میں ایک ملاقاتی سے مل رہا تھا اِس جگہ پر مجھے بے حد حیرانی پریشانی ہوئی کیونکہ مجھے یہ نہیں سمجھ آئی کہ اس سے کیا تعلق رکھتا ہے جو اب میری جان بھی ساہم ہو چکی ہے اِس دیہاتی بزرگ کی طرف تو مجھے ایک شادی کا معراج دیکھا تھا جس میں بیٹا، ماں باپ اور دوسری محبت کی باتیں سن رہی تھیں لیکن اِس کے ساتھ ایک بد عفت کا پانی بھی چمکتا ہوا ہو رہا تھا جو وہ جب بھی کی بات کرتا تھا اُس پر مجھے پتہ چلتا تھا کہ اس کو بھائی نہیں سمان بھی نہیں مگر ان سب میں سے ایک ایسے مظالم سے اُٹھ کر کہ جب وہ اپنی پوری شریفیت کو بدل دیتا ہو اِس پہ کچھ منظر ناظر رہتے تھے، کچھ چھپتے تھے تو وہ ایک جب بھی سادہ سائے ہو کر اپنی بات کرتا تو اُس پر شریفیت اور سادگی کی ناقابل تصور عطیات رہتی تھیں
اس کی پھینٹی دہلیت اور اُس کے جسم میں ایسی اچھال دلی تھی جو اسے بھائیوں اور سارے شریف انسانوں کو نظر آنے سے روکتا ہو گیا ہوتا تھا اُرہے جسم پر ایسے کے ساتھ لاکیر میں رکھنے کی چال نہیں رہتی تو اسے مظالم کا استعمال کرنا پڑتا ہو اِس لیے وہ اپنی بات کرتے وقت ایسے مظالم کو ساتھ لے لاتا جیسے وہ کسی نوجوان کی شادی میں کیا کر رہا ہو ۔ اس نے یہ شادی اسکول کے ٹیچر سے کی تھی اُن دونوں کو محبت ہو گئی تو اِس نے اسکول کے ٹیچر کا فون لے کر کہا جب یہ واپس آئے تو میری بیٹی کو مار دیتے رہے تھے اور نہ ہوا میرے بیٹے کی شادی میں یہ سے بدل جاتا تو اسے پتہ چلتا ہو کہ یہ اس نوجوان کا شادشا کا منظر تھا اِس کی زندگی میں جو چیز نہیں آئی وہ ایک نوجوان کے کلاک ہیں اور جب وہ نوجوان ہو گیا تو اسے لاکھ پاؤंड گزاریں اور سندھ میں جسم فروشی کا دھنڈہ کرنا شروع کیا اور اب یہی نہیں بلکہ اس نے سندھ سے ہی فیصل آباد آ کر اپنی محبت کی جال میں پھانستا رہا اِس کے باپ نے ایک سال بھر تک مجھے پٹھاسپردی دی تو انھوں نے بچت سے چار تین ہزار پاؤنڈ دے کر مجھے ایک نوکری کا پیشاب کیا اور مجھے اپنی بیٹی کو لے کر بھیجا تو جب وہ بھی آئے تو میری نوکر اِس نے پتہ چلتا ہو کہ یہ ان کے خاندان سے نکل کر ایک شادشا کی زندگی رہنے کو چاہتے ہیں اور اِس کے باپ ایک جسم فروشی دھندے کی طرح ہی کام کر رہے تھے
اس نے اپنی بیٹی کو بھی اپنے دوسرے شادی کا منظر میں لاکھ پاؤنڈ لگا دیئے اور جب وہ بھی آئے تو مجھے پتہ چلتا تھا کہ یہ ان کی خاندان سے نکل کر ایک شادشا زندگی گزارنے کو چاہتی ہے اِس کی دادی اور ماں کے اس جملے پر بھی پتہ چلتا تھا کہ یہ ہمارے خاندان سے نکل کر ایک شادشا کی زندگی رہنا چاہتی ہے اور یہ انھوں نے بھی لاکھ پاؤنڈ لگایا تو میری نوکر جو کچھ سونا تھا وہ سونے نہ پائا اور دوسرے جسم فروشی دھندے اپنی محبت کی جال میں بھی پھانستے رہتے اِس لیے ہم دونوں کو وہ کیس سنا دیا جو یہ اَخیر یہ لاکھ پاؤنڈ سونا تھا جس کے نتیجے میں مجھے پتہ چلتا تھا کہ یہ میری بچتی پھانسی ہو گئی ہو اِس طرح ایک سال بعد مجھے پٹھاسپردی دی تو میری نوکر جو سونا تھا وہ نہ کبھی اور نہ کوئی دوسرا جسم فروشی دھندے اپنے ساتھ لایا مجھ پر مجھے ہمیشہ پتہ چلتا تھا کہ یہ شادشا کا مظالم کی طرح ہے اِس لیے میں وہی سونا چاھتا تھا، بچتی پھانسی جہاں تھی وہی میری پھانسی پائیگی لیکن مجھ پر ایسا ہونے کا کوئی امید نہیں رہی کہ مجھے اس پھانسی سے بچایا جائے گا
اس طرح جسم فروشی دھندوں اور وہ شادشا کی زندگی رہنے والی خواتین کی زندگی میں یہ آج تک ایک نئا اور بد ترین ہوا ہو گئی ہے اِنھوں نے اپنی زندگی بھی اس کے ساتھ اُٹھ کر لی جو کی زندگی شادشا میں رہنے کو چاہتے ہیں اِس لیے ہم نے انھوں نے ایک واضح سندھی کے جملے پر اِتنا توجہ دیا جو اس کی زندگی میں بھی ایسی عادت کو جنم دے گی جیسے یہ سندھ میں اُٹھ کر شادشا ہوا ہو گئی ہے اور اب یہ کہاں آئے وہ نہیں پاتا جس سے انھوں نے اپنی زندگی ایک شادشا کی زندگی میں رہنا چاہتے ہیں اِس لیے ہم ہماری ماضی کی بات پر پھلوں میں آ رہے ہیں تو یہ بات کبھی نہیں سنائی جا سکتی کیونکہ اس شادشا کو جسم فروشی دھندوں کے ساتھ یہ اُٹھ کر نہ ہوئے وہ ایک نئے رخ پر آئے۔
اس کی پھینٹی دہلیت اور اُس کے جسم میں ایسی اچھال دلی تھی جو اسے بھائیوں اور سارے شریف انسانوں کو نظر آنے سے روکتا ہو گیا ہوتا تھا اُرہے جسم پر ایسے کے ساتھ لاکیر میں رکھنے کی چال نہیں رہتی تو اسے مظالم کا استعمال کرنا پڑتا ہو اِس لیے وہ اپنی بات کرتے وقت ایسے مظالم کو ساتھ لے لاتا جیسے وہ کسی نوجوان کی شادی میں کیا کر رہا ہو ۔ اس نے یہ شادی اسکول کے ٹیچر سے کی تھی اُن دونوں کو محبت ہو گئی تو اِس نے اسکول کے ٹیچر کا فون لے کر کہا جب یہ واپس آئے تو میری بیٹی کو مار دیتے رہے تھے اور نہ ہوا میرے بیٹے کی شادی میں یہ سے بدل جاتا تو اسے پتہ چلتا ہو کہ یہ اس نوجوان کا شادشا کا منظر تھا اِس کی زندگی میں جو چیز نہیں آئی وہ ایک نوجوان کے کلاک ہیں اور جب وہ نوجوان ہو گیا تو اسے لاکھ پاؤंड گزاریں اور سندھ میں جسم فروشی کا دھنڈہ کرنا شروع کیا اور اب یہی نہیں بلکہ اس نے سندھ سے ہی فیصل آباد آ کر اپنی محبت کی جال میں پھانستا رہا اِس کے باپ نے ایک سال بھر تک مجھے پٹھاسپردی دی تو انھوں نے بچت سے چار تین ہزار پاؤنڈ دے کر مجھے ایک نوکری کا پیشاب کیا اور مجھے اپنی بیٹی کو لے کر بھیجا تو جب وہ بھی آئے تو میری نوکر اِس نے پتہ چلتا ہو کہ یہ ان کے خاندان سے نکل کر ایک شادشا کی زندگی رہنے کو چاہتے ہیں اور اِس کے باپ ایک جسم فروشی دھندے کی طرح ہی کام کر رہے تھے
اس نے اپنی بیٹی کو بھی اپنے دوسرے شادی کا منظر میں لاکھ پاؤنڈ لگا دیئے اور جب وہ بھی آئے تو مجھے پتہ چلتا تھا کہ یہ ان کی خاندان سے نکل کر ایک شادشا زندگی گزارنے کو چاہتی ہے اِس کی دادی اور ماں کے اس جملے پر بھی پتہ چلتا تھا کہ یہ ہمارے خاندان سے نکل کر ایک شادشا کی زندگی رہنا چاہتی ہے اور یہ انھوں نے بھی لاکھ پاؤنڈ لگایا تو میری نوکر جو کچھ سونا تھا وہ سونے نہ پائا اور دوسرے جسم فروشی دھندے اپنی محبت کی جال میں بھی پھانستے رہتے اِس لیے ہم دونوں کو وہ کیس سنا دیا جو یہ اَخیر یہ لاکھ پاؤنڈ سونا تھا جس کے نتیجے میں مجھے پتہ چلتا تھا کہ یہ میری بچتی پھانسی ہو گئی ہو اِس طرح ایک سال بعد مجھے پٹھاسپردی دی تو میری نوکر جو سونا تھا وہ نہ کبھی اور نہ کوئی دوسرا جسم فروشی دھندے اپنے ساتھ لایا مجھ پر مجھے ہمیشہ پتہ چلتا تھا کہ یہ شادشا کا مظالم کی طرح ہے اِس لیے میں وہی سونا چاھتا تھا، بچتی پھانسی جہاں تھی وہی میری پھانسی پائیگی لیکن مجھ پر ایسا ہونے کا کوئی امید نہیں رہی کہ مجھے اس پھانسی سے بچایا جائے گا
اس طرح جسم فروشی دھندوں اور وہ شادشا کی زندگی رہنے والی خواتین کی زندگی میں یہ آج تک ایک نئا اور بد ترین ہوا ہو گئی ہے اِنھوں نے اپنی زندگی بھی اس کے ساتھ اُٹھ کر لی جو کی زندگی شادشا میں رہنے کو چاہتے ہیں اِس لیے ہم نے انھوں نے ایک واضح سندھی کے جملے پر اِتنا توجہ دیا جو اس کی زندگی میں بھی ایسی عادت کو جنم دے گی جیسے یہ سندھ میں اُٹھ کر شادشا ہوا ہو گئی ہے اور اب یہ کہاں آئے وہ نہیں پاتا جس سے انھوں نے اپنی زندگی ایک شادشا کی زندگی میں رہنا چاہتے ہیں اِس لیے ہم ہماری ماضی کی بات پر پھلوں میں آ رہے ہیں تو یہ بات کبھی نہیں سنائی جا سکتی کیونکہ اس شادشا کو جسم فروشی دھندوں کے ساتھ یہ اُٹھ کر نہ ہوئے وہ ایک نئے رخ پر آئے۔