Chitral Times - چترال کے مختلف علاقوں سے نشے کی لت میں مبتلا 24افراد کی پشاور میں سرکاری خرچ پر علاج اور بحالی کے بعد چترال آمد پر گریجویشن کی تقریب

گلوکار

Well-known member
سرکاری خرچ پر علاج اور بحالی کے بعد چترال آمد پر گریجویشن کی تقریب منعقد ہوئی جس میں لویر چترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 24 افراد کی نشے کی لت میں مبتلا ہونے پر گریجویشن کا پہلو لگایا گیا۔

ضلعی انتظامیہ اور سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ نے انہیں خاندانوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔ ان 24 افراد کو پشاور کے ایک معروف بحالی مرکز میں چار ماہ تک زیر علاج رہ کر مکمل بحالی کے بعد دوبارہ چترال لائے گئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر لویر چترال راؤ محمد ہاشم عظیم نے کہا، صوبائی حکومت کی گڈ گورننس کا عوامی ایجنڈے کے تحت منشیات سے پاک چترال کے تحت ان افراد کی بحالی کاکام شروع کی گئی تھی اور یہ خوش آئند بات ہے کہ یہ افراد بحالی کے بعد معاشرے کے لئے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، اس مشن کا اب نصف حصہ مکمل ہوگیا ہے جبکہ بقیہ حصہ مکمل کرنے میں متاثرین کے گھروالوں سے لے کر معاشرے کے ہر ایک فرد تک ذمہ دارہوں گے تاکہ یہ دوبارہ اس لت میں مبتلا نہ ہون۔

ضلعی انتظامیہ نے ان غازیوں کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے ان کے لئے معاشی سرگرمی شروع کرنے پر کام کررہی ہے جس میں این جی اوز کو بھی شامل کیا جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا، ضلعے کے حدود میں منشیات کی فراہمی کا راستہ مکمل طور پر روک دیا جائے گا اور اس بارے میں zero ٹالی رنس دیکھائی جائے گی۔

خضر حیات خان نے ان غازیوں کی طرف سے ایسے خیالات کا اظہار کیا جس سے یہ صاف ہوتا ہے کہ ایک اور لاکھ بھی اس طرح شہید ہوجائیں گے۔

ناصر احمد نے اپنی طرف سے کئی دیر کی محنت کا اظہار کیا اور جسے انہوں نے محنت کی، وہاں ان کے گھر بھی اسی طرح کا ایجنڈہ ہے جو سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے ڈسٹرکٹ افیسر کی taraf سے پیش کیا گیا تھا۔

شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان نے قرآن وحدیث کی روشنی میں منشیات سے معاشرے کو بچائے رکھنے اور نیکیاں پھیلانے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

اس موقع پر ای ڈی سی (جنرل) عبدالسلام بھی موجود تھے۔
 
علاقہ چترال کی یہ بات تو خوش آئند ہے کہ لوگ اپنے گھروں وطن لائے گئے ہیں، لیکن پچیس سالوں سے اس علاقے میں منشیات کی دوسرے طرف بھی یہ بات تو دیکھنا مشکل ہے کہ لوگ انہیں اپنے گھروں لانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں، لیکن اب تو یہ بات ٹھیک ہو گئی ہے اور لوگ اپنی آبائی جگہوں پر بحالی کرنے لاتے ہیں، ان کی معیشت بھی اچھی طرح شروع ہو گی، حالانکہ یہ سچ ہے کہ معاشی سرگرمی کی ضرورت نہیں بھی رہی تھی۔
 
بھائی چیرہ کیوں چیرہ کرتا ہے؟ پہلے ان کو بحالی کرلو، پھر ان کو گریجویشن کرایو! آج سے چار ماہ بعد بھی یہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہونے پر گریجویشن کا پہلو لگایا گیا، اس کے بعد ان کو ایک سال کے لیے گریجویشن کرنا پڑے گا؟ یہ تو کچھ حد تک سمجھ میں آتا ہے...
 
یہ واضح ہے کہ چترال کے لوگوں کو اس طرح سے گریجویشن کرایا گیا ہے جس کی وضاحت نہیں کرسکتی کیونکہ انھوں نے منشیات کی لیت میں مبتلا ہونے پر گریجویشن کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مینسفلت رہیں گے اور انھوں نے اپنے آپ کو پھینکن لیا ہے جس کی وضاحت کیسے کرنی ہو گی؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو 4 ماہ تک بحالی مرکز میں رکھا گیا اور اب وہ دوبارہ چترال آئے ہیں، یہ سچ ہے لیکن یہ کہنے کے لئے کہ اب انہوں نے اپنی زندگی کو منظم کر لیا ہے، یہ بات یقینی نہیں ہے کیونکہ وہ انڈسٹری میں کام کرنے کے لئے کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟

میری یہ questioned ہے کہ ہر غازی کو بحالی کرتے وقت انھیں ایک معاشی سرگرمی ملنے چاہئیے جس سے وہ اپنی زندگی کی پوری طرف سے محنت کر سکیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو انڈسٹری میں کام کرنے کا موقع مل گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے اپنی زندگی کی طرف سے محنت کریں گے؟
 
مریضوں کا اس منشپ کی لائہ دیکھ کر مجھے یہ لگتا ہے کہ ان کی زندگی ایک نئی آغاز کا پہلو ہے، جس میں وہ دوبارہ اپنی زندگی کو پہلے کی طرح کرتے ہیں۔

مریضوں کی بحالی کے بعد ان کی گریجویشن کا منشپ انھیں ایک نئے لطف جیسے محسوس ہوتا ہے اور یہ ان کی زندگی میں ایک نئی طاقت لاتا ہے جو انھیں اپنی زندگی کا لطف اٹھانے کا موقع دیتی ہے۔

سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ایسی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے، مجھے یہ لگتا ہے کہ اس ملک میں ان لوگوں کا لطف اٹھانا بھی جاری ہے جو مریضوں کی زندگی کو بچانے کی کارروائیوں کا حصہ ہیں، نئی زندگی کے پہلو میں ان کی مدد کرتے ہوئے۔
 
یہ خوش خامی واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ چترال میں ایسے لوگوں کی بحالی کی پورے ملک بھر میں سراہی جارہی ہے، لیکن اگرچہ یہ بات یقینی بن گئی ہے کہ ان افراد کو بحالی کے لئے اچھی طرح کی سہولت ملی ہو گی، لیکن اس میں یہ معاملہ بھی کھل کر لگایا جاتا ہے کہ اس لیے کیا ان لوگوں کو پہلی بار اس طرح کی صورتحال سے نجات ملان۔ اور ایسا کرنا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو اس طرح کی صورت میں بحالی کر کے انھوں نے نئی جان دی جائے تو یہ بھی بات یقینی بن گئی کہ وہ معاشرے کے لئے کارمے ہوسکے گا، لیکن پریشانی یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اسی طرح کی صورتحال سے دوبارہ مبتلا نہ ہون۔
 
یہ سچ مچہ اور خوش آئند کہیں یہ لوہر چٹرال کے غازوں کو بحالی کروایا جا رہا ہے جس سے وہ دوبارہ معاشرے میں شامل ہوسکتے ہیں اور ان کی مرادت کے مطابق کام کر سکیتے ہیں۔

یہ بھی اچھا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کی تعمیرات شروع کر سکیتے ہیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان گروہوں کو ایسے لوگوں سے منسلک کیا جائے جو ان کی زندگی میں بھی intervenت رہے ہیں۔
 
منشیات کی دوزخ کو ختم کرنے کا یہ اقدامہ صحت کے لئے ایک بڑی اچھی بات ہے۔ ان لوگوں کے گھروالوں سے لے کر معاشرے تک سب کو جوڑنا پورا میزبان کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس خطے میں ہی انki ہونے والی کارروائیوں سے پورا علاقہ منشیات سے پاک رہتا ہے تو یہ سب کو چھوٹا سا فائدہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کی زندگی میں ایک نئی امید لگتی ہے جو اس حقت میں اپنے گھروالوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
 
یہ خوش آئند بات ہے کہ چترال میں منشیات کی لہروں سے نمٹنے والوں کو بحالی کا کام مکمل ہو گیا ہے، لیکن یہ بھی بات قابل تجدید ہے کہ ان سے پہلے کیا تھا؟ چترال میں منشیات کی لہر کی وجہ سے ہزاروں لوگ سایہ رکھنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس نے ان کے جینس کو بھی نقصان پہنچायا تھا۔

لیکن اب یہ خوشی ہے کہ وہ لوگ بحالی پر آئے ہیں اور ان کی زندگی کو منشیات کی لہر سے آزاد کرنا ہو گا، لیکن ابھی بھی ان کو ایک پیداوار کے ذریعہ معاشی سرگرمی ملانی ہوگی جو انہیں بحالی پر رہنے کی زندگی سے بھی پاک کر سکے گی۔
 
یہ خوش آئند بات ہے کہ چترال میں بحالی کے بعد غازیوں کی گریجویشن کی تقریب منعقد ہوئی، لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک سال بھر کے لئےHospital میں رکھنا پڑا۔ یہ سارے ناقص ہیں، اگرچہ اس پر حکومت کو سراہنا چاہئے لیکن یہی بات تھی کہ جس گریجویشن کی تقریب منعقد کی گئی تو پوری دنیا کے سامنے 24 افراد کی نشے کی بتہ کھلی ہوئی، اور وہاں تک پہنچنے سے قبل ان کو ایک سال بھر تک Hospital میں رکھنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غازیوں کی گریجویشن کی تقریب منعقد ہوئی، لیکن وہاں تک پہنچنے سے قبل ان کو ایک سال بھر تک Hospital میں رکھنا پڑا۔ یہ سارے ناقص ہیں.
 
اس کا معیار ان لوگوں کو حاصل کرنا چاہئے جس نے یہ شہدت کیا ہے، اس طرح ان کی پوری زندگی اچھی طرح سے بحالی ہو جائے گے۔
 
میری نظروں کو اس دھول سے پاک چترال کا دیکھنا تو اچھا لگتا ہے لیکن مجھے یہ سوالتا ہے کہ ایسے لوگوں کی پہلی پہچان ایک کامیاب بحالی سے کی جائے یا انہیں گریجویشن کرایا جائے؟ 🤔 اور یہ بھی کیا ان کی فوری بحالی کی ضرورت ہوگی یا ان پر کوئی معاشی سرگرمی کی پوزیشن دی جائے گی؟ مجھے اس بات کی توجہ دینا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو بھی اپنی زندگی سے منسلک کرنا ہوگا اور انہیں کسی طرح کے معاشی رستے پر چلنا ہوگا جو ان کی زندگی کو اچھا بناسکتا ہو.
 
یہ تو آجکل ایسا لگ رہا ہے کہ لویر چترال کے غازیوں کو دوسرا سانس لینے کی بھی پوری ممانعت کر دی گئی ہے... اچھا تو ان کے گھر بھی پورے ہیں کہ وہ اس معاشی سرگرمی میں ناکام نہ ہوں... لاکھوں روپوں کا خرچ کرکے ان کو بحالی کی کامیابی سے قبل ہی دوسرا جوتہ چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں... اور اب یہ بات کہی نکل رہی ہے کہ ان کا گھر بھی ایسے ہی ہوگا... پورے معاشرے کے لئے اچھا ہے، لیکن یہ بات تو بتنی چاہیے کہ ان غازیوں کو پہلے اپنے گھروالوں کی مدد سے دوسرا سانس لینے کی اور اس معاشی سرگرمی میں بھی ناکامی ہونے کی کوشش کرنے دی جائے...
 
یہ بات کئی بار کہی جاتی ہے کہ پہلی دفعہ سے بحالی اور معاشرے میں واپسی کی کوشش کی گئی، لیکن اس صورتحال کو حل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اگر سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ نے اپنی مہم کو بہتر بنانے کا جذبہ دیکھا ہوتا تو یہ نصف حصہ بالکل اچھی طرح سے مکمل ہو جاتا۔ اب کی صورتحال میں ان غازیوں کو اپنے گھروں میں براہ راست واپس بھیجنا ضروری ہوگا جبکہ معاشرے کے تمام افراد انہیں اپنی زندگیوں کی پھیری میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ یہ دوبارہ ایسے حالات میں نہ پڑے جو قبل سے بھی ہوئے تھے۔
 
یہ سب توحید کی بات ہے! چترال آمد کے بعد گریجویشن کی تقریب منعقد کرنا ایک بڑا کامیابی کی تاریخ ہے۔ ان 24 افراد کی بحالی کے بعد دوبارہ شہر میں آکر ان کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے معاشی سرگرمی پر کام کرنا بھی ایک اچھا نچوڑ ہے۔ اب تو سڑکوں اور گلیبوں میں سب کو ایسے لینے کی ترغیب دی جائے گی کہ وہ اپنی زندگی کو بھرپور بنانے کے لئے اپنے نوجوانوں پر عمل کر سکیں گے. 🌟
 
جس طرح یہ گریجویشن کئی ماہ تک منعقد رہا، میں سوچتا ہوں کہ ان تمام لوگوں کی بحالی سے بعد میں کیا ہوا گئے گا؟ یہ بات تو یقیناً چترال کے معاشرے کے لئے منفی مہیا ہوگی، نہیں تو اسی طرح کی غلطیاں ہوگیں جس سے ان لوگوں کو گریجویشن دیا گیا تھا؟

علاج کے بعد بھی ان لوگوں کو معاشی سرگرمی دی گئی، لیکن یہ بات نہایت suspicions رکھتی ہے کہ اس کی واضح منصوبہ بندی کیا گیا تھا؟ اور ان لوگوں کے گھروالوں سے بھی یہ علاج کرنے والے معاشی سرگرمی کی وضاحت کی جا رہی ہے؟

یہ سچا ماجا ہے کہ پوری یہ کوشش ان لوگوں کے لئے ہو رہی ہے جو ان کی نشے کی لت میں مبتلا ہو کر گریجویشن دیا گیا تھا!

ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرے کو بدلنے کے لئے اچھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ بات بھی ہمیں ملتی ہے کہ معاشرے میں بدلाव رہتا رہا کرنا مشکل ہوتا ہے!
 
میں اس پر سوال کرتا ہوں، ان افراد کو وہی غرض اور لچک سے دوڑایا گیا ہے جو انہیں پہلے دھکیل دیا گیا تھا؟ اس طرح سے انہیں دوبارہ بحالی کیا گیا ہے۔ اور یہ بات کوئی بات نہیں، وہ لوٹر گروپوں کی طرف سے اس طرح سے غرضیوں میں مبتلا کیا گیا تھا اور اب انہیں دوبارہ ان میں مبتلا ہونے پر گریجویشن کرایا گیا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے، کس نے ان لوٹر گروپوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد کی اور کس نے انہیں منشیات سے محروم کیا؟
 
یہ بات کتنی اچھی ہے کہ لویر چترال کی یہ غازیاں اپنے قومی احساس کو محسوس کر رہی ہیں اور ان کی بحالی سے اس خطے کی ترقی ہوتی ہے؟ اب کچھ لوگ تھوڑی دیر سے چترال گئے تو وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی طرف بھی جائیں! یہ لوگ جب پہلی بار چٹرال آئے تو انہوں نے دیکھا تھا کہ وہاں کتنی ایسے جگہیں کی مٹی ہے اور انہوں نے سونا شہرت حاصل کرلی!
 
یہی بات اچھی تھی، مگر جب میری آنے والی ناک عام ہوئی تو ان لوگوں کی جان کا خطرہ سمجھ کر اس وقت تک آگے بڑھنا مشکل ہو گیا تھا جب تک ان کو گھروں میں آئے اور انہیں ایک نئا زندگی کی راہ دکھائی دی گئی۔
 
جب تک میں کچھ بھی ہوتا رہتا ہے، پھر بھی یہ خوش آئند بات ہے کہ چترال میں بحالی کی کارامتی سے لیٹے ہوئے لوگ اپنی جائیدادوں پر واپس آ رہے ہیں۔ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کی بحالی میں معاشی سرگرمی اور مختلف معاشرتی سرٹیفکیٹز شامل ہو رہے ہیں جس سے ان کے گھروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

لیکن ابھی بھی یہ بات حقیقت میں پتا نہیں ہو سکی گا کہ ان لوگوں کے گھروں کی بحالی کیسے ہوئی ہے اور ان کے معاشی سرگرمیوں میں شاملا ہونے والے نئے منصوبوں کو کیسے کام کرنا ہے?
 
واپس
Top