امریکا میں ایک نوجوان کے مرنے سے پہلے بھی گریوز کی نایاب بیماری کا کیس سامنے آیا تھا، جس کے بعد صحت محکمہ دوڑیں لگا دیں ۔
عوام میں یہ بات ابھی بھی نئی اور منفرد پہچاننی جاتی ہے کہ انسان کی موت ہوا پہلی بار کیسے سامنے آئی، اس سے قبل ایسی بیماریوں میں بھی نوجوانوں اور چھوٹے لڑکیوں کو آگ کر دیا جاتا تھا۔
امریکا کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایسے حالات میں بھی یہ بات ابھی تک نئی اور منفرد پہچاننی جاتی ہے کہ انسان کی موت کی واضحCause سامنے آئی، جن سے اس صورتحال سے نمٹا جا سکتا ہے۔
اس نوجوان شہری کے مرنے کے بعد سائنس دانوں نے بتایا کہ وہ ایک گریز ہاربر کاؤنٹی میں رہائش پذیر تھا، جو پہلے ہی کئی طرح کی پیچیدہ صحت مشکلات کا شکار تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس شہری کا مدافعتی نظام کمزور تھا، جس کے نتیجے میں وائرس نے ایک سنگین صورت اختیار کی جو پہلے سے موجود بہت سی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی۔
اس شہری کا رابطہ براہِ راست گھریلو پرندوں سے تھا، اس لیے اسے اس نئی بیماری سے لڑنا میں بھی مشکل ہوا تھی۔
حکومت کے مطابق وائرس کی منتقلی کا ذریعہ یہ ہوسکتا ہے کہ متاثرہ گھریلو پرندوں میں سے کسی نے اس کو اپنے آخرت کی طرف منتقل کر دیا ہو، جس کے بعد وہ جنگلی پرندے بھی آئے۔
اب یہ بات متشکیک ہے کہ اس نوجوان شہری کے قریبی افراد میں سے کسی کی برڈ فلو کی علامات یا منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا۔
سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) کے مطابق سائنسی تحقیق جاری ہے، جس میں وائرس کے جینیاتی تجزیے کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔
اس نوجوان شہری کے مرنے کی خبر سن کر تو میں اس بات کو سوچا تھا کہ یہ ایک نئی بیماری اور یہ بھی ایک نئی موت ہوئی، لیکن جب سائنس دانوں نے بتایا کہ وہ گریز ہاربر کاؤنٹی میں رہائش پذیر تھا اور اس کی مدافعتی نظام کمزور تھی تو پتہ چلا کہ یہ وائرس نہیں ہی نئی موت ہوئی بلکہ ایسی موت ہوئی جو ابھی تک سامنے نہیں آئی تھی۔
اس بات کی بھی انہوں نے بتائی کہ یہ شہری اپنی گھریلو پرندوں سے رابطہ برقرار رکھتا تھا جو اس وقت تک ہوا اور اس کو ایسے لے جانے کی پھر بھی نہیں آئی کہ وہ اسے اپنی جگہ پر منتقل کر دیا جائے اور وائراس نے اسے اپنے جسم میں منتقل کیا۔
اب یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ شہری اس صورتحال سے نمٹا جا سکتا تھا اگر اس پرندے کا رابطہ نہیں رکھتا اور اس پرندے کو وائراس سے بچایا جاتا ۔
مرنے والا یوں ہی کہلا تھا، اور پھر ایک نئی بیماری سامنے آ گئی، اس طرح تو سائنس دانوں کو نہیں پٹا تھا کہ پہلے سے ایسا کیا جاسکتا ہے؟ ان کی طرف سے ایسی بات کہنے والے ہاتھوں میں آئیڈز یا ہیپٹیٹیس نہیں ہوتا، تو کیا یہ شہری سافلائی مین کی طرح تھا؟
بہت دیر ہوا ایسا حالات میں آ گیا ہے جہاں انسان کی موت نے پہلی بار ایک نوجوان کو متاثر کیا ہو، اور اب سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ وہ اس نئی بیماری سے لڑنے میں کیسے پٹہ دھو رہا تھا۔
میں ہرگز نہیں کہتا کہ ان کا صحت کی صورت یقینی طور پر اس بیماری سے متعلق ہو گی، لیکن یہ بات تو باقی رہ جاتی ہے کہ انسان کی موت کے بعد بھی کیا کئے جانا چاہئے اور یہ کہ کس طرح صحت محکمہ دوڑیں لگا دیں ۔
کیا انہوں نے سیکرٹ کی کوئی فون کال کروائی تھی جس سے صحت محکمہ کے ریکارڈ میں یہ بات دلی کر سکتی ہے کہ وہ اس نئی بیماری سے لڑنا کی کوشش کر رہا تھا یا نہیں۔
اس نوجوان کی مorte کی گریوز کی نایاب بیماری سے سب کو حیران کر دیا ہوا، پھر بھی یہ بات اپنی آہنی سے لگی ہوئی ہے کہ ایسے حالات میں لٹنے کی چیلنج کیسے نکلتی ہے؟
انسانی عقل اور پہچان کی صلاحیت سے ہی اس صورتحال کو پہچانا جا سکتا ہے، لیکن ان لوگوں کی فیکٹری پر لگن کر ایسے حالات میں بھی واقف رہنا ضروری ہے جہاں ہر بات نئی اور منفرد پہچانی جاتی ہے
اس شہری کی مorte سے لیے آخری کوٹ کے بعد بھی اس کی مدافعت، وائرس کا منتقلی اور انفرادی اور گھریلو پرندوں کے تعلقات سے تعلق رکھنے والی تمام باتوں کو سمجھنا ہوتا ہے
ابھی یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ انسان کی موت کی واضح Cause سامنے آئی، لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آخرت کی طرف سے بھی پہچان وہیں جہاں ایسے حالات میں لٹنے کی چیلنجوں کو پہچانتے ہیں
اس نئی بیماری کو دیکھتے ہوئے لوگ اس پر سوچتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کیا نہیں تھا؟ ان نوجوانوں کی موت ایک ایسا بات چیت نہیں ہوئی جس سے اس پر توجہ ملے، حالانکہ ان کے قریبی لوگوں کو بھی یہ واضح نہیں تھا کہ وہ اس کی جان کھونے والے سے لڑ رہے تھے۔
اس کے بعد ہونے والی صحت محکمہ کی دوڑوں میں یہ بات بھی پڑتی ہے کہ وائرس کو کیسے منتقل کیا جاتا ہے؟ اب سائنس دانوں کا کام ہے کہ ان سب Questions جواب دیں، اس لیے بھی یہ بات متشکیک نہیں کہ یہ نئی بیماری ایسی ہوگی جس کے بارے میں ہم ہمیشہ سوچتے تھے۔
کیا یہ بھی پتہ چلے گا کہ اس نوجوان کی موت کے بعد اس نئی بیماری کی پیدائش کیسے ہوئی؟ اور اس سے لڑنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
اس نئی بیماری کو پہچاننا ایسی چیز ہے جو آپ کو دیکھ کر ہنساتا ہے، یہ کیسے لگتا ہے کہ انسان کی جان بھی گم جاتی ہے! یہ بات ایک بار پھر کھل کر دیکھنی چاہئیے کہ انسان کی موت کی واضح causes کیسے سامنے آتی ہے، اور اس سے نمٹنے کے لئے کیا کھیلنا پڑتا ہے?
اس نئی بیماری کا جو حال ہی میں سامنے آیا ہے، اس سے پہلے بھی اسی طرح کے معاملات آ رہے تھے مگر یہ بات نہیں ابھرتی تھی کہ موت کی نئی بیماری کیسے سامنے آئی ۔ میں اس بات پر اور کچھ زور دیتا ہوں کہ شہری سافٹ وائرز کی منتقلی کو یہی کہہ سکتے ہیں نہیں، ایسا لگتا ہے کہ گھریلو پرندوں میں سے کسی نے وائرس کو اپنے آخرت کی طرف منتقل کر دیا ۔
مریمت کی ایسے صورتحال نہیں دیکھا گیا تھا، اس لیے ہمیں آشک نہیں ہوگا کہ یہ بیماری بھی ابھی سے موجود تھی اور ہم نے ایسی صورتحال کو دیکھنا۔ لگتا ہے آپ کی جانب سے ایسے واقعات کے بارے میں دلچسپی ہے۔
ہمیں ان لوگوں پر فخر کرنا چاہیے جو نئے تجزیات اور انفرادی تحقیقات میں حصہ لینے کے لیے اپنے وقت اور پوری تیزگiri دیتے ہیں تاکہ ہم تمام سماجی مریمت کی صورتحال کو حل کر سکیں۔
یہ ایک نئی اور خطرناک بات ہے جو امریکا میں سامنے آئی ہے، انسان کی موت سے پہلے بھی وائرس کی بیماریوں کا شکار ہونے والے نوجوانوں اور چھوٹے لڑکیوں کو آگ کر دیا جاتا تھا، لیکن اب یہ بات ابھی نئی اور منفرد پہچاننی جاتی ہے کہ انسان کی موت کی واضح cause سامنے آئی ہے
اس شہری کا مدافعتی نظام کمزور تھا، جس کے نتیجے میں وائرس نے ایک سنگین صورت اختیار کی جو پہلے سے موجود بہت سی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی، اور اب اس شہری کے قریبی افراد میں سے کسی کی برڈ فلو کی علامات یا منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا
اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ اس شہری کی موت سے پہلے اسے گھریلو پرندوں کا رابطہ تھا، اور اب یہ بات متشکیک ہے کہ وائرس کی منتقلی کا ذریعہ یہ ہوسکتا ہے کہ متاثرہ گھریلو پرندوں میں سے کسی نے اس کو اپنے آخرت کی طرف منتقل کر دیا ہو، جس کے بعد وہ جنگلی پرندے بھی آئے
یہ نوجوان شہری کی موت ایک گریوز کی بیماری سے ہوئی، جو اب تک ہم جانتے تھے کہ اس میں وائرس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا؟ لیکن اب یہ بات سچ پوچی ہو گئی ہے کہ انسان کی موت ایک گریوز کی بیماری سے بھی ہوسکتی ہے...
ایسے حالات میں کوئی بھی صحت ادارہ نہیں چل سکتا، یہ بات پوچھنی ہی ضروری ہے کہ انسانی سمجھ کی حد تک ایسی بیماریوں کی صورتحال پر کوئی نتیجہ نہیں ہوتا۔
یہ سائنس دانوں کی جانب سے یہ بات بتانے کا موقع ہے کہ انسان کے اندر ایسی بیماریوں کی بھی نئی لہریں ہوسکتی ہیں، جو قبل سے ہی جانتے تھے کہ انسان اپنے ماحول میں وہ تمام Things جس سے سلوٹ کرتا ہے وہ اسی انسان کو مار ڈالتا ہے...
ایسے حالات میڰی کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلتا، لیکن یہ بات پوچھنی ضروری ہے کہ humans کی ایسی بیماریاں آئیں جو کہ previous Diseases سے تازہ ہوں...
جی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ نئی بیماری کے بارے میں پہلی بار سنا گیا ہو ، ان کو آگ کر دیا جاتا تھا اور اب یہ بات متشکیک ہے کہ انسان کی موت بھی اس طرح سامنے آئی۔ لیکن یہ کہا نا چاہے وائرس یا بیماری کسی جانور سے منتقل ہوئی، ایسی صورتحال میں جانوں کی سگNIٹنگ اور پہلے ہی موجود بھی صحت problems کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
یہ بات کوئی نہیں چاھیے کہ ہمیں اس نئی بیماری سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ جیسے جیسے مرنے اور موت سے متعلق واقعات سامنے آتے ہیں، اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہوگا کہ ہم اپنی فطرت کو سمجھ کر اپنی صحت کو بچانے کی کوشش کریں۔
اس نوجوان شہری کی بیماری میں مرنے سے پہلے اسے ایسے علاج حاصل تھے جو اب یہاں تک کہ لانڈسک اپٹوٹ کے لیے بھی نئی اور منفرد ڈائگنوسٹک ٹیسٹ کی ضرورت ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم کیا لینا چاہیں گے اور کس طرح صحت کو بچائیں۔
اس بیماری سے نمٹنے میں لانڈسک اپوٹٹ کی ضرورت ہے، ایسی سہولیات جو اب جاری نہیں ہیں اور اس سے متعلق معیاری کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔
میٹ نے ایک بار جوئی تھا اور مینے اُسے پیار کیا تھا اور اب وہ مر گیا تو مجھے اس بات سے لگتا ہے کہ اگر میں اُن کی جگہ پر بیٹھوں تو یہ ہونگے کہ میں بھی ایک ہاربر کو نہیں چا سکتا تھا، میں اس بات کا انقاد نہیں کر sakta کہ وہ شہری اپنی صحت کے بارے میں کوئی بھی پہچان نہیں لایا تھا، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ایسے حالات میں کوئی بھی آپریشن تو اچھی طرح سے جانتا ہو گا کہ کیسے اس صورتحال کو حل کیا جائے
امریکا میں نوجوانوں کو آگ کر دیا جاتا تھا، لیکن اب اس کا معاملہ ایسا نہیں ہے، اس کے بعد بھی سائنس دانوں کی جانب سے کچھ نئی باتوں کا پتہ چل رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات ایک خطرناک بات ہے، اس لیے جب بھی کسی نوجوان کو آگ لگائی جائے وہ اپنی زندگی کو چھوڑ کر نکل گا، اس کے بعد انہیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بیماری تھی اور اب اس کی بھی مناقشات ہو رہی ہیں۔
بے شک یہ ایک دیرپا وارننگ ہے۔ لگتا ہے کہ ماحول میں موجود گریوز کی نایاب بیماریوں کو کمزور کیا جا رہا ہے، جو انسان کو بھی لے جاتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ماحول میں موجود گریوز کی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنی صحت کے بارے میں بالکل آگے ہی رہنا چاہیے، خاص طور پر وہ لوگ جو گھریلو جانوروں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
اس نوجوان کی موت کے واقعات کے بارے میں سب سے بڑا متاثر کن بات یہ ہے کہ اس کی موت کے بعد ہو رہی ہی ایسے ماحول میں صحت کے پابند نہیں رہ سکتے ہیں جو گریوز کا شکار ہو سکیں یا وائرس جیسے خطرناک عارضے سے لڑنے کے لیے منصوبہ بند نہیں رہے ہیں۔
جی بالک۔ یہ بات تو نہیں ایسی ہو سکتی کہ انہوں نے اس سے قبل کسی نوجوان کو آگ کر دیا ہو ، پھر بھی وہ بھی ہوسکتی ہے۔ وہ بات تو یقینی نہیں کہ وائرس کے جینیاتی تجزیے میں کوئی خاص نتیجہ نکل سکتا ہے ، پھر بھی وہ بات یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ وائرัส کس طرح متاثرہ گھریلو پرندوں سے منتقلی کیا تھا۔
یہ بات ایک دوسری بار سامنے آئی ہے کہ انسان کی موت ہونے کا کوئی پہلا نہیں تھا، اس سے پہلے بھی وہی لکیر جس پر اب یہ لکھا گیا ہے وہ ہمیں دوسری بار یاد دلاتا ہے #اسٹرننچر
جب کہ یہ بات بھی حقیقت تھی کہ انسان کی موت ہونے کا کوئی نہیں پہلا تھا، اس سے پہلے انسان کی صحت میں ایسے حالات تھے جو اب بھی ان کی یاد دلاتے ہیں #مرنےکے بعد
ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس نوجوان شہری کے مدافعتی نظام میں کچھ نقصان تھا، لیکن یہ بات ابھی بھی ایک問 ہے کہ آپ کس طرح صحت کی پابندی کر سکتے ہیں #صحت
ایک دوسری side میں اگر انسان کا رابطہ براہِ راست گھریلو پرندوں سے تھا تو یہ بھی ایک خطرناک صورتحال ہے، لیکن اس میں بھی ایسے حل موجود ہوں گے جو ہمیں ان کھو کر نہیں لے جائیں گی #اسٹریٹیگی