اسرائیل کی حکومت نے غزہ میں تعینات ہونے والی بین الاقوامی فوج میں ترکیہ کے شامل ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے ایسا کھلایا ہے کہ اب یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ترکی اس فوج میں حصہ نہیں لے گا۔
دوسری جانب، شام کی Situation پر اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات بالواسطہ طور پر کشیدہ ہیں، اور اسرائیلی حکومت ترک صدر رجب طیب اردوان کو حماس کے قریب سمجھتی ہے۔
تاہم، ترکی کو فورس سے باہر کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یہ ملک ٹرمپ کے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے ضمانت دہندگان میں شامل ہے اور سب سے مضبوط مسلم افواج میں شمار ہوتا ہے۔
غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس پانچ ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہوگی، جس کی قیادت ممکنہ طور پر مصر کے پاس رہے گی۔ دیگر ممالک، جیسے انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات چاہتے ہیں کہ فورس اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت کام کرے، اگرچہ یہ خود اقوام متحدہ کی امن فوج نہیں ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ یہ بین الاقوامی فورس امریکی کی زیر قیادت ’سول-ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر‘ (CMCC) کے ساتھ مل کر کام کرے گی، جو جنوبی اسرائیل کے شہر کریات گیٹ میں قائم ہے۔ جس کا افتتاح امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے منگل کے روز کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعہ کو اسرائیل میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ”غزہ کی تعمیر نو کے لیے قائم کی جانے والی بین الاقوامی فورس میں شمولیت کے لیے اسرائیل کی رضامندی ضروری ہے تاکہ سیکیورٹی خلا پیدا نہ ہو۔“ انھوں نے مزید کہا کہ فورس کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو کے آغاز کے بعد امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے۔
دوسری جانب، ترکی نے Forum میں اپنے دستوں فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، لیکن اسرائیل نے واضح کر دیا کہ وہ ترک فوجیوں کی شرکت قبول نہیں کرے گا۔
ਕੀ یہ ممکن ہے؟ اسرائیل کی حکومت ٹرک کو سول-ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر (CMCC) میں شامل کرنے پر اصرار کرتے ہوئے انہیں اس طرح تو چھوڑ دیا جائے گا اور اب وہ خود سے باہر نہیں آئے گا؟
یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اسرائیلی حکومت کو ان کی شرکت پر اصرار کیا تھا، لیکن اب وہ اسی طرح تو چھوڑ دیا گیا ہے؟
اس ملک میں ہونے والی ایسی باتوں پر مجھے اتنی غبرانہ لگتی ہے کہ پہلے تو سوچوں کے بعد بھی یہ حقیقت تھی کہ اسرائیل اور ترکیہ کا تعلق شام سے زیادہ غمز میں ہے، لیکن اب یہ بات بھی آگئی ہے کہ Turkey کو Israel میں وولونٹیئر کی حیثیت سے شرکت نہیں کرنے دی جائے گی تو کیا؟
یہ بات جب بھی سنی جاتی ہے کہ غزہ میں انٹرنیشنل فورس میں ترکیہ کا شامل ہونا، تو اس پر اسرائیل کی ناقدیت آتی ہے، لیکن اب یہ بات بھی جاری ہے کہ یہ امکان زیادہ ہے کہ ترکیہ اپنی پیشکش سے واپس چلے جائے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ اس صورت حال میں ایک نئی بھرپور طاقت کی ضرورت ہے، جو غزہ کی تعمیر نو اور امن و استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دے سکے۔
لگتا ہے کہ اسرائیل اور ترکیہ دونوں اپنی جانب سے اچھی طرح سوچ رہے ہیں، لیکن ایک واضح بات یہ ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایسی پورے ملک میں تعاون کی ضرورت ہے جو تمام تعاقدات اور معاہدوں کے تحت آئے ہو۔
اس Israel ki situation ko dekhiye to yeh ek bada khalqa hai . Turkey ko is force me participation nahin karne ka ilaza kyun nahi diya gaya? Turkey ki baat sunaiye, Turkey hamara close friend hai aur hamari sath mein rehta hai. Lekin Israel ne yeh ilaaz kar diya hai, toh yeh to galat hai .
Israel ki government ko alag-alag deshon ke dushmani ka maza aata hai . Unhone Turkey ki bhi baat sunaiye, lekin woh isko man nahin liya .
Turkey ne apne forces se is force mein participation karne ki ilaaz di hai, lekin Israel ne yeh ilaaza nahin kiya . Yeh to Turkey ke saath sahi sambandh banaane ka mauka hai .
اس کے لیے Turkey کی ایسے کردار کو دیکھنا انٹریسٹنگ ہوا، جس نے Israel کی حکومت کو Turkey کی Participation کی پیشکش کی ہے، لیکن وہ انھوں نے خود accept nahi kiya!
دوسری جانب، شام کی Situation par Turkey اور Israel کا relation khas uska hai. Turkish government ko Hamas ke paas dikhna pasand na aata, lekin Trump ki 20-point ceasefire plan ka Turkey bhi part of hai.
Turkey ko Firsa se baahar nahi raha, kyunki woh US ki 20-point ceasefire plan ka guarantee deta hai aur sabse mazboot Muslim forces mein shaamil hai!
Turkey ko bhi kaha gaya hai ki woh is force mein na lagegi kyunki US ne turkey ko 20 point war plan ka bahut close partner banaya hai. Aur woh turkey ko iska benefit nahi dil sakta. Turkey ke saath is issue par Israel aur US ki baat thodi mushkil ho sakti hai kyunki Turkey ko hamari side se kuch bhi galat feelings nahi ho sakti.
Turkey ko kai reasons hain jo use is force mein participate karna nahi chahiye. Yeh ek bada risk hai aur turkey ko yah pata nahi hai ki woh aasaan se yahan se nikal sakte hai ya nahin. Aur US ka bhi thoda tension hai kyunki turkey ko hamari security ke liye bhi zaroorat hai.
اسسٹڈ انڈیکس میں ہمیشہ سے یہ بات محسوس ہوتی رہی ہے کہ اسرائیل اورTurkey کی تعلقات کشیدہ، مگر وہ دونوں ملک پوری دنیا کی نگاہوں میں ہیں۔ اب تو غزہ میڰ بین الاقوامی فوج میں Turkey کی شمولیت پر اسرائیل نے protest کیا ہے، لیکن وہ تو خود ہی جانتا ہے کہ Turkey کو فوری طور پر انسافن سے باہر نہیں نکل سکega۔ اس کی ایسے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے میں وہ بھی شامل ہیں جس کا Turkey کے لیے اہمیت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہTurkey سب سے مضبوط مسلم افواج میں شمار ہوتے ہیں۔ اس سے Israel کو واضح ہوتا ہے کہ اگر Turkey ان فوجوں میں حصہ نہیں لیتا تو وہ کیسے کام کر سکتے ہیں؟
اس کی ایسی شرائط ہیں جس پرTurkey کو اپنی جان اور دولت بھی چھپائی لگتی ہے۔ اس لئے Turkey نے فورم میں اپنے دستوں فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن اسرائیل نے واضح کر دیا کہ وہ ترک فوجیوں کی شرکت قبول نہیں کریں گے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اورTurkey کے درمیان تعلقات بھی انسافن سے باہر نہیں ہوسکتے، جبکہ Turkey کو غزہ کی تعمیر نو میں اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔
اس سITUیشن میں، میرے لئے یہ بات یقینی ہو چکی ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی قیادت مصر کے ہوگی، پانچ ہزار اہلکاروں سے بھرپور ایکٹھا ہوا ہوگا
امریکہ اور اسرائیل کی تھیروں نکاتی جنگ بندی منصوبے کے تحت،Turkey کو فورس میں شامل ہونے پر مچھلی سوج رہی ہوگا، حالانکہ وہ پہلے بھی Forum کی طرف پیش کش کر چکا تھا
Turkey کے ایسے اہم کردار کو نظر انداز نہ کیا جا سکتا ہوگا جس کی وہ بھرنا چاہتی ہے، لیکن اسرائیل کا یہ عزم توجہ دلاتا ہے کہ وہ کسی فرار کی صورت حال میں نہیں پڑ سکتا
عرب دنیا میں ایسی صورت حالات کا سامنا ہونا بہت مشکل ہے جس میں ایک ملک اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہر کوئی دوسرے کی مدد کر رہا ہو। اسرائیل اور ترکیہ کی حکومت دونوں انٹرنیٹ پر ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہیں کہ یہ دیکھنا بھی تھکا ہوا ہوتا ہے۔Turkey کی حکومت نے اس صورتحال میں اپنی مدد کے لئے پوٹول مچا دیا ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ صرف ایک بات ہے جس پر یہ توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
مگر اس میں کوئی نہیں سوچتا کہ ان کی ایسی صورتحال بھی آئی ہوگی جو اس کو دور کر سکتی ہو۔ غزہ کی تعمیر و ترقی پر اسرائیل اور ترکیہ دونوں کی حکومت یہ بات سوچ رہی ہوں گے کہ اب یہ تو ان کا نئا مقصد ہوگا۔
ابھی یہ سب بہت جیت جیت کر بتایا گیا تھا کہ غزہ میں تعینات بین الاقوامی فوج کی قیادت امریکہ کرے گا، لیکن اب یہ بات سہی نہیں ہو سکتی کہ اس فورس کے لئے اسرائیل کا رضامنڈہ ضروری ہوگا یا نہیں۔
اس دuniya میں ہر گھنٹے نئے چیلنجs آتے ہیں، اور اسرائیل کی حکومت کی جانب سے غزہ میں بین الاقوامی فوج کے لیے ترکی کی شراکت کا ایسا کھلایا ہے کہ اب یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ وہTurkey اس فوج میں حصہ نہیں لے گا۔ ایسا تو حیرانی کن ہے، کیوں کہ اسرائیل اور ترکی کی تعلقات کشیدہ سے بھری ہوئی ہیں۔
لیکن یہ بھی بات قابل توجہ ہے کہ Turkey کو فورس سے باہر نہ جانا ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ٹرمپ کے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے ضمانت دہندگان میں شامل ہے اور سب سے مضبوط مسلم افواج میں شمار ہوتا ہے۔
جس کے بعد یہ کہہنا مुशکل ہوگا کہ غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس کو کون سے اہلکار بھیجے گئے ہیں؟ پانچ ہزار اہلکار؟ یہ بھی ہر فیکٹری کی گاڑیوں کی جمع کرتے ہوئے ہے، تو اس میں سے جوابदہ اہلکار ہونگے، وہ کس نے انہیں بھیجا؟
اس سارے مضمون میں پتہ چلا کہ غزہ میں انٹرنیشنل فورس میں ترکی کی شرکت پر اسرائیل کو اس بات پر اصرار کرنا ہوگا کہ وہ ترکی فوجیوں سے بھاگ جائیں، لہذا یہ گمان تھا کہ ایسا نہیں ہونے دوں اور اسے روکنے کے لیے اسرائیل نے ترکی کو ایک چیلنج دیا ہوگا، پھر بھی ترکی ایسی صورتحال میں ڈوبنے سے انکار کر گئی ہو، یہ دیکھنا مفید ہوگا کہ کیوں اور اس وقت کی کوئی بات نہیں، یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کو یہ بات بھی بتائی ہوگی کہ اگر وہ ترکی فوجیوں کی شرکت قبول کرنے سے انکار کر دیں تو فورس کا مقصد ہٹ جائے گا اور امن و استحکام کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا ہوگا، اس میں کچھ یقین دہانی ہے!
اس وقت کیا ہے وہ دیکھنا ہے کہ اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان سے کس طرح معاملات بھاپ سے چل رہی ہیں? ترکیہ نے ایک واضح پیشکش کی ہے لیکن اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ترک فوجیوں کی شرکت قبول نہیں کریں گے۔ یہ تو ایک چیلنج ہے، لیکن یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ترکیہ کو فورس میں حصہ لینے سے انکار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد شام کی صورتحال کے بارے میں سوچنا ضروری ہے، یہ بات ہی واضع ہے کہ اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان تعلقات تو بہت کشیدہ ہیں لیکن اس صورتحال میں کیوں؟
امریکی وزیر خارجہ نے بھی اس میں اپنا کردار بیان کیا ہے، انھوں نے بتایا کہ اسرائیل کی رضامندی لینا ضروری ہے تاکہSecurity خلا پیدا نہ ہو۔ لیکن یہ بھی سوچنی پڑی ہے کہ اس فورس میں ترکیہ کی شرکت سے ان کی موثریت کیسے متاثر ہوگی?
turkey ke liye ek bada sawal hai yeh ki woh gaza mein aayegi international force me kya bhag leega? ab uski yojana bhi badh gayi hai ki wah apni fauj ko nahi di skta toh kya wo kisi anya desh se help kar skta hai?
ان شہریوں کے لئے بھی یہ بات ایسی ہو گی جس کو کسی نہ کسی صورت میں اپنی وجہ سے نافذ کرنا پڑے گا،Turkey کے دستوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس پر Israel کی واضح انکاریت ہے،اس سے ایک بات یقین نہیں کہی جا سکتی کہ Turkey کو اس صورت حال میں کسی اور طریقے سے شامل ہونا چاہیے، Turkey کی ایسی صورتحال بھی نہیں بنے گی جس میں America کی اقدار سے ان کا تعلق توڑنا پڑے گا