بڑی شخصیت سے استعفیٰ طلب

شہد کی مکھی

Well-known member
انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ”نہضۃ العلماء“ (این یو) نے اپنے چیئرمین یحییٰ چولیل کو ایک ایسے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان پر مالی بے ضابطیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور انہوں نے اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین یحییٰ چولیل کو ایک ایسے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان پر مالی بے ضابطیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور انہوں نے اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ”نہضۃ العلماء“ (این یو) کی قیادت نے اپنے چیئرمین یحییٰ چولیل کو ایک ایسے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے اور اگر انہوں نے اپنا عہدہ ترک نہیں کیا تو انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔

انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین یحییٰ چولیل کو ایک ایسے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے اور ان کی رہنمائی میں ایک ٹریننگ پروگرام میں پیٹر بَروکووٹز کو شامل کیا گیا تھا جس سے اس معاملے پر تنازع پैदا ہوا۔
 
یہ بات تو عجیب ہے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین کو ایسے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے یقیناً ان کے خلاف کچھ انتہائی گھٹیا ہوا تھا۔ اور مالی بے ضابطیوں پر ان کے الزامات بھی کچھ عجیب ہی نہیں لگتے تو وہ کیسے یہ رہنما بن گئے؟
 
بہت سارے لوگ یہ سوچن گے کہ اور نہیں، یہ سب واضح ہی ہو گیا کہ نہضۃ العلماء میں بھی کوئی انتہائی صاف نہینہ تھا 🤔

مگر ان کی مداخلت اور منسلک ہونے والی سرکاروں کا ایسا سائنسی طاقت کو جوڑنا بھی کچھ ایسا ہی تھا، اور اس میں یہ بات واضح ہے کہ یہ تو ان کی معاملے پر ہی نہیں بلکہ انڈونیشیا کی قومی آمنت کے لیے بھی ایسا جیسا ہی تھا، مگر واضح رہے کہ انڈونیشیا میں ساتھ ساتھ معاشی اور سیاسی مسائل بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں

ہم سب جانتے ہیں کہ غزہ جنگ ایک یہاں تک پہنچ گئی مہم تھی، اور اس پر انڈونیشیا کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت کی نہ ہو سکتی بلکہ واضح رہے کہ وہاں کی صورت حال ایسا تھا جیسا کہ انڈونیشیا میں نہیں ہوتا

مگر اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ کسی نے وہاں سے اچانک کچھ ایسا کیا، اور اس پر انڈونیشیا کی جانب سے ہونا تو ضرور بھلائی تھا
 
یہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم میں کسی شخص کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کرنا صرف معاملے کا حل نہیں ہوتا بلکہ سیاسی اور سماجی ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس معاملے میں ان کے ساتھ ساتھ ان پر مالی بے ضابطیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے، جو politics mein aik big issue ban sakta hai, kya wo sahi method hai?
 
نہضۃ العلماء کی یہ کارروائی غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کرنے سے پہلے ان کے غیر ملکی اہلکاروں کا ہونہار تجدید کیا جاتا ہے، اس بات کو یقین رکھنا ضروری ہے کہ نہضۃ العلماء کے حلفے میں ایسی کارروائیوں کی سہولت سے ان کے درمیان معاشرتی اور سیاسی تناؤ میں کمی کا امکان ہے।

امریکی اسکالر کی وضاحت یا موافقت سے نہضۃ العلماء کی رہنمائی میں تیزی سے لچकپہیٹی دیکھنے کا یہ موقع ہو گیا ہے اور اس کو پورا کرنے کے لیے ان کے حلفے کی نئی پالیسی پر غور و فکر ضروری ہے۔

مگر انڈونیشیا میں مقیم امریکی اسکالر کے خلاف ایسا الزام لگانا، جس سے ان کے تعاملات کو بھی ریکارڈ کرنے والوں کی طرف مخرج ہوتا ہے، اس کی سہولت سے انڈونیشیا میں سیاسی جہالت اور عدم سمجھ کے پھیلتے ہوئے خطرے کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔
 
یہ تو ایک دہشت گرد نہیں، صرف ایک شخص کی زندگی کی سیر اور ان کے عہدے سے تعلقات کی بات کر رہے ہو. پھر بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ وہ اس ٹریننگ پروگرام میں کیسے شامل ہوا اور اس پر ایسا تنازع کیوں تھا? لگتا ہے یہ انڈونیشیا میں سماجی نشاط کو بڑھانے کے لیے ہے، مگر اب وہ نہیں چل رہے.
 
ایسا تو بہت غم آنا چاہیے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین یحییٰ چولیل کو ایک امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے، اور پیٹر بروکووٹز کی مدد سے ان کی رہنمائی میں ایسا معاملہ پیدا ہوا۔ یہ بات یقینی نہیں کہ اس معاملے پر کوئی جائزہ لگایا گیا لیکن اچھے لیے چلیں ان کی مدد سے وہ ایسا معاملہ پیدا کر رہے تھے جو ان کے خلاف اٹھنا موصول ہے
 
یقیناً یہ بات غلط نہیں کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم "نہضۃ العلماء" (این یو) میں بے اعتماد رہنا ہی بہت ضرور ہوگا، اور اس ٹریننگ پروگرام کی منصوبہ بندی میں جو غلطی کے ساتھ کیا گیا ہے وہ ابھی تو عجیب ہے، اس کے بعد یہ بات تو نہیں رہ سکتی کہ ان کی قیادت میں پہلے سے بھی یہی طرح کی غلطیں ہوگیں اور اب اس نے اپنے چیئرمین کو ایک امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے، اور اب انہیں بھی وہی نتیجہ ملتا ہوگا۔
 
انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نہضۃ العلماء کی اس صورتحال کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک خاص بات کہنے لگا کہ ان کے چیئرمین یحییٰ چولیل کو اپنا عہدہ ترک کرنا پڑتا ہے۔

مالی بے ضابطیوں اور اسرائیل کی حمایت پر غزہ جنگ میں ایسا کیسے کھلا رہے گی؟
اس سے ان کی مصلحتیں پتہ چلتے ہیں۔
ان کی رہنمائی میں ایک ٹریننگ پروگرام میں پیٹر بروکووٹز کو شامل کرنے کا یہ فیصلہ کبھی بھی موڑنا نہیں چاہیا تھا۔
یہ تو ایک تصور ہے۔
 
چولیل کا ایک اور سایپڈی چلنا ہی نہیں چلا کے انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کو نہیں دیکھنا پڑتا۔ یہاں تک کہ ان پر مالی بھراو کروٹھوں کی پیٹھ تھی اور اب وہ اس میں ہمت ہار گئے ہیں۔ میں اس کے پچھلے ٹرانسفرشن کو دیکھا کرتا ہوں، اور یہاں تک کہ چولیل جب ہی نے اس سے کیا تو پتہ چلا کے ان میں سے کون سی رکاوٹیں ہیں۔ اب وہ اپنے معاشرے کو دیکھ کر کچھ عارضی استحکام پانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں تک کہ ان کی ہی سے واضع نہیں ہو سکتا کہ وہ اچھے ساتھ چل پائیں گے۔
 
نہضۃ العلماء کی یہ کہانی تو ایک نوجوان کے لئے بہت متحرک ہے۔ اچھا اور غلط دونوں ہیں، جیسا کہ زندگی میں ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انٹرنیشنل لائبریری آف Konrad Adenauer Foundation (KAS) کو اس وقت کیا پھولنا ہے یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہ انڈونیشیا میں ان کی مدد سے غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے لگے اور انڈونیشیا میں فلیٹ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر بھی بن گئے۔

کوئی بھی انڈیز پر نہیں چل سکتا، اس لئے ہمیں ان سچائیوں کو یقینات اور غیر یقینیوں کے ساتھ ہمیشہ موازنہ کرنا ہوتا ہے اور جس نے اچھی گولی چلائی وہ دوسرے کی ہوئی گoli ko پھینکنے کا موقع پاتا ہے۔
 
یہ خبروں نے دیکھنے میں کیہ ہے؟ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین کو اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا اور تو اس گروپ کو پچھلے سال تک ہٹا دیا گیا تھا، لیکن اب وہ نہیں چاہتے۔ یحییٰ چولیل کی جانب سے یہ بات بھی تو صاف نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے اقدامات پر مجرم ہیں، لہٰذا اب ان کی ایسی اگواہی ہو گئی ہے جو اس طرح کی خبروں سے ہر کے جذبے کو تنگ کر دیتی ہے۔
 
یہ بہت غم کی بات ہے انڈونیشیا میں ایسی چیزوں کے بارے میں پھیل رہی ہے جس سے تمام لوگ متاثر ہو گئے ہیں۔ نہضۃ العلماء کی ایسی کارروائیوں سے کوئی بات چیت نہیں کرتا، وہاں یہ سب کچھ کیسے ہوا تو پتہ نہیں لگتا اور اس پر کیا فیصلہ ہوا تو بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں مل رہا، یہی تو وہ سب کچھ ہے جو انڈونیشیا کی سیاسی دنیا سے گزرنے والوں کو دیکھتا ہے۔
 
[圖: ایک سدھی اور بالوں میں گھومتی ہوئی خاتون]
این یو کا چیئرمین یحییٰ چولیل ایسا امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جس نے غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی ہو۔ یہ بات بھی کہلی ہوئی ہے کہ ان پر مالی بے ضابطیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور وہ اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

[圖: ایک ٹریننگ پروگرام میں پیٹر بروکووٹز]
پتہ چلتا ہے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے اپنے چیئرمین کو ایسا امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اگر وہ اپنا عہدہ ترک نہیں کرتے تو انہیں جاری رکھنے سے ہٹا دیا جائے گا۔

[圖: ایک بے سچائی کی لہر]
یہ معاملہ نہ صرف انڈونیشیا میں بلکل اور اسکالر کے تعلقات کو دیکھتے ہیں تو، یہ معاملہ دنیا بھر میں ایک نئا درجہ حاصل کر رہا ہے اور اس پر صاف سے واضح رہنا ہوگا کہ انڈونیشیا کی اسلامی تنظیموں کو یہ کیسے دیکھنے پڑتے ہیں کہ اس معاملے میں لینے والے فیصلے سے کس طرح صحت مند رہیں۔
 
اس وقت واضح ہو رہا ہے کہ انڈونیشیا میں اسلامی تنظیموں کا مقصد صرف مذہبی کارروائیوں تک محدود نہیں رہتا۔ یہ اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اپنے چیئرمین کی استحکام کے لیے امریکی اسکالرز کی مدد لیتے ہیں جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ اب یہ سوچنا مشکل نہیں ہے کہ ان تنظیموں میں امریکی اور ایسی دیگر عالمی طاقتوں کی منسلکیت موجود ہے جس سے ان کا مقصد دوسرے ملکوں میں مقبولیت حاصل کرنا ہوتا ہے، اور یہ انھوں نے اپنے چیئرمین کو استعفیٰ دینے سے پہلے ہی ایسے ٹریننگ پروگرام کے ذریعے اس معاملے کو مزید تیز کر دیا ہو گا، جس سے ان کی دائمی قوت کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے۔
 
یہ غلطی ہے کیوں کہ ان کے باوجود انہوں نے یہ ٹریننگ پروگرام شروع کرنے میں یقین رکھا تھا۔ اور اب وہ اس پر استعفیٰ طلب کر رہے ہیں؟ اس سے ناکام ہونے کا Means ہوتا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کوئی بھی غلطی ہو گی۔ اور اس معاملے پر ان کی ایک بار پھر ریدعمل دیکھنا ہے؟
 
ایسا لگتا ہے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کو وہ ایسا امریکی اسکالر مدعو کرنا ہوتا جس نے اسرائیل کی حمایت کی ہو۔ اب وہ اس معاملے پر استعفیٰ طلب کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر مالی بے ضالت کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ یہ معاملہ واضح طور پر غیر سیکھا جاسکتی ہے
 
اس بات کا خیال ہے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نہضۃ العلماء کو ایک ایسے معاملے میں باہم مل کر کام کرنا چاہیے جیسا وہ کرتا ہے ، ٹریننگ پروگرام جیسا اس نے آئے تھا یہ معاملہ ایسا محرک ثابت ہوگا کیونکہ انڈونیشیا میں بھی ایسی صورت حال موجود ہے جہاں لوگ اپنے سیاسی و معاشی مسائل کے لیے مختلف سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں ، اور ان کے نتیجے میں یہ معاملہ دیکھنا مشکل ہے، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر انڈونیشیا کی تمام اسلامی تنظیموں نے ایسا ہی کیا تو وہ اپنے معاملات کو بھرپور طریقے سے حل کر سکتا ہے اور مختلف سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کو بھی آگے لے سکتے ہیں
 
اس میں سے ایک بات تو یہ ہے کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نہضۃ العلماء کی رہنمائی میں کیا کھیل رہا ہے؟ انہوں نے ایک امریکی اسکالر کو مدعو کرنے پر یحییٰ چولیل سے استعفیٰ طلب کیا ہے جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے، تو یہ کہتے ہوئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنے معاشرے کے لیے کیا ہو رہا ہے؟

لیکن یہ بات بھی تو یہ ہے کہ یحییٰ چولیل کے ساتھ ساتھ ان پر مالی بے ضابطیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے، اور وہ اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے، یہ تو بہت گھنٹا کی بات ہے کہ ایک شخص اپنی غلطیاں سے جوڑ کر وہی معاشرے کو محسوس کرتا ہے یا نہیں؟

اس کے علاوہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کے ساتھ ایک ٹریننگ پروگرام میں پیٹر بَروکووٹز کو شامل کرنا تو اچھا نہیں ہوا، یہ معاملے کا ایک نئی پہل ہے، اس سے یہ بات بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے لیے کیا ہو ر۹ا ہے؟
 
چولویل کی جانب سے یہ بات صریح نہیں ہو سکتی کہ وہ غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، پھر بھی ان پر مالی بے ضابطیوں کا الزام لگایا جا رہا ہے، یہ معاملہ تو انکی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور اب وہ اپنے چیئرمین ہی کی وجہ سے استعفیٰ طلب کر رہے ہیں، یہ انکی جانب سے ایک بڑا نقصان ہوگا اور اب انکی عہدت کا معاملہ آئے گا
 
واپس
Top