وزیراعظم بلغاریہ روزن ژیلیازکوف نے آج اس وقت میں اپنے سیاسی اور حقیقی عہدوں سے استعفی دیا ہے جب تک کہ وہ معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے الزامات کے خلاف مسلسل احتجاج اور عدم اعتماد کی تحریک سے نمٹتا رہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ حالات اور عوامی ردِ عمل کے پیش نظر حکومت کو مستعفی ہونے کے سوا کوئی راستہ بچا نہیں رہا تھا۔
یہ استعفیٰ ان مظاہروں کے بعد آیا جس میں حکومت مخالفت کرنے والوں نے 2026ء کے بجٹ کی تجاویز کی پیش کش کو ایک خطرہ سمجھا تھا۔ اس تجویز میں ٹیکس اور سوشل سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا تھا جو عوام پر بوجھ لگاتا ہے۔
عوامی احتجاج میں ان کے خلاف دائرہ عام بھی تھا۔ پورے ملک میں ایسی تحریک شروع ہوئی جس کی وجہ سے حکومت کو معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹنے کے لیے کافی زور دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی حقیقت میں ان کی عدم اعتماد کی تحریک کو جھیلنا چاہیے۔
اب یہ سڑکوں پر ہزاروں افراد کے مظاہرے اور احتجاجات تھے۔ اس سے پہلے ان کے خلاف حکومت مخالفت کرنے والے نے ان کے خلاف ہزاروں افراد نکل کر مظاہرہ کیے تھے اور ان کا ایک ساتھ اسٹینڈ کرنا شروع کیا تھا۔
اب وہ معاشی پالیسی اور کرپشن کے الزامات پر بھی ان کے خلاف ہزاروں افراد نکل کر مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے استعفیٰ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
جس سے پہلے بلغاریہ کے معاشی معاملات پر سرسخت احتجاج کی تھی اور وہ کافی زور دیا گیا تھا جو اس ملک کو خطرناک مقام پر لے گیا ہے۔
بڑے بڑے اداروں میں رکن ہونے کے باوجود کبھی کسی کے استعفیٰ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے معاملات کو دوسروں کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہ انتہائی خطرنا ہے کہ وہ پوری صورتحال کو جانتے ہوئے بھی معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹنے کے لیے نہیں آتے۔ اب ان کی گئی ہوئی جگہ پر یہاں اور بھی مظاہرے ہوتے رہنے دے گا۔
یہ تو واضح ہوتا ہے بلغاریہ کی حکومت نے جس فائدہ سے استعفیٰ دیا تھا وہ اچھا نہیں تھا۔ انہوں نے خود معاشی پالیسیاں بنائیں اور کرپشن کے الزامات پر مظاہرے کیے جبکہ عوام نے انہیں خود حکومت مخالفت کرنے والوں کو بھگتی دیکھا تھا۔ اب وہ سڑکوں پر لاکھوں لوگوں کے مظاہرے اور احتجاجات ہیں اور وہ اس بات کو بھی سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی حکومت کو ہٹانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
بڑا بہادر اور ناقد نہیں ہوتا کہ جیسے وہ معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹنے کے لیے قائم شدہ تحریک نے انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ وہ ابھی بھی اس تحریک سے نمٹنا چاہتے ہیں۔
بلغاریہ میں وزیر اعظم نے استعفیٰ دے کر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ بھی لوگوں کی تلاشی کرنے لگتے ہیں جو ان کی معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹ رہے تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ مظاہروں نے اس سے پہلے انہیں خود اپنی طرف کیا تھا۔ اب وہ لوگ جو ان کی معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹتے رہے ہیں وہ اس کے بعد کبھی بھی استعفیٰ نہیں دیتے گا۔
یہو! بلغاریہ کی صورتحال میں نہیں اچھائی دیکھی، لاکھوں لوگ مظاہرے کرتے ہوئے پتہ چلایا ہے کہ ان کی معاشی پالیسیاں یہاں تک ہمیں ناکام کر رہی ہیں۔ اور وہ بھی، جس نے آج وزیر اعظم کو استعفیٰ دیا، اس کا نہیں تو فائدہ، بلکہ مزید خطرے کی سزا مل گئی ہوگی۔ لوگ انہیں اچھے نہ سمجھتے ہیں اور وہ اپنے استعفیٰ کے بعد بھی واضح کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت مخالفت کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بڑا شگفار ہے کہ جب تک یہ مظاہروں اور احتجاجات جاری تھے تاہم اس وقت میں وہ حکومت کو استعفیٰ دینے والا تھا۔ پہلے بھی مظاہرے ہوئے تھے لیکن اب یہ ایسی صورتحال پیش آئی جس سے یہ کچھ نہ کچھ ہٹ گئے تھے۔ مظاہرات میں لگ بھگ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی اور وہ سب اس بات کو دیکھنے کے لیے انھیں استعفیٰ دینا چاہتے تھے۔
اس کے بعد یہ کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ معاشی پالیسی اور کرپشن کے الزامات سے نمٹنے کو ملک کو ایسا دیکھنا پڑے گا۔
اس استعفیٰ سے اب بھی یہ نہیں سمجھایا جا سکتا کہ انہوں نے کیا اور کس طرح آئندہ دور کے لیے کوئی فائدہ ہوا، چاہے وہ معاشی پالیسیوں یا کرپشن سے نمٹنا تھا۔ یہ صرف مظاہرے اور احتجاجات کی دوسری جسمنہ ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ عوام کے خوف و ارادے کو کوئی بھی سیاسی اور معاشی پالیسی نہیں جھیل سکتی۔
بلغاریہ میں وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دے کر یہی بات سامنے آئی تھی کہ ملک کی معاشی پالیسیوں پر عوام نے واضح رائے دی ہیں، اور اس سے مظاہرے اور احتجاجات ہوئے جو بھی لوگوں کو خوش نہیں کرنے دیتے۔ وہ جس طرح معاشی پالیسیوں پر سر سٹ انڈ بھی کرتے رہے تاکہ لوگ ان سے متاثر ہوئیں، اب وہ اس کی شکار ہو کر اپنی حکومت مخالفت کر رہے ہیں اور اس میں کچھ نتیجہ بھی نکلا ہے۔
اس سے پہلے بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے حکومت کی Criticism کی تھی، لیکن اب جب ان کی ایسی تحریک ہوئی تو کچھ دیر بعد استعفیٰ دیا گیا ہے۔ یہ صرف ایک بات ہے کہ اگلی بار کیا ہوتا ہے؟
اس سے پہلے بھی کچھ لوگ ٹیکس اور سوشل سیکیورٹی میں اضافے پر Protest کیں، اور اب وہی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اس کے لیے اس وقت تک پہلے سے بھی کافی دیر لگ رہی ہے کہ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے خلاف کیا کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
اس کا معقود یہ ہوتا ہے کہ جب تک مظاہرے اور احتجاجات جاری رہیں گے تو حکومت کو کچھ فائدہ نہیں ہوا ہوگا۔
بلغاریہ کا وزیراعظم استعفیٰ دینے والا یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کی معاشی پالیسیوں اور کرپشن سے نمٹنے والی تحریک نے انہیں اس مقام تک لے گیا تھا کہ وہ اپنی حقیقت میں ہی اس تحرک کو جھیلنا چاہتے تھے۔ اب یہ معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے الزامات پر بھی ان کے خلاف مظاہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے استعفیٰ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب حکومت کے لیے ایک نئا راستہ تلاش کرنا ہو گا جو اس ملک کے معاشی معاملات پر سرسخت احتجاج سے خالی نہیں ہوگا۔
یے تو یہ ایک بات ہی نہیں بلکہ ایک واقعات کی پابندی کیسے ہوتی ہے؟ ان معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے الزامات پر مظاہرے تو بھی نہیں دیئے گئے تھے کچھ لوگ دھونے سے پہلے سونے والے جیسا ہوا کر رہے تھے۔
نوٹس : یہ بات یقین نہیں کہ ان معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے الزامات کو اس طرح سے جھیلنا چاہئیں تھے، یہ سارے معاملات کو ہوا دی گئی تھی اور وہ بھی صرف ایک استحکام کی ضرورت کے لیے تھے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ ان مظاہروں نے انہیں ایسے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا جو سچائی سے پورا نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی اس حکومت کی criticism اور عدم اعتماد کی تحریک کو جھیلنے میں ناکام رہے تھے، اب اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنی حقیقت کو پکڑنا چاہیے اور حکومت کو ایسا لگایا تھا کہ وہ ان کی criticism پر انحصار کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے نہ صرف معاشی پالیسیوں پر مظاہرے ہوئے بلکہ وہ حکومت مخالفت کرنے والے لوگوں کا ایک ساتھ اسٹینڈ کرنا شروع کر دیا تھا، اب یہ کہ ان کے خلاف ہزاروں افراد نکل کر مظاہرے کر رہے ہیں تو ایسا سچائی کی جگہ لگتا ہے۔ یہ حکومت کو ایک معیار پر لے گئی ہے جو اسے اپنی پوری طاقت کھو کر دیکھنا پڑے گا۔
بلغاریہ کی سٹیڈیم کے سامنے ایسے مظاہرے ہوئے جیسے دھول نہیں بھگتی تھی۔ یہ مظاہرے تو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگ اتنا پریشان ہیں اور اتنا زور دیا جارہا ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا مشکل ہے کہ ان کی کوئی مقصد نہیں تھا؟ وہ لوگ کتنی پیڑھی پریشان ہو کر اس پالیسی پر احتجاج کرتے ہیں جو بھلے جیسے، اور یہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگ سچائی کی طرف مائل ہوں؟ اور یہ سوال ہی جاری ہے کہ ان کے استعفیٰ کے پیچھے کیا چل رہا تھا؟
اس رونق میں خفا ہوا بولیوں کی ایک نئی رانٹر بن گیا ہوں ، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اس سے قبل بلغاریہ کو اس معاشی تجویز سے safest رہنے والا ملک سمجھا جاتا تھا جس میں عوام کی تکلیف کیا گیا تھا۔ لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ ان معاشی پالیسیوں سے بھگتے ہوئے لوگ اب اس شخص کو بھی جھیل رہے ہیں جو اس تحریک کی توجہ متعین کرنے والا تھا۔
اس کے علاوہ یہ بھی بات واضح ہے کہ جس سے پہلے بلغاریہ کو اس معاشی تجویز سے safest رہنے والا ملک سمجھا جاتا تھا وہ اب اس شخص پر لگتا ہے جو اس تحریک کی توجہ متعین کرنے والا تھا۔
مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو ان معاشی پالیسیوں کو تو بھول دیا جاتا اور اس سے بدل دیا جاتا۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جو لوگ ان معاشی پالیسیوں سے لچک کھنٹے تھے وہ اب اس شخص کو بھی دیکھتے ہیں جس نے ان پالیسیوں کی مخالفت کی اور اب ان کی طرف مگر جاتے ہیں۔
اس مظاہرے میں پورے ملک میں دھچکا تھا اور اس کے بعد بھی لوگ اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سوچنا ایسا تو چیلنجنگ ہے کہ معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے اس گروہ کی کوئی چلائی گئی رائے نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ابھی بھی اس پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ سب سے بہترین Example ہے کہ معاشی پالیسیوں پر احتجاج اور عدم اعتماد کی تحریک نہ صرف ایک دھچکا ہے بلکہ اس کا بھی Effect ہوتا ہے جو ملک کو خطرناک مقام پر لے جاتا ہے۔
اس پلیٹ فارم پر کسی کی ایسی بات نہیں ہونی چاہئیں جو اس طرح سے لوگوں کا دھچکا پھوک دیتی ہیں اور انہیں ایسے موڑ مڑ کر لاتے ہیں جیسا یہ مظاہرہ ہوا ہے۔ اس لیے یہ بھی ہم کی بات ہے کہ اس پر اپنی رائے کس طرح پریšیت کرنا چاہئیں، اور ایسے نہیں کہ وہ لوگ جو یہ مظاہرہ دھوا رہے ہیں اس پر اپنی رائے کے ساتھ نہیں آئیں بلکہ ان کی بات کو توجہ دیں اور جانتے ہوئے اس کا احاطہ کریں۔
یہ واضح طور پر دکھای رہا ہے کہ بلغاریہ کی حکومت میں ایسی صورتحال پڑ گئی ہے جس سے ملک کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے معاشی پالیسیوں اور کرپشن کے الزامات سے نمٹتے رہنے کے لیے استعفیٰ دیا تھا، لیکن اب یہ کہا جائے گا کہ اس کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مظاہروں اور احتجاجات کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ کسی بھی قید سے مفت نہیں رہتے، بلکہ اگر وہ اپنی حقیقت میں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو لوگ ان پر مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور حکومت کو تنگ آجاتا ہے۔