وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے صوبے کے سرکاری سکولوں میں چھٹی جماعت سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے۔آئی) کے کورسز متعارف کرایہ ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے اور مطلوبہ وسائل ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مستقبل کی معیشت، تعلیم، صحت اور انتظامی نظام میں مصنوعی ذہانت کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
صوبے کے بچوں اور نوجوانوں کو اے آئی کی تعلیم دینا دراصل انہیں مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تعلیم سے نوجوانوں میں تخلیقی سوچ اور عالمی معیار کی مہارتاں پیدا ہوں گی۔
وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے نئی آسامیاں تخلیق کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ صوبائی حکومت تعلیم کے شعبے کے فروغ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے سرکاری سکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کی حاضری یقینی اور نتائج کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے حکام کو سرکاری سکولوں کے اچانک دورے کرنے اور کارکردگی کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔
وزیر اعلیٰ نے ساتھ ہی محکمہ تعلیم کے ذیلی اداروں بشمول تعلیمی بورڈز کے تحت پرنٹنگ اور اسٹیشنری کی خریداری کے لیے ٹینڈرز سے متعلق انکوائری کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعلیٰ نے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم سے گرلز گائیڈ فنڈ اور سکاوئٹس فنڈ سے متعلق تفصیلی ڈیٹا فراہم کرنے اور ان فنڈز کو اسٹریم لائن کرنے کے لیے میکینزم تیار کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعلیٰ نے اساتذہ کی پوسٹنگ ٹرانسفر، لیو انکیشمنٹ، پروموشن سمیت تمام امور ڈیجیٹل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ڈیجیٹائزیشن سے اساتذہ کو سرکاری دفاتر کے چکر لگانے سے نجات ملے گی۔
ایسے نئے دور میں جب مصنوعی ذہانت کی ترقی ہو رہی ہے تو بچوں اور نوجوانوں کو اس کا تعلیم دینا بہت اہم ہے۔ یہ سیکھنے سے انہیں مستقبل کی معیشت، تعلیم اور دنیا میں کام کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہنی چاہیے۔
لگتا ہے کہ ضم اضلاع کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے نئی آسامیاں تخلیق کرنا بھی ایک اچھا قدم ہے۔ ساتھ ہی صوبائی حکومت تعلیم کے شعبے میں تمام وسائل بروئے کار لانے کی یہ پوری کوشش بھی انہوں نوجوانوں کو مستقبل کی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار بنانے میں مددگار ثابت ہوگئی ہو گی۔
یہ واضح طور پر ایک بڑا قدم ہے جس پر پھر سے فیکلٹی کی تعلیم اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سرگرمی ہو رہی ہے۔ مگر یہ سوال ہے کہ اس کا سچا منفعت کس لئے ہوسکتا ہے؟ ہم نے اپنے بچوں کو ابھی کچھ اور اچھا کیا ہے، اب وہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے کے لئے ہیں؟
اس طرح کی تعلیم سے ہم نے اپنی بچپنا بھی اچھی طرح دیکھی ہوگی، مگر یہ بات بھی توجہ دی جانی چاہئے کہ اس کو ایک معقول طریقے سے کیا جائے۔
ایسے میں، وزیر اعلیٰ کی یہ فیصلہ ایک بہتر چیز ہو گا، لیکن اسے پورا کرنے کے لیے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ آئی اے کی تعلیم دینے سے نوجوانوں کو ان کے مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت ملے گی۔ لیکن اس کے لیے اچھی طرح کے معیار کے ساتھ تربیت دینے کی ضرورت ہوگی، نہ کہ صرف ٹیکنالوجی سے ہی۔
یہ واضح ہے کہ آج کی تعلیم سے نوجواناں مستقبل کے چیلنجز کو کیسے بھرنا پڑے گا؟ آئی اے کورسز متعارف کرایا گیا ہے تو ابھی تو صوبے میں وٹنگ کی بھی پھوری ہوگی، اور اساتذہ کو بھی ڈجئیشن سے نجات ملے گی؟ ہم کتنا یقین رکھیں گے کہ یہ تعلیم نوجوانوں کو ایسا بنائے گی جو دنیا کے لیے ہزاروں چیزوں کو حل کر سکیں گے؟
تھنا یہی جگہ ہے جہاں وہ لوگ آئندہ مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ نے فیکٹریز اور مینوں کی پڑھائی دینا شروع کر دیا ہے۔ بچوں کو مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تعلیم دینا تو یہی بات ہے، لیکن اس سے لڑکے بھی اپنی فیکلٹی میں آئندہ دنیا کی چیلنجز کو جاننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔
ہم نے سبسک्रائب کیا تو اب ہر کچھ ڈिजٹل ہو گیا ہے، اساتذہ کے لئے بھی ڈیجیٹل ہو جانا چاہیے، لہذا وہ ایسے طریقوں سے کام کر سکتے ہیں جو ان کے لئے آسان ہو اور نہیں کہ وہ پاپولر ہتھوں پر چلنا پڑ سکیں۔
ايسے تو یہ جانتے ہیں کہ پختونخوا میں بھی صحت کی ایک نیا دور شروع ہو گا... لیکن کیا ہمیں یقین ہوگا کہ یہ کورسز اساتذہ اور طلبہ دونوں کو حقیقی مصنوعی ذہانت سے بھرپور جسٹ سے ملا دو گا؟ آئی۔
یہ بہت اچھی خبر ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی یہ تحریک آگے badh rahi hai. ابھی تو اساتذہ کی کمی کا ایسا مسئلہ ہو رہا تھا جس سے لاکھوں بچوں کو تعلیم نہ مل سکتی تھی اور اب یہ وزیر اعلیٰ کی وہی تحریک کہتے ہوئے ایک اور بڑا قدم ڈال رہے ہیں. آئی این کی تعلیم سے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مہارت اور تخلیقی سوچ میں مدد ملے گی جس سے انki future bright hogi.
ایسا تو فیکس ہوگا، اب بھی کیپٹن آفریدی کی حکومت نے ذہنی کمزوریوں پر غور کرنے کا وقت ہے؟ اے آئی کورسز متعارف کرائے جانے کے بعد بچوں میں ذہین نوجوان بننا ہے، لگتا ہے ان کی ذہنی کمزوریاں ہی تو پورا کھیل چکی ہیں
یہ بہت اچھی ریکارڈ کی جائے! وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے صوبے کے سرکاری سکولوں میں آئیٹی کی تعلیم متعارف کرایا ہے۔ یہ بہت اچھا Move ہے کیونکہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کو آئیٹی کی تعلیم دی جائے گی۔ مزید یہ کہ اساتذہ کی پوسٹنگ ٹرانسفر، لیو انکیشمنٹ، پروموشن سمیت تمام امور ڈیجیٹل کرائیے جائیں گے۔ یہ بہت اچھا Move ہے اور اس سے تعلیم کے شعبے میں ترقی ہوگی۔
ابھی تو انسائکلوپیڈیا میں بھی آئی آئی کی پوری معلومات نہیں ہوتی، اب وہ سرکاری سکولوں میں بھی چل رہی ہے! تو سچ مچ چھٹی جماعت کا کورس سرکاری سکولوں میں شامل کرنا اور اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی آسامیاں تخلیق کرنا ایک بہترین کارروائی ہے!
بچوں اور نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کی تعلیم دینا انہیں مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے بہترین طریقہ ہے! تو اس سے نوجوانوں میں تخلیقی سوچ اور عالمی معیار کی مہارتاں پیدا ہونگی!
لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو انسائکلوپیڈیا میں بھی پڑھنا چاہئے اور نئی tecnolodgies پر ٹریننگ دے کر نوجوانوں کو تیار کریں!
جھوٹے منظر میں جب بھی جدیدITYا کا ایک نئا ستارہ ہوا تو لوگ اس کو نئی کامیابی کی لہر سے مشغول ہوتے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا تعلیم اور اساتذہ کو بھی پرانے طریقوں سے نکلنا ہوگا تو دیکھیئے! لیکن یہ جگہ نہیں، جس میں جس نے اپنی کامیابی کی لہر سے لچکھی ہے وہ اسی لہر کو پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اسے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
عجیب عجیب یہ بات ہے کہ اب ہمार بچوں کو مصنوعی ذہانت کی تعلیم دی جارہی ہے! یہ تو مستقبل کی معیشت کے لیے حقیقی تھیم سے ہے، چاہے وہ ایسے ڈگریز کیا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے ان کو کچھ نہ کچھ فٹ رہے اور پھر ڈیجیٹلائزیشن کے بعد انہیں اپنی جگہ سے باہر کر دیا جائے!
یہ ٹھیک ہے کہ اے آئی تعلیم دی جائے تو آگے بڑھنے کی ذمہ داریاں بھی ضرور ہوگیں...لیکن پہلے یہ سوچنی چاہیے کہ اس سے ساتھ ساتھ اچھی طرح کا منظم کیمپس بنایا جائے جہاں بچوں کو مفت میں انٹرنیٹ کی فیکلٹی بھی ہو...جس کی وеб کاسٹنگ سسٹم بھی ہو جہاں اے آئی پروگرام کے لئے علاویت دی جا سکے...اس سے اساتذہ کو ایک ڈیجیٹل منظم ہاؤس میں ڈھونڈ کر نہیں پھینکیا جائے اور ان کا کارکردگی کی ریکارڈ بھی دیکھا جا سکے...اس سے محکمہ تعلیم کو اپنی پوری ذمہ داریوں کے مطابق کام کرنے میں مدد ملے گی...
اسسائنٹez! یہ بھی کچھ ہے جو میں سوچ رہا ہوں، حکومت نے بچوں کی تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا کردار اور اس سے ہونے والی فرائض کو کم کرنے کی پالیسی متعارف کرائی ہے لیکن انہیں بھی فیکلٹیز میں چھوٹی سی جگہ مل گئی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ آسٹریلیا یا امریکہ کے شعبے ہی اپنے بچوں کو مصنوعی ذہانت کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔
یہ تو واضح ہے کہ صوبے کی حکومت بھی مصنوعی ذہانت پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے، پھر کچھ دنوں سے اس کی بات کرتے آ رہے ہیں اور اب وہ کسی حقیقی منصوبے پر قدم رکھتے ہیں۔ چھٹی جماعت سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے کورسز متعارف کرائے جانا تو بالکل اچھا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے بھی حکومت کو کافی اہمیت دی جانی چاہیے تاکہ اس منصوبے کا یقین کیا جا سکے۔
یہ واضح ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا نے اسکولوں میں مصنوعی ذہانت کی تعلیم متعارف کرائی ہے تاکہ نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں۔ یہ بہت اچھی جان بُجھ ہے، کیونکہ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی سے لگا رہنے کے لیے تیار کرنا چاہئے تاکہ وہ دنیا میں بھرپور ہو سکیں۔
لیکن اب یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اسے کس طرح پورا کیا جائے گا؟ اور اس کی پوری وجہ سے کیا نتیجہ نکلا گيا? اس پر واضح جواب ملنا چاہیے، تاکہ لوگ یہ سمجھ سکیں کہ انہوں نے کیا اور مستقبل کی کس طرح پلیانی ہے۔
یہ بات بھی باریک ہوگی کہ بچوں اور نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کی تعلیم دینا انہیں مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کا واحد Means ہوگا… یہ بھی ضروری ہے کہ اے آئی کی تعلیم سے نوجوانوں میں تخلیقی سوچ اور عالمی معیار کی مہارتاں پیدا ہوں گی…
ایسے تو آئی ای ٹی کورسز بچوں کو کیا فائدہ دے گا؟ آج کل کی دنیا میں فیکٹری، کاروبار اور ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت کا کردار موجود ہے، نوجوانوں کو بھی ایسے ٹالے کی ضرورت ہے۔