Chitral Times - ڈیجیٹل تشدد؛ غربت اور موسمیاتی بحران کے بعد ابھرتا ہوا بڑا سماجی خطرہ - تحریر: فرحانہ مسرت خان

گینڈا

Well-known member
پاکستان میں ڈیجیٹل تشدد کا سفر، جو ابھرتا ہوا بڑا سماجی خطرہ بن رہا ہے۔ سائبر ہراسانی، دھمکیاں، جنسی نوعیت کی ہراسانی جیسے جرائم جو سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں ان کی اثرات حقیقی زندگی میں شدید خوف، ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور سماجی تنہائی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔

کچھ کھوج کر دیکھا جائے تو خواتین کی زندگی میں ڈیجیٹل تشدد کا سامنا کرنے والی گنجائش بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ دنیا میں ان کے ساتھ ایک تیسرا چیلینج سر اٹھ رہا ہے، جو ڈیجیٹل یا ٹیکنالوجی پر مبنی صنفی تشدد ہے۔ کووڈ-19 کے بعد اس رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور آج یہ عالمی سماجی استحکام کیلئے سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔ مختلف عالمی رپورٹس بتاتی ہیں کہ خواتین آن لائن دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 60 فیصد خواتین اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں آن لائن تشدد کا سامنا کرتی ہیں، جبکہ 85 فیصد خواتین دوسروں کے ساتھ پیش آنے والی ایسی زیادتیوں کی گواہ بنتی ہیں۔

پاکستان میں اس مسئلے کی شدت بھی کم نہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں 20 ہزار سے زائد خواتین نے مدد کے لیے رجوع کیا، جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں شامل تھیں۔ صرف 2024 میں رپورٹ ہونے والے 3 ہزار سے زائد کیسز میں سے تقریباً 90 فیصد سائبر ہراسانی سے متعلق تھے۔ دوسری جانب ایف آئی اے میں درج شکایات میں سزا کی شرح محض ایک فیصد ہے، جو انصاف کے حصول میں بڑی رکاوٹ اور ادارہ جاتی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ مختلف قومی رپورٹس تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں 18 لاکھ سے زائد خواتین کسی نہ کسی سطح پر ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہوئیں۔

پاکستان کا سماجی ماحول پہلے ہی صنفی عدم مساوات، پدرشاہی سوچ اور محدود معاشی مواقع جیسے مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ یہی رویے جب ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہوتے ہیں تو صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے، چاہے بات تعلیم کی ہو، ملازمت کی، سیاست میں شمولیت کی یا سوشل میڈیا پر اپنی رائے دینے کی۔

ہم کو ایک محفوظ ڈیجیٹل فضا کے لئے کام کرنا پڑے گا، جو حقیقی دنیا میں سماجی برابری اور انسانی حقوق کی حقیقت پر بنے۔ اس سفر میں سب سے اہم قدم ڈیجیٹل تشدد کو صنفی تشدد کی ایک باقاعدہ شکل تسلیم کرنا ہوگا، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو teknik تربیت فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ مؤثر تحقیقات کر سکائیں۔ متاثرہ خواتین کے لیے ہیلپ لائنز، قانونی مدد، مشاورت، پناہ گاہوں اور ڈیجیٹل فارن سیکچرز کے نظام کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔
 
عجیب بات یہ ہے، آج کل پاکستان میں خواتین کی زندگی میں ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہونے کے حالات بہت گھریلو بن رہے ہیں 💔👩‍💻 سوشل میڈیا پر بھی ان کی زندگیوں کو تباہ کرنے کی کئی طریقے اور دوسروں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں، یہ سب ایک جھٹپٹ کے لئے بہت خطرناک ہو گئے ہیں 💣

جب تک ڈیجیٹل یا ٹیکنالوجی پر مبنی صنفی تشدد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور سماجی ماحول میں اس کی وجوہات کو سمجھنا نہیں ہوتا تو یہ ایک کے لئے بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے، حالانکہ پاکستان میں خواتین کی زندگی میں اس کے نتیجے پر گھریلو کے لئے بھی خاص تھوٹ پڑ رہا ہے 🤕
 
🤦‍♂️ یہ سوچتے ہوئے بھی بہت زیادہ کم کیا جاتا ہے! سوشل میڈیا پر تشدد کی گھنٹوں سے گزارے بے فائدہ ہوتے ہیں، اور پھر لوگ اپنی زندگی میں اس کا سامنا کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی! 🤔

ان خواتین کی زندگیوں میں ڈیجیٹل تشدد اور دھمکیاں، جو ابھر رہی ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں اہم قدم उठानے کی ضرورت ہے کہ ہمیں بھی اس سماجی خطرے سے نمٹنا پڑے گا! 😬
 
عشق کرنا مشکل ہو رہا ہے پھر کی پہلی بار محسوس کر رہی ہیں ان خواتین کے ساتھ بھی جو سوشل میڈیا پر لڑائی لڑتی ہیں وہی کیسز میں شامل ہو گئیں۔ حالانکہ اس کا خلاف کار کرنے کی کوششیں شروع ہوئی ہیں لیکن پھر بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ایسے میڈیا پر نہ ہونے والا ایسا تبادلہ خیال جیسا کہ عالمی سماجی استحکام کیلئے ہوتا ہے اور پھر یہ بھی جو کہ ڈیجیٹل دنیا میں حقیقی دنیا سے ملنے والی ایسی ملاقات ہے وہی نہیں ہوتی ہے، اس لیے ان سے نمٹنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

🤷‍♀️
 
میں سوچ رہا تھا کہ آج یہ عالمی سماجی استحکام کیلئے ایسا کیا گیا ہے جیسا کہ میری میٹھی بھونٹ پر اس وقت کے پاکستانی شہر لاہور کی مشہور اور لذیذ برائی "تandoori Chicken" کے بارے میں تھا! یہ وہ لالچ ہے جو مجھے اپنی زندگی کے بہت سارے مواقع پر تھوڑا دیر اور گہرا لے چلا جاتا ہے.
 
🚨 یہ تو کافی گھبراہٹ کی situation hai. میں اس بات پر اتفاق کرتا ہوں کہ خواتین کو انلائن دنیا میں بھی برابر محنت اور سہولت ملنی چاہئے۔ لیکن یہ بات تو ناقص ہے کہ ڈیجیٹل تشدد کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی جا رہی۔ پھر دوسری جانب اگر خواتین کے سامنے انلائن دنیا میں بڑھتے ہوئےDangerوں کا سामनہ کرنا پڑتا ہے تو یہ صرف ایک نئی شکایت بنتی ہے۔ ہم کو ضروری ہے کہ ڈیجیٹل تشدد کی ایک باقاعدہ پالیسی تیار کرنا پڑے۔
 
🤐 ایسے کیسز ہیں جب اس بات کو پورا کیا جانا چاہیے کہ پاکستان میں خواتین کا ڈیجیٹل سفر سوشل میڈیا پر بھی نہیں، بلکہ ان کی زندگی میں سائبر ہراسانی، دھمکیاں اور جنسی نوعیت کی حقیقی دنیا کی خوفناک چیلینج کے بارے میں بات کی جائیوں۔
 
جب ٹیکنالوجی نے ابھر کر ایک بڑا سامعین ماحول بن دیا ہے تو اس سے سماجی تنہائی اور افسردگی کا سفر سلاسلتا جاری رہی گئی ہے۔ لڑکیوں کی زندگی میں ڈیجیٹل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین میں بھی ایک واضح ماحول بن رہا ہے، جس سے ان کا ڈرامائی سفر لگتا ہوا پورا ہوتا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہو گا اور اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تکنیکی ترقی فراہم کرنا ضروری ہو گا تاکہ وہ ایسے معاملات کی تحقیقات کریں جو آئندہ بھی اس نہیں ہونے دیں۔
 
🚨 یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل تشدد کی صورت ہو رہی ہے اور یہ خواتین پر بھی خاص طور پر اثرانداز کررہی ہے۔

سوشل میڈیا پر دھمکیاں، جنسی نوعیت کی ہراسانی اور سائبر ہراسانی سے لेकर تعلق رکھنے والی زیادتیوں ان کی زندگی میں پھیل گئی ہیں اور وہ شدید خوف، ذہنی دباؤ اور Depression جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔

خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بھی ایسی دباؤ اور تشدد کی سزائش دی جاتی ہے جو کہ حقیقی زندگی میں نہیں ہونے چاہیے۔

اس سفر میں سب سے اہم قدم ان کو محفوظ ڈیجیٹل فضا کی طرف بڑھانا ہوگا، جس میں تعلیم، ملازمت، سیاست اور معاشی مواقع پر بھی دباؤ کے حوالے سے کام کرنا پڑے گا، یہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل تشدد کو صنفی تشدد کی ایک باقاعدہ شکل تسلیم کرنا اور قانون نافذ کرنے والوں کو teknik تربیت فراہم کرنا بھی ضروری ہوگا۔
 
اس دuniya میں کبھی نہ کبھی دبا دب کی ہوتی ہے، پاکستان میں ہمیں آج خواتین کو بھی سوشل میڈیا پر دبا دبا کر رہا ہے! 🚫
 
بے شک وہ خواتین جو اپنی زندگی میں ڈیجیٹل تشدد کا سامنا کر رہی ہیں ان کی جاندار دلوں پر بھاری بار لگا ہوا ہے، آج بھی ان کو پورے پاکستان میں سماجی تنہائی کا شکار ہونے کا خوف ہوتا ہے، آئے دن ان کی زندگی میں ایسی صورتحال پڑ رہی ہے جس سے وہ اپنے حیات کو بھی نہیں سمجھ سکتیں… 😔
 
اب اس نئی دuniya میں یہ سوچنا مشکل ہوگیا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں خواتین کو کس قدر ڈر ہوتا ہے، ان کی زندگی میں کس طرح تھکاوٹ آتی ہے۔ پچیس لاکھ سے زائد خواتین ہی نہیں بلکہ دس لاکھ سے بھی زیادہ خواتین اس معاملے میں شکار ہوئی ہیں۔

ایک محفوظ ڈیجیٹل فضا بنانے کا یہ سفر مشکل ہو گا، لیکن یقینی طور پر ضروری ہے۔

**🚫💻**

پاکستان میں ڈیجیٹل تشدد کی صورتحال بھی اچھی نہیں ہے، ابھی تو وہ ایک نئی چیلنج بن رہا ہے جو دنیا بھر میں موجود ہو رہا ہے۔

اس بات کو یقینatically سمجھنا ہی ضروری ہے کہ ایک محفوظ ڈیجیٹل فضا بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کو بھی اہم کردار ادا کرنا پڑے گا تاکہ انصاف کے حصول میں بھی یہ سفر اچھا بن سکا جائے۔

ہمیں ایک محفوظ ڈیجیٹل فضا کی طرف قدم بڑھنا پڑے گا جو حقیقی دنیا میں سماجی برابری اور انسانی حقوق کی حقیقت پر بنے۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پہلی بار سائبر ہراسانی کی کیسز بڑھتی ہیں. اس میں خواتین کا سماجی جسٹس کی جانب نہیں توجہ دی گئی ۔ وہی رپورٹ्स آئی ہیں جو بتاتی ہیں کہ ایک سے دو ڈھائی لاکھ خواتین نے کیسز میں رجوع کیا ہے اور ان میں سے تقریباً 90 فیصد کی تیزگی سائبر ہراسانی سے متعلق تھی.

یہ رپورٹ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ڈیجیٹل تشدد ایک اہم مسئلہ ہے جو سماجی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے ماہرین بھی متاثر ہوئے ہیں.

اس بات پر ایک دوسرا واضح بات کرتا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے ہی خواتین کو سماجی ناکاموں اور مظالم کا شکار ہو رہی تھیں اور اب اس میں ڈیجیٹل دنیا کی مدد سے مزید سنجیدگی ہوئی ہے۔

یہ ایک خطرناک مسئلہ ہے جس کو ٹھیک کرنا ہوگا.
 
🤗 ye toh kuch bhi nahi jo main yeh sawal nahi kar sakoon 🤷‍♀️, pakistanni awaazen mein digital tashaddood ki samasya bahut badi hai, aur khawajin ko is samanya khwabon ka saamna karna hota hai 👀. meri rai yeh hai ki humein ek sahi digital duniya banaani chahiye jo insanat ki asliyat par aadharit ho 💖.

khawaji baatcheet mein online tashaddood ki samasya bahut zyada hai, khass kar khatoon ko 🤯. 80% khawajin ko online tashaddood ka saamna hota hai, aur meri rai yeh hai ki humein is samasya ka samadhan khojna chahiye 💡.

Pakistanni kanoon mein zyada sahayta nahi hai, aur meri rai yeh hai ki humein adhik sahayata deni chahiye khatoon ko 🤗. ہمیں ایک محفوظ digital duniya بنانے کے لئے کام کرنا پڑے گا، جو حقیقی دنیا میں سماجی برابری اور انسانی حقوق کی حقیقت پر بنے۔
 
: ایسے میں آج وہ فیکٹس کی بھی بہت ہیں کہ 85 فیصد خواتین اس صورتحال سے گواہی دیتی ہیں، اور صرف 90 فیصد کیسز میں سائبر ہراسانی لگتی ہے! یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پچیس برسوں میں 18 لاکھ سے زائد خواتین ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہوئیں! :(

ایسے حالات میں ہم کو سماجی جوش و آंदھا کی ضرورت ہوگی, جہاں خواتین اپنی صحت، حقوق اور محفوظ ڈیجیٹل فضا پر بات کر سکائیں.


ایک اور گھنٹا یہ بتاتھا کہ 60 فیصد خواتین اپنی زندگی میں کچھ شکل میں آن لائن تشدد کا سامنا کرتی ہیں!

یہ بات بھی بتائی گئی کیں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق سایبر ہراسانی میں متاثرہ خواتین نے مدد کے لیے رجوع کیا ہے, 20 ہزار سے زائد خواتین!

اس صورتحال کو حل کرنے کے لئے ہم کو اپنی جائیدادوں میں بدلाव لानا پڑے گا, جو سماجی برابری اور انسانی حقوق کی حقیقت پر بنے۔
 
واپس
Top