وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی نے یونیورسٹی آف پشاور کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کرکے طلبوں کے تعلیمی ماحول پر توجہ دی اور انہیں اس مقام پر ایسی تجاویز پیش کیں جس سے جامعہ کی مالی خودکفالت بڑھ سکے۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وفاق میں بیٹھے کرپٹ ٹولے نے 5300 ارب روپے کی تاریخی کرپشن کی، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر قابض کرپٹ ٹولے نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور اس نے عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے سے روک دیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے انہیں ایسی تجاویز پیش کیں جس سے اسے انہیں اپنی معاشی پالیسیوں میں ملازمت کرنا ہو، اور انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کیے جا رہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کی طرف سے صوبے کے حقوق بروقت مل جائیں تو فلاح و ترقی کا جاری سفر مزید تیزرفتاری اور بہتری کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صوبے کے آئینی اور جائز حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور عوام خصوصاً نوجوانوں کو بھی آواز بلند کرنا ہو گا۔
انہوں نے جسمانی ایکٹیوم سے استفادہ کیا اور انہیں اس میں معاشی معاونت فراہم کرنے پر زور دیا، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ نہایت ضروری کیاجوگا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انہیں اپنی معاشی پالیسیوں میں ملازمت کرنا ہو اور اس لیے انہوں نے انہیں ایسی تجاویز پیش کیں جس سے اس کو اس میں اچھی جان لگے۔
انہوں نے بہت سارے اقدامات کا اعلان کیا جنہیں انہوں نے معاشی معاونت فراہم کرنے کے لیے پیش کیا، جو ڈیبیٹس منعقد کرنے، سولرائزیشن کے ذریعے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکالرشپس اور خصوصی مالی پیکجز میں اضافہ کرنے پر زور دیا۔
سائنسدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ ڈیٹا اور شعبہ جات کی پیمائش سے بھرپور معلومات حاصل کر سکتے ہیں جن سے انہیں معاشی نظام میں تبدیلی لानے کے لیے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جس سے وہ یونیورسٹی آف پشاور کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، انہیں اس بات پر عمل کرنا چاہئے کہ وہ معاشی معاونت فراہم کرنے سے قبل انkiپل مینٹس کی وہیں جگہ لینے کو قائم کریں، اس سے ان کی تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلی آئے گا اور یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ معاشی معاونت کی ایک ناقابل تسخیر ضرورت ہے।
اس کروپشن کی بات سے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کی معاشیات کو پورا نہ دے گی، اگر یہ کروپشن اس kadar ہر کیس میں پھیل جائے تو وہ ہی معاشرے پر متاثر کرے گا جو کمزور اور غلبہ نشین ہوں گے، آج بھی پاکستان کی معاشیات میں غلبہ کے حامل نوجوان کی سڑک ہے اور ان کی پریشانی ایسی ہی رہے گی۔
اس وقت ملک کی معاشی حالت بہت بدل رہی ہے، کرپشن کا خمیازہ دیکھنا بہت مشکل ہے، ڈیرے چاروں طرف سے لاکھوں روپے کی جھادیں دکھائی دے رہی ہیں، پھر بھی عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ ہوتا رہا، اور اس سے نکل کر صوبے کی معاشی صورتحال بہت بدلتی رہی ہے، یوں پھر ایسے سیکٹرز میں معاونت فراہم کی جائے جو ان کے لیے کام آئے، اور وہ یہاں تک اچھی صورتحال کا مظاہر ہو سکیں، اس لیے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنا چاہیے، اور اس سلسلے میں ڈیبیٹس منعقد کرنا، سولرائزیشن کو بڑھانے اور نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کرنا ضروری ہے، یہ سب معاشی معاونت فراہم کرنے کی تجاویز میں شامل ہیں جو انہوں نے وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی کو پیش کی ہیں۔
ਮੈں تو یہی سمجھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز میں معاشی پالیسیوں میں ملازمت کرنے کا خیال ان کے لئے ایک اچھا واضح طریقہ ہوگا، لیکن سیکڑوں ملین روپے کی کرپشن کے واقعے نے لوگوں کو اس پر Serious توجہ دینے میں مجبور کیا ہوگا।
یہ رہتا ہے کہ جتنا ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ اچھے نتیجے کے ساتھ نکل پئے گا، لیکن اس کے لئے ایسی معاونت کو یقینی بنانا ضروری ہوگا جو اس میں ملازمت کی صلاحیت کو ظاہر کر سکے۔
اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ عوام کا پیسہ صرف فلاح و ترقی پر خرچ کرنا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس میں بھرپور طور پر اقدامات کیے ہیں۔
میں انہیں یوں سمجھتا ہوں کہ وفاق کی طرف سے صوبے کے حقوق بروقت ملنا ایسا تو ضروری ہے لیکن اس پر عمل کرنے کا راستہ بہت گمگین ہے. میرے خیال میں حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں تبدیل نہیں ہو جائے اور ان سے کوئی بھی معاشی پالیسی ایکٹ کرنے پر مجبور نہیں ہو سکے. اس لیے صوبائی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں میں ملازمت کرنا ہوگا اور وہ عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے پر یقین رکھنی ہوگی. اگر انہیں اس بات کو یقینی بنایا جائے تو فلاح و ترقی کا سفر مزید تیزرفتاری اور بہتری کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے.
اس کی بات تو توثیق ہوئی ، وزیراعلیٰ کیسے ایسا بتا سکتے ہیں کہ وفاق کی طرف سے بیٹھ کرپٹ ٹولے نے اس قدر پیسہ پکایا؟ اور عوام کا یہ پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ ہو رہا ہے؟ یہ تو توڑنا توڑ کر تھکا ہو گا...
اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس کے چارے پانچ طرف سے کھلا چارہ کرنا ہوگا ، اور یہ بھی توہانہ ہونے دوغہ۔ یہ سب کوئی نہ کوئی چوری ہوگی...
یہ بھی پتا چلا ہے کہ وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی آف پشاور کی طرف سے معاشی معاونت فراہم کرنے پر زور دیا اور اسے اپنی معیشت میں مدد مل سکتی ہے . اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ معاشی معاونت سے کسٹمز کی چوری یا کھوٹ پھولنے والی معیشتوں کو بچانے میں مدد دے گا، بلکہ اسے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کو روزگار کی hopes milne ko madad milegi . اور یہ بھی اچھا ہے کہ وہ اسکالرشپس میں اضافہ کر رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی زندگی کی planning کرنے کے لیے اچھا سہارا مل سکے .
وزیراعلیٰ کی یہ وادع سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ حقیقت پر چل رہے ہیں، لیکن ان کی تجاویز میں بھی ایسی گٹھ جوڑیں ہیں جس سے انہوں نے پہلی بار اس مقام پر آئے ہوتے ہوئے اپنے انتخاب کا تعرض کیا ہو گا۔
انھوں نے یونیورسٹی کی مالی خودکفالت پر زور دیا ہے، لیکن اس موضوع کو ایسی سے نہیں تھپثپ کیا ہوا ہے جیسا ہم آج نے دیکھا ہے۔
ان کی تجاویز میں ملازمت کرنے پر زور دیا گیا ہے، جو ایک پہلواں کام ہی ہے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ صوبائی حکومت عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے پر یقین رکھتی ہے، لیکن اس بات کو یقینی بنانا پہلے ان کے انتخاب میں بھی ایسا پتہ نکل گا کہ وہ کیسے کام کرنے کی یقین رکھتے ہیں۔
سچمے تو وزیراعلیٰ آفریدی نے یونیورسٹی آف پشاور کی بات پر توجہ دی اور انہیں ایسی تجاویز پیش کیں جس سے اسے اپنی معاشی پالیسیوں میں ملازمت کرنا ہو .اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے سے روک رہے ہیں۔ لگتا ہے ان کا مقصد صرف معاشی معاونت فراہم کرنا ہو گا تو اس سے عوام کی فلاح و ترقی کچھ نہ کچھ ہو گا۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ کی ان تجاویز سے وہ کیا پاتے ہیں؟ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرونا ہی پورا ہوگا، چلنا ہی پورا ہوگا اور پاکستان کی معیشت کو بھی اس طرح ہی سہارا مل جائے گا
ایسے ہی، وزیراعلیٰ کی یہ وضاحت بھی اچھی لگتی ہے کہ وہ عوام کو اس بات سے مطمئن رکھنا چاہتے ہیں کہ وفاق کی جانب سے انہیں ملازمت کرنا ہو، لیکن یہ بات بھی پچتی ہے کہ اس سے عوام کی پوری ایسٹیمینیشن تک پہنچ نہیں سکتی ہے! یہ بھی دیکھنی چاہئیے کہ وفاق کی جانب سے کیا ہوا تو وہی ہوتا ہے، لیکن عوام کو اس سے پتہ نہیں چلا کہ وہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ ساری بات کھیل میں لازمی ہوتی ہے۔
اجازت دی جاتی ہے کہ اسکالرشپس اور خصوصی مالی پیکجز میں اضافہ کرایا جائے، لیکن عوام کو پوچھنا چاہئیے کہ اس سے ان کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ یہ بھی ہے وہ معیشت جو میرے دوسرے لوگوں پر رکاوٹ پڑتی ہے، اور وہی ہے جو مجھ کو اپنی جگہ سے باہر کا محسوس کراتا ہے۔
یہ پورا ماحول ایک واضح عمیق نرmetic ہے، یہاں سے کوئی بھی اچھا نتیجہ نکلنا کیسے، جو لوگ معاشیات کی پالیسیوں میں ملازمت کر رہے ہیں ان کے دل میں یقین کس کی دھارنی ہے؟ وہ بہت سے لوگ تھر ڈننگ کی جاتے ہیں اور محض ایک نئی پالیسی پر چڑھتی ہیں، حالات یوں نہیں ہوتے کہ کچھ لگ جائے کچھ لگے، یہاں ایک سے اور پوری دنیا میں دیر ہوتی ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یونیورسٹی آف پشاور کی معاشی دیکھ بھال پر وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اچھا خیال کیا اور انہوں نے طلبوں کو اس مقام پر ایسی تجاویز پیش کیں جس سے جامعہ کی مالی خودکفالت بڑھ سکے۔
لیکن یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے وفاق میں بیٹھے کرپٹ ٹولے کی جسمانی اہمیت پر زور دیا اور اسے ساتھی لینے کو چاہا اور یہ رائے کیسے اچھی ہوگی؟
انہوں نے بھی ایسی تجاویز پیش کیں جس سے عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کرنے سے روک دیا گیا اور یہ رائے کیسے اچھی ہوگی؟
جیتنا پہلے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ فلاح و ترقی کے ساتھ تیزرفتاری اور بہتری کی سرزنش پر وزیراعلیٰ نے زور دیا لیکن اس کے پاس کوئی حل نہیں ہوا؟
ہوا کی چادنی ایسا ہے جس کے بغیر پاکستان نہ ہو سکتا ، اور اب وہ چادنی بھی ہے جس نے ملک کو آگ لگائی ہوئی ہے اور اس کے ماحول کو بدلنا ہوا ہے
وہ جس میں ایسی تجاویز پेश کی جاتی ہیں وہ ہی ایسا ہوتا ہے جو ملک کو اچھی جان لگاتا ہے اور اس کے ماحول کو بھی بہتر بناتا ہے، یوں ہی وہ چادنی ہے جس سے ملک کو آگ لگائی ہوئی ہے اور اب اس کی جان لگا کر پورا ملک بھگو رہا ہے
علاوہ ازیں، یہ بات بہت عجیب ہے کہ جب وزیراعلیٰ پھر سے معاشی معاونت فراہم کرنے پر زور دیتے ہیں تو کیا انہوں نے اس میں کوئی اچھی طرح سے سائنس کیا ہے؟ کبھی کبھار یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ معاشی معاونت کس قدر مشکل ہوتی ہے اور اس میں پورا وقت سچائی اور ذمہ داریوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔
اس کپ شاندار تھیم ویزلز ہوئے نہیں؟ یوں کہیں اور پھر اس کپ میں بھی انھیں لگے ہیں تو چھوٹا سا کرپشن وائس بھی شامل ہوجاتا ہے؟ مگر یوں تو انھیں ڈراپ ٹولز کی پوری جملت فراہم کرنا ہوگا اور انھوں نے بھی اس کے لیے ایک واضع چلاو لگایا ہے تو کیا انھیں یوں کی گئی کرپشن میں بھی ملازمت دینا پڑ جائے گی؟
یہ واضح ہے کہ وزیراعلیٰ کی یہ پریشنٹی نے طلبوں کو دلچسپ سہara دیا ہو گا اور ان کو ایسی تجاویز دی گئی ہوں گی جو انہیں اپنے تعلیمی ماحول کے بارے میں واضح فہم حاصل کرائیں گے۔
لیکن، ان توجھوں کی پیروی سے پوری ملک کو ہمدردی اور ایمانت کا شکار ہونے پر مجبور کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی سوچنی چاہیے کہ ان توجھوں کو کیسے لگائی جائے گا اور اس سے ملک میں کس طرح فلاح اور ترقی ہوسکتی ہے؟
ان توجھوں کو پوری کروتنے سے قبل، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ وفاق کی طرف سے صوبائی حکومت کے حقوق اور ملک پر قابض کرپٹ ٹولوں نے کس طرح نقصان پہنچایا ہے۔