وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی آمن جرگہ سے خطاب جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل ملنا چاہیے، یہ واضح ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کے عفریت سے نصف صدی سے لڑ رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس کی ایک پائیدار، جامع اور مستقل حل نکالا جائے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کی یہ کوشش تمام سیاسی جماعتوں، تمام طبقات اور اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کاوش ہے جب دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو وہ نہ کسی جماعت کو دیکھتا ہے نہ کسی مکتبہ فکر کو اس لیے ہمیں متحد ہو کر ایک ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو سب کے لیے قابل قبول اور دیرپا ہو۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ بند کمروں سے نکل کر تمام سیاسی رہنماوں، سیکیورٹی فورسز، سول سوسائتی اداروں اور ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں کو اعتماد میں لے کر ایک مشترکہ اور حقیقت پسندانہ پالیسی تشکیل دی جائے کیونکہ جو لوگ اس بد امنی سے متاثر ہو رہے ہیں ان کو اعتماد میڑے بغیر کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، سیکیورٹی فورسز، پولیس، سیاستدانوں اور عوام سب نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے لیکن امن کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے۔
انہوں نے وفاق سے مالی اور آئینی حقوق کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ فاٹا کا انتظامی انضمام تو مکمل ہو چکا ہے لیکن مالی انضمام تاحال نہیں ہوا اور اگر ضم شدہ اضلاع کو مالی طور پر خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے تو صوبے کا حصہ تقریباً 400 ارب روپے بنتا ہے جو وفاق کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کے لیے 100 ارب روپے سالانہ کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اب تک یہ رقم نہیں دی گئی ہے جس سے صوبے کا حصہ تقریباً 500 ارب روپے ہوتے ہیں۔
انہوں نے نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی مد میں وفاق پر صوبے کے 2200 ارب روپے واجب الادا ہیں جو اب تک نہ دی گئی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو بجلی، گیس اور وسائل فراہم کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس جائز حق کو حاصل نہیں دیا جا رہا، یہ رویہ خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا ہے جو کسی طور پر قابل قبول نہیں۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی آمن جرگہ سے خطاب میں ان کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل ملنا چاہیے، لیکن وہاں دہشت گردی کے عفریت سے نصف صدی سے لڑ رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس کی ایک پائیدار، جامع اور مستقل حل نکالا جائے۔
لیکن یہ حقیقت یہ ہے کہ امن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے #انساف_بھرپور_حالیات
انہوں نے کہا کہ آج کی یہ کوشش تمام سیاسی جماعتوں، تمام طبقات اور اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کاوش ہے جب دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو وہ نہ کسی جماعت کو دیکھتا ہے نہ کسی مکتبہ فکر کو اس لیے ہمیں متحد ہو کر ایک ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو سب کے لیے قابل قبول اور دیرپا ہو۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاق کو اپنے حقوق کو حاصل کرنا ہوتا ہے #وفاق_آدھار_سٹی
انہوں نے کہا کہ Bundy پرافٹ کی مد میں وفاق کو صوبے کے 2200 ارب روپے واجب الddaہ ہیں جو اب تک نہ دی گئی ہیں، یہ رویہ خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا ہے جو کسی طور پر قابل قبول نہیں۔
ایسے تو ہونا چاہیے کہ وفاق اور صوبے ایک دوسرے کے ساتھ بھالپن کی لڑائی کرتے رہیں #دوسروں_سے_ہلچل
لیکن اس وقت تک یہ کوشش جاری رہنی چاہیے تاکہ خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل مل سكے
آج کی ان آمنی کی کوشش میں، یہ بات بہت اچھی ہو گی کہ اس وقت تک کوئی دیرپا حل نہیں مل سکتا جب تک انٹرنیشنل کمیونٹیز اور ایجنسیاں اپنی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بھی اس میں ہمیشہ اچھے کوشिश کریں۔
سورج کی کچھ دیر پہلے آئے گے؟ مینے تو کہا تھا کہ میں کھانا بنا رہا ہوں، نہیں ایسا آیا… کیا خیبر پختونخوا کے لوگ اپنے انٹرنیٹ بڑھانے کی جوجل کر رہے ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جب تک بھی اپنے انٹرنیٹ بڑھایا ہے وہ سب فری لائس ہوگئے… اور اب وہ کیسے پہنچ رہے ہیں؟
اس وقت تک کی باسیاں اس بات کو توئیس کر دیتی ہیں کہ خیبر پختونخوا کا امن حل کب ملے گا؟ میرے لئے یہ ایک واضح سوال ہے، اور اس سے جو جواب ملتا ہے وہ بھی ایک متغیریت ہے کیونکہ اس صوبے میں دہشت گردی کا مسئلہ نصف صدی سے رہتا ہے اور اس کی حل کے لیے کوئی جھٹلاSolution نہیں ہوگا، اس لیے ان کوشش کے بعد جب کچھ متعین رہتا ہے تو وہ بھی کسی ایسے حل سے ملاقات کرتی ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو، پھر کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کی مشترکہ کوشش کی ہے تو اس میں ہمیں متحد ہونا چاہئے، مگر واضح بات یہ ہے کہ یہ ایک پائیدار اور جامع حل نہیں ملے گا اس لیے جس سے وہ کوئی بھی دیرپا حل کرنے کے حقدار ہو، اس لیے اگر ہمیں اس حل میں ایک ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے جو سب کے لیے قابل قبول اور دیرپا ہو تو یہاں تک کہ ہمیں وہ ایک مشترکہ پالیسی بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے جو ایسے حالات پر مبنی ہو جس سے یہ سمجھ میں آئے کہ اس حل کو ملنا چاہئیے، نہیں تو یہاں تک کہ ہمیں ایک ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کرنی پڑے گی جو تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کو اکٹھا کرتی ہو، اس لیے ایسا کہنا بھی مشکل ہوگا کہ یہ حل ہمیں ملنے والا ہے، کیونکہ ایسا نہیں سمجھایا جاسکتا، مگر اس بات سے ناہیں کہ میں اس حل کو ملنے سے منصرف ہوں گا، کیونکہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہم اس حل کو ملنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں اس کے لئے دیر و قلق نہیں کروں گا۔
کیا خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل ملے گا؟ یہ پوچھنے کے لیے کافی ہی تیز اور سنجیدگی ہے، کیونکہ وہاں دہشت گردی کا شکار رہتا ہے جو کہ دیر پہلے شروع ہوا جس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے پر بھارpoت رکھ رہے ہیں، انہیں ایک تعاون پسند اور ملک کی پابندیوں کے حامل پالیسی بنائی جانی چاہیے۔
جب تک انہی جماعتوں میں ایک دوسرے سے منافرت رہتی ہے تو وہاں امن کا نہیں بلکہ تاریکی پڑھی جائے گी।
اس لیے اس کے حل کی کوشش کرنے والوں کو انہی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ لانے کا اہم کام کرنا چاہیے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے لیکن اس جہد کو جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ان کے لئے یہ سب سے اچھی چIZ ہے جو ابھی تک پتہ نہیں چلا ہے، اس لیے انہیں اپنی دوسری کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور ایسا کروانا ہی ہو گا جس سے ایک ایسی پالیسی بن سکی جس کو سب کو محبت کرنے والی ہوئے۔
میٹھی میٹھی بات کریں تو خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل ملنا چاہیے؟ آسان نہیں، یہ دہشت گردی کی لڑائی سے لڑ رہا ہے جو ایک نصف صدی سے جاری ہے...
لیکن وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا یہ کہنا کہ تمام جماعتوں اور طبقات کا تعاون کرنا ہوگا وہ بھی ایک نئی گہرائی لائے ہیں، کیونکہ پچھلے کہنے کو یہاں اچھا سے نہیں چلا...
میٹھی بات کریں تو خیبرپختونخوا نے سب سے زیادہ قربانی دی ہے، لیکن انہوں نے انہیں باقی رکھنے کا ایک منصوبہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے...
سورکھی ہوئی بات ہے، وزیراعلاٰ کی یہ بات کہ خیبر پختونخوا کو امن کا مستقل حل ملنا چاہیے تو تو تو، لیکن یہ تو پوری صورتحال کو سمجھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کام کرنا مشکل ہوگا۔
سورکھی ہوئی بات ہے، انہوں نے کیے گئے اعلان سے یہ بات واضع طور پر سنی گئی کہ خیبر پختونخوا کی مدد کرنے والے تمام رہنماؤں اور سیکیورٹی فورسز کو ایک مشترکہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات بھی واضع طور پر بتائی گئی کہ ان سب میں تو ایک لاشہ پیروں کی سے بھی بڑھتا جاتا ہے۔
ابھی تک یہ بات واضح تھی کہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ لڑ رہا ہے، لیکن اب وزیراعلاٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی مدد کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کو ایک ساتھ لانے کی ضرورت ہے، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ابیھ تک ہونے والے معاملوں میں بھی کسی سیاسی جماعت کو سب سے زیادہ برتب نہ دیا جاسکا چاہیے، یہ تو واضح بات ہے کہ اس وقت سے پورے ملک میں ایک ایسے معاملے کی ضرورت ہے جو سبھی کو ایک ساتھ لا دے اور انہیں یہ بات واضع طور پر بتائی جائے کہ یہ معاملہ کیسے حل ہونا چاہیے؟