کرلان قبائل نے پشتون تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھی ہے، جس کے بارے میں ان کی شناخت، نسب اور تاریخی پس منظر پر صدیوں سے بحث جاری ہے۔ ان کی شناخت نے انہیں پشتون تاریخ کا ایک دلچسپ مگر پیچیدہ باب بنا دیا ہے جو علمی حلقوں میں سوالات کو جنم دیتا ہے اور خود ان قبائل کی سماجی شناخت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کی نسب کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔ کچھ مؤرخین کرلان کو قیس عبدالرشید کی نسل سے نہیں بلکہ ایک الگ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہیں سڑبن کے ذریعہ جوڑا جاتا ہے جس کی نسل قیس عبدالرشید سے منسوب ہوتی ہے۔ یہ تضاد ان کی تاریخی شناخت کو دو الگ بیانیوں میں تقسیم کرتا ہے۔
کرلان کے بڑے قبائل میں خٹک، دلازاک، اورکزئی، اتمان خیل، آفریدی، خوبزی (خوگیانی)، منگل، وزیر، بنگش، شیتک اور موسیٰ زئی شامل ہیں۔ ان قبائل سے آگے مزید ذیلی قبائل وجود میں آتے ہیں جن کی تعداد ساٹھ سے زائد بتائی جاتی ہے، جیسے کہ صافی، توری، زازی، کوکی خیل، کاکاخیل، اکاخیل، سپاہ، قمر خیل، آدم خیل، ملک خیل، شلمانی، بازی خیل، درپہ خیل، بیتنی، سلیمان خیل، مشhton، مہندھ خیل، خوجک، ملک دین خیل، مندی خیل اور دیگر۔
ان قبائل کی زبان، رسم و رواج اور ثقافت میں بھی تنوع پایا جاتا ہے جو ان کی الگ شناخت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ کرلان کے تمام چھوٹے بڑے قبائل نسب کے حوالے سے دو بیانیوں میں منقسم ہو چکے ہیں، ایک بیانیہ یہ ہے کہ کرلان کے والد کا نام ’’بیان‘‘ تھا اور وہ اپنا شجرۂ نسب سڑبن سے جوڑتے ہیں، جبکہ دوسرا بیانیہ کرلان کو ’’کرлан بن سید قاف‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کا نسب حضرت امام حسینؓ تک پہنچاتا ہے۔
ان اختلافات نے کرlán قبائل کی سماجی شناخت پر بھی اثر ڈالا ہے جو مختلف علاقوں میں مختلف شناختیں پروان چڑھاتی ہیں۔ جو قبائل خود کو سادات کہتے ہیں، وہ مذہبی حلقوں میں زیادہ احترام حاصل کرتے ہیں، جبکہ خالص پشتون شناخت رکھنے والے قبائل اپنی نسلی برتری پر زور دیتے ہیں۔
ان کی نسب کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔ کچھ مؤرخین کرلان کو قیس عبدالرشید کی نسل سے نہیں بلکہ ایک الگ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہیں سڑبن کے ذریعہ جوڑا جاتا ہے جس کی نسل قیس عبدالرشید سے منسوب ہوتی ہے۔ یہ تضاد ان کی تاریخی شناخت کو دو الگ بیانیوں میں تقسیم کرتا ہے۔
کرلان کے بڑے قبائل میں خٹک، دلازاک، اورکزئی، اتمان خیل، آفریدی، خوبزی (خوگیانی)، منگل، وزیر، بنگش، شیتک اور موسیٰ زئی شامل ہیں۔ ان قبائل سے آگے مزید ذیلی قبائل وجود میں آتے ہیں جن کی تعداد ساٹھ سے زائد بتائی جاتی ہے، جیسے کہ صافی، توری، زازی، کوکی خیل، کاکاخیل، اکاخیل، سپاہ، قمر خیل، آدم خیل، ملک خیل، شلمانی، بازی خیل، درپہ خیل، بیتنی، سلیمان خیل، مشhton، مہندھ خیل، خوجک، ملک دین خیل، مندی خیل اور دیگر۔
ان قبائل کی زبان، رسم و رواج اور ثقافت میں بھی تنوع پایا جاتا ہے جو ان کی الگ شناخت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ کرلان کے تمام چھوٹے بڑے قبائل نسب کے حوالے سے دو بیانیوں میں منقسم ہو چکے ہیں، ایک بیانیہ یہ ہے کہ کرلان کے والد کا نام ’’بیان‘‘ تھا اور وہ اپنا شجرۂ نسب سڑبن سے جوڑتے ہیں، جبکہ دوسرا بیانیہ کرلان کو ’’کرлан بن سید قاف‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کا نسب حضرت امام حسینؓ تک پہنچاتا ہے۔
ان اختلافات نے کرlán قبائل کی سماجی شناخت پر بھی اثر ڈالا ہے جو مختلف علاقوں میں مختلف شناختیں پروان چڑھاتی ہیں۔ جو قبائل خود کو سادات کہتے ہیں، وہ مذہبی حلقوں میں زیادہ احترام حاصل کرتے ہیں، جبکہ خالص پشتون شناخت رکھنے والے قبائل اپنی نسلی برتری پر زور دیتے ہیں۔