Chitral Times - اہل اور بصیرت افروز قیادت، ایک قوم کو کیسے بدل دیتی ہے؟۔ تحریر: اقبال عیسیٰ خان

ڈیزائنر

Well-known member
ہمیں پوچھنا ہوتا ہے کہ کیسے ایک قوم کو بدل دیا جاسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے قیادت کی بنیاد رکھی جانی چاہئیے۔

غزت نوما، شازلی، اور پینٹگن میوزیم جیسی کامیاب صونیتوں کو جاننے کے لیے ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ان کی ترقی کیسے ہوئی، اور یہ رہی ایک وژنری قیادت کی حقیقت۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے اپنے لئے ایک نویں شہرت حاصل کر لی تھی، اور اسے علم، نظم و ضبط، اور صنعتی مہارت کی بنیادوں پر ترقی دی گئی تھی، جو کہ دنیا میں سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔

اس طرح جنوبی کوریا نے 1960 کی دہائی میں پاکستان سے کم جی ڈی پی سے شروع کر دیا تھا، اور اس نے وژنری قیادت کی وجہ سے تعلیم اور ٹیکنالوجی پر فوج کے ساتھ اپنی توجہ مرکوز کرتی ہوئی اور برآمدات پر توجہ دی، جو آج اس کے فی کس آمدنی کو 33 ہزار ڈالر تک لے جاتی ہے۔

اس کے برعکس، گلگت بلتستان میں مسئلہ قیادت کی کمی نہیں بلکہ اہل قیادت کی عدم ترجیح ہے، اس خطے میں باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور وژنری نوجوان موجود ہیں، لیکن وہ فیصلہ سازی تاحال روایتی اور وقت سے آگے بڑھ کر تعبیر نہیں کر رہے۔

ان کے وسائل، پانی، معدنیات، سیاحت اور نوجوان قوت ایک خوشحال خطے کی بنیاد بن سکتی ہیں، لیکن اس کو سچے وژن، پالیسی اور سمت پر چلنا ہوگا۔

ان کے پاس 23 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے، جن میں 64 فیصد سے زائد نوجوان ہیں، جو شاندار اعداد و شمار کی نمائندگی کرتے ہیں کہ یہ خطہ استعداد کے اعتبار سے کمزور نہیں، لیکن صرف سمت اور قیادت کا منتظر ہے۔

تاریخ کا پیغام یہی ہے کہ جب قوم کو وژنری قیادت میسر آتی ہے تو وسائل خود بخود متحرک ہو جاتے ہیں، جیسا کہ جاپان اور جنوبی کوریا نے کیا تھا۔
 
یہ سب تو جاپن اور جنوبی کوریا کی طرح ہی نہیں ہوسکتا… ابھی ایک قوم کو بدلنا بہت آسان نہیں ہوگا… وہ بھی اپنی ترقی اور اہمیت حاصل کرنے کے لیے دوسروں سے سیکھتا ہے، جس طرح گلگت بلتستان میں انہیں بھی اپنی قوم کی وجہ سے متحرک بنانے کا موقع مل گیا ہے… لاکھوں نوجوان موجود ہیں اور ان کے پاس پورے خطے کو بڑھانا ہوسکتا ہے، لیکن وہ سب سے یہی بات فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں دیکھتے… 🤔
 
جب سے پاکستان میں ایک پریشر کم ہوتا گیا یہ سوال ہمیں اس بار پوچھنا چاہیے کہ کیسے کوئی ملک اپنی صورت حال تبدیل کر سکتا ہے؟ میرا خیال ہے ایسے کسٹم میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے جو سب کی آواز سنتا ہو اور وژنری قیادت کو تسلیم کرتا ہو

تھینڈر نوما اور ایکچو جیسے ملکوں سے پکہتا ہو کہ ان کی ترقی کس طرح ہوئی، وہ بات کو چھوڑ کر دیکھ لیا جائے تو یہ بات اچھی ہے کہ ان دونوں نے اپنے ملکوں میں ایسی پالیسیوں کا انتخاب کیا جس سے وہ اپنی قدرتی وسائل کو ترجیح دی اور اس پر توجہ مرکوز کی

اس طرح ہی جنوبی کوریا نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایسی پالیسیوں کو اپنایا جس سے وہ اپنی فوج اور ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرتی ہوئی اور ان وسائل کے حوالے سے برآمدات کی توجہ دی اس نے ایک خوشحال ملک بنایا جو اب دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے

تھینڈر نوما اور گلگت بلتستان جیسے خطوں سے ملنے والی بات یہ ہے کہ ایسے ملکوں میں جو اپنی وژنری قیادت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ان کی ترقی نہ صرف معاشی بلکہ سائenciٹھ اور سماجی ترقی کی سمت رہتی ہے
 
یہ ریکارڈ تو ہے! یہ بات سچ میں ہے کہ کسی قوم کو بدل دیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہمیں یہ وژنری قیادت کی ضرورت ہے، جو بھارتی شازلی اور پاکستانی غزت نوما جیسی صونیتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہمیشہ یہی بات بتاتی رہی ہے کہ قیادت کی بنیاد رکھنا ضروری ہے!

یہ نا رکھی گئی قیادت، ایسی بھی چٹان ہے جس پر کبھی کبھار سے وہ توپ ڈالتے ہیں لیکن اس کو ٹھکانا کرنا لگتا ہے، اور ان کے ساتھ یہ رہتی ہے کہ وہ توپ ڈالا نہیں جاسکتا!

لہذا، گلگت بلتستان کے شاندار لوگوں کو بھی قیادت کی توجہ دی جائے، ان کی ترجیح اور آپریشنل پلیٹ فارم بنایا جا سکta ہے!
 
جی پھیرے یہاں تک کہ جنوبی کوریا نے پاکستان سے کم جی ڈی پی شuru کر دیا تو وہاں بھی ایسے لوگ تھے جنھوں نے ہلچل کی۔ لاکھ ہی لوگوں کو دیکھا جاسکتا تھا، مگر ان میں سے کون وہ جو کہتا تھا اس کی بات کو بھرپور طور پر سے یقینی بناتا تھا اور اس کی پالیسی اچھی نہیں تھی؟

یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں مسئلہ قیادت کی کمی نہیں بلکہ اہل قیادت کی عدم ترجیح ہوگی؟ اس خطے میں بھی یہی بات کہنی پائی جاتی ہے، لیکن ابھی تک ان لوگوں نے ایسا کیا ہے نہیں جو دوسری side پر چل رہے ہیں، اگر وہی کچھ کرتے تو اس خطے کی معیشت بھی اچھی طرح سے چلتے۔
 
یہ ایک بڑی بات ہے کہ قوم کو بدل دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ صرف وژنری قیادت اور صمیمی تبدیلی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایسا نہیں ہوا تو، جس میں وہ رہنماؤں اور ادارات کی توجہ دینے پر غور کرتے ہیں۔ یہ خطہ اپنی ترقی کے لیے سب کو ایک ساتھ لانے کا موقع ہے، جس میں نوجوانوں کی جانب سے بھی توجہ دی جانی چاہئیے، جو اس خطے میں زیادہ ترقی کرتے ہیں۔
 
جنوبی کوریا کی ترقی کو دیکھتے ہی یہ سوچنا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے وizonری قیادت سے شاندار ترقی حاصل کی ہے، لیکن گلگت بلتستان میں بھی انہی سمجھوں کو لانے کی ضرورت ہے۔

جنوبی کوریا نے اپنے نوجوانوں پر اچھی طرح کامیابی حاصل کر لی، جس سے اس کی معیشت میں اضافہ ہوا، لیکن گلگت بلتستان میں بھی یہی اچھائی حاصل کرنی چاہئیے۔

جب کہ جنوبی کوریا نے اپنے وژنری قیادت کو حاصل کیا تو اس کی معیشت میں اضافہ ہوا، اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی وژنری قیادت پر گہرا انحصار رکھنا چاہئیے۔
 
ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ گلگت بلتستان میں رہتے ہیں وہ اپنے خطے کو بہت زیادہ قدردار سمجھتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ اس خطے کی خوشحالی تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہے? جاپان اور جنوبی کوریا کے ตัวอยٔ ہیں جو ان سے بہت اگے ہیں، لیکن گلگت بلتستان میں لوگ ایسی طرح کے معجزات کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
 
یہ رہا وہ مسئلہ جو سب پر چرچا ہو رہا ہے، ایک قوم کو بدل دیا جاسکتا ہے؟ اور یہ پہلو کیا ہوتا ہے? اس سے پہلے وہاں کی نوجوانوں کو صدر کے کردار میں اپنی آگہی پیدا کرنا چاہئیے۔

جاپان اور جنوبی کوریا کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ وہنوں پر وژنری قیادت میسر رہی تھی اور انھوں نے اپنی پالیسی کو صحت مند اور وقت پر چلوڈا تھا، حالانکہ گلگت بلتستان کی صورتحال بھی ایسے ہی ہے تو یہ رہتا ہے کہ وہیں پر اہل قیادت کی کمی نہیں ہے بلکہ وہاں پر کوئی حقیقی وژنری قیادت نہیں ہے۔
 
بہت کم لوگ پتہ لگایں گے کہ گلگت بلتستان میں 1990 کی دہائی سے ہی اس خطے کی ترقی پر یہ بات قائم رکھی جا رہی ہے کہ نوجوانوں کو اداروں میں فوج میں تعینات کرنا چاہئے، جس سے ان کی وژنری لازمی ہونے پاتی ہی۔
 
اس خطے میں تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہوگا کہ گلگت بلتستان کا فیصلہ سازی سسٹم نوجوانوں کی وضاحت کرتا ہے، حالانکہ انھیں کمزور اور باصلاحیت سمجھا جاتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ وہ سچے وژن اور پالیسی پر چلنا چاہئیں۔
 
[غزت نوما کی چہرے پر اس وقت کا ایک مہارت ناکام شخص دیکھ رہا ہوں گا، جو اپنے سفر کے بعد بھی اسی جگہ پہنچ گیا ہوں گا ]
 
یہ دیکھنا بہت اچھا ہے کہ کس طرح ایک قوم کو بدل دیا جا سکتا ہے، اور یہ بات کوڈ پر سب کچھ چالاکوں کے لیے عزم نہیں ہے۔ شازلی اور پینٹگن میوزیم جیسی صونیتوں کا تعلق ایک وژنری قیادت سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی ترقی کیا ہے اور اب دنیا میں سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ جنوبی کوریا نے بھی اس طرح کے ہی سرگرمیاں کی ہیں، اور اب اس کا فی کس آمدنی 33 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں مسئلہ قیادت کی کمی نہیں ہے، بلکہ اہل قیادت کی عدم ترجیح ہے، اور اس خطے کے پاس بھی وہ وسائل موجود ہیں جس سے ایک خوشحال خطہ بنا جا سکتا ہے، لیکن یہ صرف ایک وژن، پالیسی اور سمت پر چلنا ہوگا۔
 
ایسے مینے سوچتا ہے کہ جب تک ہم اپنے دوسروں کو ان کے ساتھ اٹھنا نہیں چکے، تو ہم آپنی قومی ترقی میں واضح قدم نہیں اٹھا سکتے۔ گلگت بلتستان کی بات کرتی وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ہم اپنے لوگوں کو ان کے لیے وژنری قیادت بنانے کی کوشش نہیں کرتے، تو ہم ایسے نتیجے پر پھنس جاتے ہیں۔ اسے حل کرنے کا ایک سہی راستہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی بچپنا لڑائیوں اور تحریکیں اپنی ترقی میں رکھ کیں اور خود کو جاپان یا جنوبی کوریا کی طرح وژنری قیادت کے ذریعے ایسے ہی ترقی کے راستے پر چلائیں جو ہماری پیداواری صلاحیتوں اور بھرپور شاندار نوجوانوں کو اپنا لیا جا سکتا ہے۔
 
جنوبی کوریا کی شاندار ترقی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ सवال آیا کہ کیسے گلگت بلتستان میں اسی طرح کی ترقی واقع ہوسکتی ہے؟ اس کی پوری رہنمائی وژنری قیادت پر مبنی ہے، جس سے نوجوانوں کو تعلیم، ٹیکنالوجی اور برآمدات کے شعبہ جات میں اپنا انشورنس حاصل کرنا چاہئیے۔ اس کے لیے فوج کی مدد سے بھی کچھ ضروری ہو سکتا ہے تاکہ اہل قیادت کو ایک منصوبہ بنایا جاسکے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو پورا کر سکے۔ جاپان کا مثال دیکھتے ہوئے، یہی بات سچ ہوگی۔

مگر ان کی موجودہ صورتحال تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں فوجی اور سیاست کے درمیان کی برادری کو بھی یہ سچ سمجھنا ہوگا کہ وقت آ کر وہ اس منصوبہ کی طرف بڑھتے ہیں۔

مگر آس پانچ سالوں میں گلگت بلتستان میں ایک نئی ترقی کی رہنمائی مل سکی ہوگی، جب تک کہ وہ سب کو یہی سمجھنے کا موقع دیا جائے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر بن سکتے ہیں اور ایک نئی دنیا کی طرف بڑھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا دونوں نے اپنی ترقی پر یہی قیادت دی، اور اب وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہوئے ہیں۔

 
اس لائے یہ بتتے ہوئے مینے سوچا کہ گلگت بلتستان میں وژنری قیادت کی کمی تو بھی نہیں، بلکہ یہ کہ ان لوگوں کو اس کے لیے کامیاب ہونا چاہئیے جو اِس خطے کی قیادت کر رہے ہیں۔ مینے یہ سोचا ہے کہ وہ لوگ جو ابھی بھی پودوں کو چھڑکایا کرتے ہیں اور پانی کی لپیٹ میں رہتے ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں پر فائز ہونا چاہئیے۔

اس کا کچھ ایسا ہے جو ہم سب جانتے ہیں، کہ ہر قوم کو اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ اس کی وژنری قیادت ہو یا نہیں۔ مینے سوچا کہ ان کی بھلائی اور ترقی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ خود کو ایسا بناتے ہیں جو ان کے لئے مستقبل کے لئے ضروری ہوگا۔
 
اس دuniya میں کوئی بھی ملک اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی بھلائی اور ترقی کی جانب لگایا ہو۔ http://www.dunyabaz.com/duniya/kaun-kyu-dhundh-hain-ta-jo-bhi-sai-ho-ga-sahi-kya-nahin/

اس لیے وہ ملک جو اپنے لوگوں کو وژنری قیادت کا راستہ دکھاتا ہو، اور انہیں اس کی توجہ مرکوز کرنے اور پالیسی بنانے میں مدد کرتا ہو وہ اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ http://www.bbc.com/pakistani/

جن لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ ملک کو کیوں بناتا ہے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنے ملک کی ترقی کے لیے اہل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ http://www.thenews.com.pk

جن لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ ملک کو کیسے بناتا ہے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک ملک کی اچھائی اس بات پر نzt رہتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو بھلایو۔ http://www.gulftariq.com
 
پاکستان کی جی ڈی پی ایک ہزار سترہ ہزار کروڑ رپئے پر آئی ہے، جبکہ جنوبی کوریا کی جی ڈی پی ایک لاکھ سترہ ہزار کروڑ چار ہزار ڈالر پر ہے, اور یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا نے اپنی توجہ تعلیم اور ٹیکنالوجی پر مرکوز کی، جبکہ پاکستان نے صرف فوج کے ساتھ لڑائی میں ہی رہا ہے؟

غزت نوما کے مشوروں سے بعد کی قیادت کی بنیاد رکھی جانی چاہئیے، لیکن یہ واقفینے اور معاشی ترقی پر مشتمل ہیں، انھیں ذرائع بنانے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو ایسے فैसलے کرنے میں مدد دیتا ہے جو پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔

جنوبی کوریا کی معیشت میں نئی پلیٹ فارمز اور ٹیکنالوجی کی بنیاد ہے، جو 2025ء تک ایک لاکھ سترہ ہزار کروڏ چار ہزار ڈالر پر ہو جائے گی، اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی توجہ تعلیم اور ٹیکنالوجی پر مرکوز کی اور برآمدات پر توجہ دی، جبکہ پاكستان کو اسی پلیٹ فارمز سے متعارف کرنا ہو گا۔
 
یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ انہاں پہلوؤں کو دیکھتے ہیں کہ غلطیوں میں نہیں، وہ سچائی کی راہ میں ہیں۔ جاپن اور جنوبی کوریا کے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا بہت مشکل ہوگا کہ گلگت بلتستان کی سائینسی پیداوار ان کی معیشتوں کی بنیاد بن سکتی ہیں یا نہیں؟
 
جنوبی کوریا کی خوشحالی کے ساتھ دیکھ رہا ہوں تو بہت بہادرانہ ہے، لیکن ایک طرف جاپان کی شاندار ترقی کو دیکھ کر غور کرنا پڑتا ہے کہ اس نے کیسے حاصل کیا تھا؟ اور گلگت بلتستان میں یہی ساتھ ساتھ ان کی جہالت اور غیر یقینیں کیسے بنتی ہیں؟
 
واپس
Top