سرزمین غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی شہدیت کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ تازہ حملوں میں 6 فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں جبکہ ان حملوں سے قبل شہدیت کی تعداد 68 ہزار 519 ہوچکی ہے اور زخمیاں ایک لاکھ 70 ہزار 382 ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں کم از کم 15 لاکھ افراد کو ہنگامی امداد کی ضرورت ہے جس میں خوراک، پانی اور ملبے کی ضروریات شامل ہیں۔ فلسطینی لوگوں کے گھروں پر حملے ، زرعی زمینوں پر تباہی کرنا بھی اسرائیل کا یہ دباؤ دکھایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ لوٹنے والے فلسطینی صرف ملبے کے ڈھیر میں رہتے ہیں۔
امدادی اقدامات نہیں کرنا کا یہ معاملہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اقوام متحدہ کی فوجی مشورہ داری اور وزراء کے اجلاس میں بھی سامنے آیا ہے جس پر ان کا معاملہ بھی بحال نہیں ہو سکتا۔
سرزمین غزہ کی صورت حال تو پورے دنیا کو دبایا رہا ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی لوگوں کو ہنگامی امداد کی ضرورت تازہ 15 لاکھ افراد ہیں اور زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے تو کیا ابیں، یہ بھی تازہ حملوں میں 6 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں، مگر یہ بات کچھ دیر سے ہی جاننی چاہیے کہ غزہ میں ان لوگوں کو نہ صرف خوراک اور پانی کی ضرورت ہے بلکہ ملبے کی ضرورت بھی ہے جس کو یہ لوٹنے والے فلسطینی صرف ملبے کے ڈھیر میں رہتے ہیں، تو یہ معاملہ کتنا مشکل ہے! اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی گھروں پر حملے کیے ہیں، زرعی زمینوں پر تباہی کرنے سے ہی بھی ان لوگوں کو لٹکایا ہے، تو اب یہ کتنا مشکل معاملہ ہوا گا!
مرے خیال میں یہ سب ایک دائرہ خامی ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینی شہدیت کی تعداد بڑھ رہی ہے تو اس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ مری Opinion میں ان لوگوں کو ساتھ مل کر اپنی وحدت بنانے کی ضرورت ہے نہیں تو یہ سب ایک گہرے خوف کے دور میں پھنس جائیں گے اور امدادی اقدامات کی ضرورت بھی زیادہ ہو جائے گا
ہمارے صوبے چولاسٹن میں ایک بچہ شہید ہونے پر غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی زحمیت کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا اور اب 68 ہزار سے زیادہ شہدات ہیں جس کے علاوہ لاکھوں فلسطینی لوگ زخمی ہوئے ہیں تو یہ سچا بھی ہے کہ امدادی اقدامات نہ کرنا ان کے لیے اب بھی بڑی مسئلہ کی طرح نظر آ رہا ہے جبکہ اسرائیل کے دباؤ کے تحت فلسطینی لوگ صرف ملبے میں اپنی جائیدادوں سے نکلتے ہیں تو یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ غزہ کی زبانیں نہیں چل رہیں اور وہاں کی آبادی کو امدادی اقدامات پر دھ्यان دینا بھی ضروری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی ایسی پالیسی برتی رہی ہے جو فلسطینی لوگوں کو انتہائی صعوبت میں رکھتی ہے۔ اس سے قبل تھا وہ بھی جسمانی انقسام کے خطرے میں پھنسے تھے اور اب وہ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں، یہاں تک کہ ایک لاکھ سترہ ہزار 382 فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں! اور وہ سب کچھ اس پر مبنی ہے کہ فلسطینی لوگوں کو اپنے گھروں سے بाहर رکھا جائے اور انہیں لوٹنا پڑے تاکہ وہ صرف ملبے کے ڈھیر میڰ رہتے ہیں! یہ تو فلسطینیوں کو کیا؟ یہ ایک انتہائی بے دباؤ کی پالیسی ہے جو کہ ایک جگہ سے باوجود تھی اس پر اب واضح ہوا ہے۔
سرزمین غزہ کی پیداوار اور آبادی کو تباہ کرنے والی اسرائیل کی ایسی کٹاریلی لہر نہیں ہے جس کی پہچان دی جا سکے۔ انسانوں کو گھروں سے باہر رکھنے اور انہیں لوٹنا، معیشت کو تباہ کرنا ایسی صورتحال ہے جس کا جواب کیے بھگتا نہیں ہے۔ یہ دیکھنا بے حیثیت ہے کہ کتنے فلسطینی لوگ اپنے گھروں سے باہر رکھے جاتے ہیں اور انہیں صرف ملبے کے ڈھیر میں رہنا پڑتا ہے۔
آبادی کی ترے دیکھنے والا یہ معاملہ جیسا کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے، ایک لاکھ سولہ لاکھ 382 لوگوں کو ہنگامی امداد کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اور بھی زیادہ لوگ محنت کر رہے ہیں۔ وہ لوٹنا تو ایک چیز ہے لیکن ان کے معاشرے کو ٹھیک بنانے میں کچھ اور ضرورت ہے۔
ایسے حالات کیسے آئے? غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی شہدیت کی تعداد اور زخمی افراد میں اضافہ، اس سے پوچھنا ہی ہوتا ہے کہ کیسے آئے؟ فلسطینی لوگوں کو خوراک، پانی اور ملبے کی ضروریات سے بھی ناواقف رکھنا تو انتہائی گھریلو کہلاؤ ہی ہے اور اس پر سرجتے ہوئے فلسطینی لوگ ملازمت سے بھی بھاگتے ہیں، ایسا تو کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
عجائب ، غزہ کی صورتحال تو اس قدر بدل گئی ہے۔ ہمیشہ کہتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کا معاملہ سستا اور پریشانی خیز ہے لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے۔ 68 ہزار 519 فلسطینی شہید ہوئے ہیں اور اس سے قبل ان کے زخمی ہونے کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے، یہ تو کچھ معقول ہے لیکن یہ بات کچھ کھڑی ہے کہ 15 لاکھ افراد کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے؟
کوئی بتاتا ہوگی کہ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کی مدد کی ہے یا انہیں ہی بھگتایا ہے? اسرائیل کو تو پوری دنیا کی criticisation میں رکھنا ہو گی لیکن ایسا نہیں ہونے دے اور فلسطینیوں کو بھی انہیں criticisation سے بچانے کے لئے کوئی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سرزمین پر ہونے والے یہ حملے تو ایک طرف سے اسرائیل کی ناکام پالیسی کا ثبوت ہیں، دوسری طرف فلسطینی لوگوں کو ہنگامی امداد کی ضرورت بھی ہے اور ان کے گھروں پر حملے تو ایک زہریلے جھنڈا ہیں، لاکھوں لوگ زخمی ہوئے ہیں، کیا ہنگامی امداد کی ضرورت سے بھی کبھی اور کبھار کام نہیں کیا جاسکتا؟ یہ تو ایک معاملہ ہے جس کا حل فلسطینیوں کو ان لوگوں کی ہنگامی امداد کے لیے ہی بھی دھنڈوں میں ڈالنا پڑے گا، یہ معاملہ نہیں ہوتا اگر اسرائیل کی بھی ایک جگہ ہنگامی امداد کی ضرورت ہو اور وہ اس کو پورا کرنے کے لیے ہمت نہ کرسکتا تو یہ معاملے میں کوئی حل نہیں آ سکتا…
اس سرزمین کی سیرفر پر یہ بات کوئی بھول نہیں سکتی کہ فلسطینی شہدت کی تعداد زیادہ ہوتی جاتی ہے، یہاں پچاس لاکھ سے زائد لوگ اپنی جان دے رہے ہیں اور اب تک اس کو کی گئی شہدت کے خیرامد نہ تو ملتے ہیں، نہ ہی ان کے مقتولوں کی ملازمت نہ کھیلتی۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا یہ کہنا کہ غزہ میں 15 لاکھ افراد کو ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، ایک سچائی ہے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان لوگوں کو معیار جاری رکھ کر ملکی معیشت میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے، ملازمت کے ذریعے ان سے کیا گیا ہے وہی معاملہ نہیں ہوگا۔