بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر بھارتی حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے درمیان پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا ایک مقابلہ لگ رہا ہے۔ یہ مقابلہ پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے اور اس میں پاکستان بھی اپنی جانب سے بڑھ رہا ہے۔
بھارتی جنگ میں پاکستان کی شاندار فتح نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر جس بدنامی اور رسوائی سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کی فتح، 7 بھارتی طیارے گرانے اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پیشہ وارانہ فوجی و جنگی مہارت کو خراج تحسین پیش کر رہتے ہیں۔
اس نے مودی حکومت کو مزید خجالت و شرمندگی سے دوچار کر رکھا ہے اور ان کے پاس اپنی ناکامی، شکست اور رسوائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے منطق و دلیل سے بات کرنے کے لیے کوئی بچا ہی نہیں رہ گیا ہے۔ مودی حکومت کے پاس اب دو ہی راستے رہ گئے ہیں، اول وہ ہر مقابلے سے راہ فرار اختیار کریں یا پھر شکست کا ذائقہ چکھنے کے لیے تیار رہیں۔
جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی و بھارتی طلبا کے درمیان ہونے والے مقابلے میں پاکستان کے ذہین اور ہونہار طلبا نے زمینی حقائق اور مضبوط دلائل سے بھارتی طلبا سے مقابلہ جیت کر ثابت کر دیا کہ پاکستان ہر مقابلے میں بھارت کو شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مقابلے میں بھارت کے سیاسی پینل نے ’’ ٹاکرہ‘‘ کرنے راہ فرار اختیار کرکے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ بھारत کی مودی حکومت کے پاس اپنی خفت مٹانے کا دوسرا راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائیں، جھوٹے پروپی گنڈے کریں اور بے سرو پا بیانات دے کر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کریں۔
جیسا کہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ نے اپنے ایک حالیہ اشتعال انگیز بیان میں کہا تھا کہ’’ آج شاید سندھ کی سرزمین انڈیا کا حصہ نہیں، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ انڈیا کا حصہ رہے گا اور جہاں تک زمین کی بات ہے تو سرحدیں بدل بھی سکتی ہیں۔ کیا پتا کل پھر سندھ انڈیا میں واپس آ جائے۔‘‘
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کے اس بیان پر پاکستان میں سیاسی، سفارتی اور عوامی سطح پر سخت ردعمل ظاہر ہو رہا ہے۔ پاکستان کی قومی اور سندھ اسمبلی میں بھارتی وزیر دفاع کے متذکرہ اشتعال انگیز بیان کے خلاف جمعرات کو مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ ’’ صوبہ سندھ پاکستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بھارتی وزیر دفاع کا بیان پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہے۔‘‘
سندھ اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد کے حوالے سے اراکین نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس قرارداد کو دنیا بھر میں بھیجے اور بتایا جائے کہ بھارت سندھو دریا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع کی بے حد اشتہار مند بیان سے بھی ان کے ناکام ہونے اور فوجی شکست کو ختم کرنے کی کیوں کی اجازت نہیں دینی چاہیے؟ یہ بیان ہمیشہ پہلے کیسے سنیے ہیں، جب بھارت کی فوج پاکستان کو شکست دیتی ہو تو ہر مواقع پر انھوں نے سندھ کو انڈیا کا حصہ قرار دیا تھا لیکن اب وہ یہ بیان کر رہیں ہیں؟ یہ بیان بھی ان کی فوجی شکست کا ایک اور مہیا سا مظاہرہ ہے، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ پوری دuniya میں پھیلے ہوئے بھارتی فوجی اداروں سے بھی توڑ پھوڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیڹں؟
یہ تو بھارتی وزیر دفاع نے جس کے لیے سندھ کو انڈیا میں واپس جانے کا دावہ کیا ہے، وہ اس کی بے فیکر سرگرمیوں کا ایک اور عکاسی ہے. وہ کیا جانتے ہیں کہ سندھ کس قدر اچھی طرح جانتا ہے؟ جانتا ہے کہ اس نے اپنے لوگوں کو کتنے بھرپور انداز میں تحریک آزادی کی واپسی کے لیے لڑنا تھوڑا سا بھی آئندہ ہے؟ اور وہ جانتا ہے کہ لوگ اس بات پر کیسے پورا یقین رکھتے ہیں؟ ایسے حالات میں بھارت نے سندھ کو انڈیا میں واپس جانے کی کوشش کرنا تو صرف ایک معاملہ ہی تھا، اور وہ بھی اس کی جیت سے باہر رہ گیا!
اس نے فوری طور پر اپنے دمہ میں گھس کر اپنی پہلی جانب کے رہتے ہوئے۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ بھارت نے انڈیا کو سندھ کی سرزمین میں جگائی دی ہی نہیں، لیکن اگر وہ بھرپور بات کرتا تو کہتا کہ اس پر اپنی جان رکھو اور سندھ انڈیا کا حصہ رہے گا تو وہ کس قدر چاقازور ہو جاتا۔
اس نے ہاں ایسی بات کی ہے جو بھی بھارت نے کہی ہے اس پر وہ اپنے دمے میں دھول پھیلائی ہو کے اس سے باہر نہیں آ سکتا، اس لیے اس کے برعکس کہنا بھی اچھی نہیں ہوگا۔
اس وقت میں بھارتی حکومت اور وزیراعظم مودی نے پاکستان کے خلاف مزید زبردست زوال عام لگایا ہے، لیکن یہ تو دیکھنا انچھے سے کہ اسے کیسے پکڑا جا سکتا ہے؟ پاکستان بھی اپنے جسمانی اور ذہنی وارث کو سامع کرتے رہے، ایسے تو ان کا کبھی تو کبھی بھرپور زور رہتا ہے۔
یہاں تک کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں مقابلے کے بعد بھی مودی حکومت کی ناکامی کا مشاہدہ کرنا ایک دوسرا competitor لگتا ہے، انہوں نے فوری طور پر اس سے اپنی جھوٹی انا کو دور کیا اور اپنے خلاف جھوٹے پروپی گنڈے شروع کر دیئے! ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس کے بجائے وہ اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور ایک ہی راستے سے باہر آجائیں!
بھارتی وزیر دفاع کی زبانیں تو پوری دنیا میں دیکھی جا رہی ہیں لیکن وہی بات یہ کہ بھارت سندھو دریا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ تو بے حد بے ایمان ہے اور بھارتی حکومت کو اچھی طرح اس بات کو سمجھنے کا وقت دیا جائے گا کہ وہ اپنی سرحدوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو سندھ کی سرزمین بھی وہی نہیں رہیگی۔ یہ ایک بد ترین تجاویز کا ایک انشا ہے جو بھارت کو آگے لے جائے گی، لیکن ابھی تک بھارت سے پوچھنا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں پر قبضہ کرنے کی کیا فیکٹRIسی ہوئی ہے؟
اس نئے مقابلے میں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور جہات کی پوری جگہ اٹھا سکیں، ہمیں اپنے اندر شांتि اور تحفظ کے عمل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی فتح نے بھارت کے لیے عالمی سطح پر رسوائی اور بدنامی سے دوچار کر دیا ہے، لیکن ہمارے اندر، ایک نئی لڑکی پیدا ہوئی ہے جو اپنی صلاحیتوں کی طرف اٹھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس نئے مقابلے میڰ، ایک واضح بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے: خوف سے ہماری جگہ پر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہماری جگہ پر ہم رہتے ہیں۔
اس صورتحال کی دیکھتے ہوئے میں تھوڑا سا خوفاناک محسوس کرتا ہوں ، جو کہ بھارتی وزیروں اور وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا مقابلہ لگ رہا ہے۔ اگر یہ مقابلہ دوسری طرف سے تیز گتی سے پھیلتا ہوا تو نکل جائے گا، اور اس میں بھارت کے لیے انتہائی عارضی فائدہ نکلنے کی سंभावनات بڑی ہیں ۔
yaar ab bharat ki modi sarkar ka pakistano ke saath competition toh bahut zyada intense ho gaya hai . ye taaza news sunte hain, to main sochta hoon ki is competition mein pakistano ki taraf se kuch bhi galat nahin hai. bharatiya sarkar ko apni galtiyon aur nakkas par dekhna chahiye, aisi baat ya zaroorat nahin hai.
aur yeh baat to sahi hai ki Pakistan ke taraf se bhi galat baatein nahi ho rahi hain. amrika ka president trump ne modi sarkar ko kai baar apni galtiyon par pakka diya hai.
toh is competition mein agar Pakistan galat baaton se aage badhta hai, to bharat ki sarkar ko apne galtiyon par sochna chahiye.
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کا اس بیان کی وہی طرح کی مہنتمی کی جا رہی ہے جس سے ان کا حقدار نہیں ہے۔ وہ بھارتی عوام کو سوچانے پر مجبور کر رہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمینوں سے اپنے ملک کی سرزمینوں کو چھوڑ دیں۔ یہ بھی ایک خطرناک منظر ہے۔ اور اس پر ان کا جواب اس وقت کے وزیر اعظم پervaیز ماخوں نے دے دیا تھا کہ 'سندھ، پंजाब، بلوچستان اور كراچی بھی پاکستان ہیں'۔
لگتا ہے یہ بھارتی حکومت کے حوالے سے ایک منظر تھی جس کو انہوں نے اپنی ناکامی کو پناہ دینے کے لیے بنایا ہوگا۔ انہوں نے پاکستان کی فتح پر ٹیمپ کو ایک لالچ دھار کرکے کہی تھا کہ یہ بھی سندھ انڈیا کا حصہ ہے اور وہ واپس آ جائے گا... آف! مٹلے ہی ہو گئے.
تمہیں معلوم ہو گا کہ اس مقابلے میں پوری دنیا میں دیکھنے کو Mills اور مرغاب کا بھاگ رہا ہے، جو تمہیں اس حقیقت سے ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان و بھارت کے درمیان ایک دیرپا اور گہرا تعلق رکھتا ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس مقابلے میں ان دونوں ممالک نے اپنی تاریخ، ثقافت اور معاشرتیں بھی شامل کی ہیں۔ یہ دیکھنا بھی جاری ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کتنے بھلے تعلقات رکھتے ہیں، اور اس حقیقت کو سامنے لانا ضروری ہے تاکہ کسی ایسے مقابلے سے باہر ہونے کی کوشش نہ کر کے پورا مقصد حاصل کیا جاسکے۔
بھارتی وزیر دفاع کی بے بناداری کا یہ بیان انڈیا اور پاکستان کے درمیان لگتا ہو جس سے بھارت اپنے ساتھ سندھ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے تو نہیں، اس کی بات اس وقت پر کبھی نہیں پائی جائے گی جب وہ اچھی صورت حال میں ہو۔
یہ بات تو واضح ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پاکستان سے مقابلہ لگ رہی ہے اور اس میں وہ جہاں ممکن ہو رہا ہے اس لیے بھی وہ بھارتی ناکامی اور شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لگتا ہے کہ پاکستان کی شاندار فتح، جس پر بھارت کو رسوائی سے دوچار کر دیا گیا ہے وہ پاکستان کی طاقت اور صلاحیتوں پر ایک نئی مانیٹرنگ پوسٹس کی طرح کھڑی کر رہی ہے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں جیتنا چاہتا ہے تو وہ اپنی جنگی مہارتوں اور طاقتوں کو دکھانا چاہے، اس لیے انہوں نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو بھرپور طرح پیش کی سے پیش کیا ہے جس پر بھارت پر ایک نئی مانیٹرنگ پوسٹس کی طرح کھڑی کر رہا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کی باتیں پاکستان کو اچانک بڑی پریشانی میں ڈالتے ہیں تو وہ ہر تین سال کی طرح بھارتی حکومت کے لیے ایک نئا سیزن شروع کر دیتا ہے... اور پاکستان اپنی بھارت سے لڑنے کے لیے ایک نئی فوج میں ترقی کرتا ہے اور جیسے جیسے دن گزردتے ہیں اچانک وہی تھیٹر پر اپنی ایک نئی فلم شروع کر دیتا ہے... فلم کا نام "بھارت کو شکست دینا"
بھارتی وزیر دفاع نے واضح کیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد لوگ سندھ میں رہتے ہیں، لیکن سندھ کی آبادی صرف ایک لاکھ سے कम ہے؟ ان ساتھ سے بھی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ انڈیا کا حصہ نہیں، مگر یہوں تک کہ جہاں زمین کی بات ہے تو اسے بھی بدل سکتے ہیں? بھارت میں وہ سندھ اور بلوچستان کو کتنا نازک سمجھتے ہیں؟