نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے فوری خاتمے کی ضرورت پر زور دیا ہے، انھوں نے یورپی یونین انڈوپیسیفک وزارتی فورم سے خطاب میں کہا کہ کچھ عناصر خطے کی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انھوں نے مخالفت کی ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا اور نہیں ہोगا۔
اسحاق ڈار نے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقسیم اور طاقت کی دوڑ خطے اور دنیا کے لیے خطرناک ہے، مصنوعی ذہانت دنیا کا نقشہ بدل رہی ہے، پاکستان یو این اصولوں کی پاس داری کو ترجیح دی جاتی ہے۔
انھوں نے غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے فوری خاتمے کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے کہا کہ یہ خطے کی امن کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں سے نمٹنا ہی بڑاChallenge ہے، اور انھوں نے کہا کہ اس سے ہی یقیناً کس کس سرگرمیوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کا حل تلاش میں انھیں اور انھیں دوسرے خطے کو بھی شामل کرنا ہوگا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا حل صرف ایسا ہے جب اس میں سارے ملک اور اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے گا، انھوں نے انھیں یہ بھی کہا کہ یہ خطے کی امن اور استحکام کے لیے بڑا اہم مقام رکھتا ہے، لہذا اس سے نمٹنے میں باہمی تعاون کو ضروری قرار دی جائے گا۔
اسحاق ڈار نے جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فُل سے بھی ملاقات کی، اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے دفاع، سیاسی، معاشی، تجارت، سرمایہ کاری اور تعلیمی شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اسحاق ڈار کو اچھی طرح نہیں سمجھتا ہوں، انھوں نے اچھے لیکھ بھی کیے ہن، اس وقت فلسطینیوں کے مظالم پر قبضے سے نمٹنے میں یہ اعلان کیا ہے کہ ابھی بھی مظالم ہیں؟ پھر کس طرح انھیں فوری خاتمہ کرنا ہو گا?
اسحاق ڈار کی بات سے مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا ہے، لگتا ہے وہ سدھے سالوں پہلے یہی بات کرتے تھے۔ جب کہ دنیا بھر میں جدید مصنوعی ذہانت کی طرف تیز رفتار چل رہی ہے، اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان یو این اصولوں کو ترجیح دی جاتی ہے، لگتا ہے یہ تو نئی ہی بھی بات ہے، انھوں نے جموں و کشمیر کا حل تلاش میں اپنے ملک کے عوام کی امنگوں سے جوڑ دیا ہے اور اس کو صرف ایسا ہی ہوگا جب سارے ملک اور اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے گا، یہ تو لگتا ہے اچھا پزیر ہوگا؟
اسحاق ڈار کی باتوں سے میں متاثر ہوا ہوا ہے، وہ ایسے معاملات پر زور دیتے ہیں جیسے فلسطینی زمینوں پر قبضے اور غزہ کی امن کا خاتمہ، یہ سارے معاملات ہی دنیا کو متاثر کر رہے ہیں اور ہمیں ان میں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسحاق ڈار نے دیکھا ہے کہ دنیا کے خطوں میں تقسیم اور طاقت کی دوڑ ایسا رونما ہو گئی ہے جو ہمیںDanger میں ڈالتا ہے، لیکن وہ بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا کو ایک اور رخنا پڑتا ہے۔
اسحاق ڈار کی بات سے ہارنے والی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خاتمے کی ضرورت کو دھیان mein رکھنا ہے ، اگر نہیں تو یہ خطے کی امن کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں سے نمٹنا ہی بڑا challenge ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کی taraf سے دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے اور پاکستان یو این اصولوں کی پاس داری کو ترجیح دی جاتی ہے، لہذا ایسے معاملات میں باہمی تعاون ضروری ہوتا ہے
جب تک کہ ان مظالم اور قبضوں کی طرف سے نمٹنا نہیں کیا جائے گا، یہ خطے کی امن اور استحکام کے لیے بڑا اہم مقام رکھتا ہے، لہذا اس سے نمٹنے میں باہمی تعاون کو ضروری قرار دی جائے گا۔ جموں و کشمیر کا حل تلاش میں انھیں اور انھیں دوسرے خطے کو شامل کرنا ہوتا ہے، اس سے یقیناً کس کس سرگرمیوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔
اسحاق ڈار کی واضح باتوں سے واضع ہوتا ہے کہ انھیں یہی واقفیت ہے کہ ایسے سرگرمیوں سے نمٹنا ہے جو خطے کی امن کو تباہ کرنے کی طرف لے جاتی ہیں، اور انھیں یقیناً اس کے لیے سارے ملک اور اقوام متحدہ کے حوالے کیا جانا چاہیے، انھیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تقسیم اور طاقت کی دوڑ نہیں ہونے دی جائےگی، مصنوعی ذہانت دنیا کا نقشہ بدل رہی ہے، یو این اصولوں کو پاس داری ایک اہم مقام رکھتی ہے...
عشق کی مچھلی پالوں کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتی ہے!
سارے خطے میں اچھا حال نہیں ہوا، تو کیسے؟
نائب وزیراعظم کی بات سے ہمیشہ ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے... پتہ چلتا ہے کہ جب ہم نہیں بات کر رہے!
علاقوں کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، لیکن یہ کچھ آسان نہیں ہے!
دفاع اور تعاون میں مزید ترجحہ دیا جانا... یہ بھی اچھا ہو سکتا ہے!
فلسطینی زمینوں پر قبضے سے نمٹنے کی لڑائی اچھی طرح پورا ہونا ہوگا، ان سب لوگوں کو جو یہ رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں وہ ایک ایسے نئے عالمی نظام کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے جہاں تناؤ اور طاقت کی دوڑ کے تھام تو ختم ہوجائے، پھر ان سب کو جو مصنوعی ذہانت دنیا میں تبدیل ہونے والی پہلی سٹاپ ہوگا وہ ایک اچھے نئے عالمی نظام کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے
اسحاق ڈار کی باتوں سے انٹرنیشنل کمیونٹی کی ایک بار پھر توجہ مل چکی ہے، غزہ میں معاشی اورPolitical بحران کا حل کیسے نہیں کیا جا سکتا؟ اسحاق ڈار نے باہمی تعاون کی بھی زور دیا ہے، یہ تو بالکل چیلنجنگ بات ہے، لیکن یہ بھی تھوڑا سا مشغول ہونے کے بغیر نہیں ہوتا، مگر اس وقت کی صورت حال کا مطالعہ کرنے پر بھی پتا لگتا ہے کہ کوئی ایسا حل آسان نہیں ہو سکتا جس میں تمام دوسرے ملک اور اقوام متحدہ شامل ہوں، ابھی یہ بھی بات ہے کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو کیسے حل دیا جائے؟
اسحاق ڈار نے یہ بات بھی توجہ دیکھی ہے کہ دنیا کا نقشہ بدلا رہی ہے، مصنوعی ذہانت کی اس پریشانی سے نکلنا ضروری ہے، لیکن یہ بھی بات ہے کہ یہ پریشانی کیسے حل ہو سکتی ہے؟
میں توجہ دیتا ہوں کہ ان سارے مسائل کو ایک ساتھ سمجھ کر وہی حل نکل سکتا ہے جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے، چاہے یہ معاشی ہو، سیاسی ہو یا فوجی ہو، ان سب کی اہمیت کو سمجھنا پڑتا ہے۔
اسحاق ڈار کی بات سنی جاتی ہی نہیں، انھوں نے ایسا ہی کہا ہے جو سچ ہے، غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خاتمے کی ضرورت ہے، اس کو ہم سب سمجھتے ہیں، انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ تقسیم اور طاقت کی دوڑ خطے اور دنیا کے لیے خطرناک ہے، مصنوعی ذہانت دنیا کا نقشہ بدل رہی ہے، اور یو این اصولوں کو ترجیح دی جاتی ہے، انھوں نے جموں و کشمیر کا حل تلاش میں ایسا کیا جو چاہتے تھے، اور ہم یہی چاہتے ہیں، لہذا انھوں نے باہمی تعاون کو ضروری قرار دیا ہے، جس سے کامیاب ہونا چاہیے۔
اسحاق ڈار کی بات تو ایک بات ہی ہے، وہ فلسطینی زمینوں پر قبضے کا حل نہیں دلا سکتا، وہ یہی کہتے ہیں جس کا پاکستان یو این اصولوں کی پاس داری کو ترجیح دی جاتی ہے، لہذا انھوں نے اپنی بات کے لیے ایک ریکارڈ تو بنانے کی کوشش کی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار کو انھیں یقیناً کس کس سرگرمیوں سے نمٹنا ہے، وہ یہ کہتے ہیں جیسا کہ وہ غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے فوری خاتمے کی ضرورت ہے، وہ یقیناً اس سے بھی نمٹنا ہے جس کے لیے وہ باہمی تعاون کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
لہذا انھوں نے یہ کہا ہے کہ جموں و کشمیر کا حل تلاش میں انھیں اور انھیں دوسرے خطے کو بھی شامل کرنا ہوگا، لیکن اس سے پہلے انھیں یقیناً کس کس سرگرمیوں سے نمٹنا ہے۔
اسحاق ڈار کی باتوں سے ایک بڑی امید ہے؟ انھوں نے یورپی یونین سے باہمی تعاون پر زور دیا ہے، جو کہ دنیا کو مختلف مسائل سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم غزہ کی صورتحال ایک بھی طرح的问题 ہے، اس پر کسی بھی قسم کا تعاون صرف اس وقت ہوا جائے گا جب فلسطینی لوگوں کو اپنی زمین و حقوق میں واپس واپس کی جائے گے۔
آج کے عالمی چیلنجوڰ سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون ضروری ہیں، لیکن یہ بات بھی ضروری ہے کہ تقسیم اور طاقت کی دوڑ نہا جائے، ایسا ہی کیا جا سکتا ہے جب دنیا کو ایک ایک اچھا پزیر بنایا جائے گا؟ جموں و کشمیر کے حل کی دلیڈار سولیشن کی بات بھی ہوتی ہے، لیکن اس میں تمام ملکوں اور اقوام متحدہ کو شامل ہونا ضروری ہے۔
اسحاق ڈار کے الفاظ سچے نہیں ہیں، وہ اپنے مقاصد کے لیے کہتے رہتے ہیں اور اس وقت نہیں ہوتا جب انھوں نے یورپی یونین سے بात چلوٹی ہو اور کس طرح وہیں کی پالیسیوں پر بات کر رہے ہیں؟ آج تک انھوں نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ انھیں یقیناً ملک کو اور اقوام متحدہ کو اس سے نمٹنے میں مدد کرنا پڑے گی۔
اسحاق ڈار کی بہت ہی قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خاتمے کو ضروری سمجھ رہے ہیں، انھوں نے یورپی یونین سے خطاب میں کہا تھا کہ کچھ عناصر خطے کی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انھوں نے مخالفت کی ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا اور نہیں ہोगا! یہ بات بہت اچھی ہے
انھوں نے یقیناً کہا تھا کہ تقسیم اور طاقت کی دوڑ خطے اور دنیا کے لیے خطرناک ہے، مصنوعی ذہانت دنیا کا نقشہ بدل رہی ہے، پاکستان یو این اصولوں کی پاس داری کو ترجیح دی جاتی ہے!
مگر اتنے میں انھوں نے غزہ میں مظالم اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ خطے کی امن کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں سے نمٹنا ہی بڑا Challenge ہے!
انھوں نے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کا حل تلاش میں انھیں اور انھیں دوسرے خطے کو بھی شामل کرنا ہوگا، انھوں نۤ یہ بھی کہا تھا کہ اس کا حل صرف ایسا ہے جب اس میں سارے ملک اور اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے گا!
مگر انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ خطے کی امن اور استحکام کے لیے بڑا اہم مقام رکھتا ہے، لہذا اس سے نمٹنے میں باہمی تعاون کو ضروری قرار دی جائے گا!
اسحاق ڈار کی یہ بات بہت اچھی ہے کہ وہ باہمی تعاون کو ضروری سمجھ رہے ہیں، انھوں نے جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے سے بھی ملاقات کی اور دونوں نے دفاع، سیاسی، معاشی، تجارت، سرمایہ کاری اور تعلیمی شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے کا اعادہ کیا!
اس حقیقت سے انھیں یہ بات قابل مشاورت ہے کہ کچھ عناصر خطے کی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انھوں نے مخالفت کی ہے!