنا تو لگاتار چھٹکے میں لگ جاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو کچھ بات چیت کرنے کا بھی فراز نہیں پریشان کرونا چاہئے۔
ایک مسافر نے کہا، میری والد 20 سال یونان میں رہے، ان کی وفات بھی وہیں ہوئی، مجھے بھی ویزہ ان کے ذریعے ملا تھا اور ایک ہزار یورو کے فیس میں اسے ادا کیا تھا مگر وہیں جانے والے کو روکا گیا، اور اب نہ صرف وہیں سے واپس چلا جاتا ہے بلکہ ایسا نہیں کرتا ہے جیسا انھوں نے 20 سال قبل کیا تھا، اس طرح یہ بھی پابندی لگنے کی پہل اچھی نہیں ہوئی۔
مشرقی یورپی ممالک جانے والوں کو روکنے سے پہلے نہیں ہوتا کہ ملازمت پر وہاں جانے والے اپنی اپنی اور گھریلو مسافروں کی بھی دستاویزات پروٹیکٹ کریں، اس طرح کسی کو نہ کسی کی ایک تو گھریلو کیریئر پر پابندی لگ جاتی ہے اور دوسری جاننے والی اپنی ذاتی زندگی کے قاہل تھام جاتے ہیں، یہی نہ ہو کر وہاں سے ملازمت پر کام کرنے والے کو چھٹکے میں لگیں رہتے ہیں اور وہ پانی چھوڑ کے ہو جاتے ہیں، یہ بھی نہایت حتمی نہیں ہے۔