بلوچستان بھر میں 3 ہزار والدین کا بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار — 26 لاکھ 60 ہزار بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف - Daily Qudrat

کھلاڑی

Active member
بلوچستان بھر میں ایک ہفتے کی مدت کے لیے انسداد پولیو مہم جاری رہی اور اس دوران تین ہزار والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین پلانے سے انکار کر دیا۔

اس مہم کے دوران 26 لاکھ 60 ہزار بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جو بلوچستان کی صحت کے لیے ایک اہم کامیابی ہونا چاہیے۔ اس مہم نے اس وقت شروع کیا جب پولیو کے واقعات بلوچستان میں ابھرنے لگے۔

جبکہ ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے مطابق یہ مہم 13 اکتوبر سے 19 اکتوبر تک جاری رہی، اس دوران محکمہ صحت کی ٹیمیں گھر گھر جا کر آگاہی فراہم کر رہی تاکہ لوگوں کو پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکسین پلانے کی اہمیت سمجھائی جا سکے۔

لیکن ان مہم کے دوران تین ہزار والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین پلانے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بعض علاقوں میں والدین کو پولیو کے واقعات کے بعد ویکسن پلانے کی ترغیب نہیں ملی۔

لیکن ای او سی کے مطابق مہم کے دوران مختلف ٹیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہ پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین پلانے کی اہمیت سمجھائی جا سکے۔

ای او سی حکام نے اس مہم کو پولیو خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے منظم کیا ہے۔ انہوں نے اس کے بعد کے سٹیجز کی تکمیل کے لیے پالیسی کو تیار کیا ہے۔
 
یہ بات ایک بھی نہیں ہو سکتی کہ صحت اور وطن کا حقدار ماہرین کو کبھی تکلیف نہیں پہنچائی بلوچستان میں پولیو کی مہم میں تین ہزار والدین نے اپنے بچوں کو ویکسن سے محفوظ بنانے کا یہ اعزاز حاصل کیا ہے! یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ لوگ ایسے اہم کام میں حصہ لینے سے انکار کر دیں؟ ایسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک بلوچستان میں ویکسن کی پوری ترغیب نہیں تھی اور یہ سب کچھ ابھر کر سامنے آئا ہے!
 
بے شک یہ ایک بڑا کامیاب مہم تھی، لاکین اس پر زور دیتے ہوئے میری غلطی نہ ہو گئی کہ کچھ والدین نے اپنے بچوں کو ویکسین سے محفوظ بنانے کا انتخاب نہ کیا؟ پالیو خاتمے کی اور یہ مہم 26 لاکھ 60 ہزار بچوں کو اس سے محفوظ بنانے میں کامیاب رہی، لیکن کئی سو والدین کا انکار اس کی پوری کامیابی کو روکنے میں مدد نہیں کر سکتا۔
 
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پولیو خاتمے کی مہم کے بارے میں لوگوں کا جذبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں جہاں یہ مہم اچھی طرح منظم کی گئی ہے۔

لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ ایسی Condition کی پہلے نہیں ہوئی تھی جب والدین اپنی بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کر دیں ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری مہم کی طرف سے وہ اچھی طرح آگاہی فراہم کر رہی تھیں، لیکن ابھی بھی بعض لوگوں کو یہ سمجھنے میں Difficulty ہو گئی ہے۔

سورے یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پولیو خاتمے کی مہم پر یہاں تک کہ ایم ایس ایف کے سٹیجز کی تکمیل کے لیے پالیسی بنانے کا عمل جاری ہے، لیکن پورے ممالک میں یہ رہنما کام اچھی طرح پورا کرنا پورے پاکستان کے لئے مشکل ہو سکتا ہے۔
 
بھارت کا ای ایس اے ویب سائٹ پر بھی یہی مشق کی جا رہی ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ ابھی اس نے بلوچستان میں پولیو سے محفوظ بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور ابھی ای ایس اے ویب کا ایک بچہ نے انکار کر دیا ہے۔ یہ تو ای اسٹریٹجیز سے بھی واضع ہے۔ پھر ای ایس اے ویب کی ٹیموں کو بھی یہی بات بتائی جاتی ہے کہ ابھی انکار کر دیا گیا ہے۔ اور ابھی وہ لوگ آگاہی فراہم کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین پلانے کی اہمیت سمجھائی جا سکے۔ یہ بھی تو ای اسٹریٹجیز ہی ہے۔ اور ابھی ان میں سے کچھ لوگ وکالت کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین پلانے سے انکار نہ کریں۔ یہ تو ای اسٹریٹجیز کی فائلوں میں ہی شامل ہیں۔ 😐
 
یہ ویکسین پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی صورتحال کی بات دھیان سے سمجھنی چاہئیے। ایک طرف یہ کہ پولیو خاتمے ایک بڑا کام ہے اور اس میں انکار کرنا گalti ہے، دوسری طرف وہ لوگ جو نہیں چاہتے کہ اپنے بچوں کو ویکسین پلانے کی صورتحال میں گھبرائیں اور پہلے سے ہی ٹرائسٹک تھے، یا تو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کسی نئی پلیٹ فارم پر چلے گاں جس پر وہ یقین رکھتے ہیں یا وہ اپنی ذاتی ضروریات اور priorities کو اپنا لگا رہے ہوں گے۔ اس میں ایک اور بات بھی ہے کہ پولیو خاتمے کی مہم جس سے اس لیے حیران ہوا کہ بلوچستان کا پورے ملک میں ویکسین پلانے کی ٹھین نہیں تھی، اسی لیے لوگ نہیں چاہتے کہ ان سے لڑائی جائے!
 
اس مہم کا یہ فیصلہ اچھا ہوگا جو بچوں کی صحت کے لئے بلوچستان میں ایک اہم کامیابی ثابت ہونا چاہیے۔ اس مہم نے پولیو کے واقعات بلوچستان میں شروع ہونے کے بعد شروع کر دیا تھا اور اب تک ان محکمہ صحت کی ٹیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہی ہیں، لेकن یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ لوگ ویکسین پلانے سے انکار کرتے ہیں۔
 
اس مہم کا ایک اور جانکھا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کی ذہنوں میں اثر پڑے گا۔ یہ بھی بھارپور بات ہے کہ کیا اسے کچھ ایسے لوگ اپنے بچوں کو ویکسین لانے سے انکار کر دیتے ہیں جو پولیو کے واقعات کو اور یہاں تک نہیں پہنچتے۔ اس مہم کی فائدے اور ناکامی کی ایک بھرپور ڈسکوسسٹری کو دیکھنا ہوگا۔
 
ابھی تک پولیو کا معاملہ بہت غم کا رہا ہے، اب تین ہزار والدین نے اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کر دیا تو یہ اچھا واضح نہیں ہے کہ اب کیا ہوگا؟ اس مہم کے بعد بھی پولیو کے واقعات ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟ یہ ایک جملہ اور بھی طاقت کے ساتھ ہے جو انسان کو پریشانی میں پڑاکر رکھتا ہے۔

اس مہم نے کبھی کسی کی اچھाई کو لازمی بنایا تو اب ایسا نہیں ہوگا۔ اس سے پتہ چلے گا کہ انسان کون سی چیزوں میں معذور ہے اور ان کی کیا صلاحیت ہے۔ مہم کے بعد بھی humans کو اپنے بچوں کے ساتھ واضح رہنا چاہیے۔

اسے دیکھتے ہیں تو یہ سب وہی معذور لوگ ہیں جس کی میڈیا نے بتایا تھا کہ ان کو پولیو کے واقعات کے بعد ویکسن پلانے کی ترغیب نہیں ملی۔
 
واپس
Top