بولی وُڈ کی اس نئی فلموں میں ہیرو کی شدت، غصے اور سرحدوں کی خلاف ورزی کو محبت کے طور پر دکھایا جا رہا ہے جس سے یہ سوچ لگنے لگی ہے کہ بولی وُڈ کے ’ٹاکسک‘ اور ’ریڈ فلیگ‘ ہیرو رومانس کا ٹرینڈ بن چکے ہیں۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ بولی وُڈ کے ہیرو اب شدت اور غیر صحت مند تعلقات کو ایک نئی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ ان فلموں میں دکھائی جانے والی ”محبت“ دراصل ایک ذہنی بیماری یا جذباتی بدانتظامی کو چھپانے کا طریقہ بن چکی ہے۔ ان فلموں میں وہ لڑکیاں جو ان مردوں سے بے چون وچار محبت کرتی ہیں، دراصل ایک ایسے تعلق میں بندھی ہوتی ہیں جو ان کی خودمختاری اور عزت نفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔
چند دہائیوں پہلے ’دیو داس‘(2002) اور ‘دھڑکن‘ (2003) میں یہی نظر آتا تھا، جہاں ہیرو کا شدت سے محبت کرنا، جبر کرنا اور جذباتی بدسلوکی کو رومانی سمجھا جاتا تھا اور آج بھی ہم وہی کہانیاں دیکھ رہے ہیں، صرف نئے چہرے، نئی پیکنگ کے ساتھ۔
اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ یہ ہروئیں جو شدت اور جبر میں محبت جیتنے کی کوشش کرتے ہیں وہ حقیقی زندگی میں اس قسم کے تعلقات میں نہیں جا سکتے۔ ان ہیروز کی شدت ان کی مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو کہ بہت سے ناظرین کے دلوں میں اپنی جگہ Banana رکھتی ہے۔
لندن میں ’راج اور سمرن‘ کے مجسمے کی نقاب کشی ایسا کھلوانا ہے جو بولی وُڈ کو اس بات پر زور دیتا ہے کہ محبت میں جبر یا شدت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک حقیقی ہیرو وہ ہے جو محبت کو عزت، سمجھ داری اور سچائی کے ساتھ پیش کرے، نہ کہ جو ”نہ“ کو چیلنج کے طور پر لے اور حدود کے بغیر محبت کا تاثر دے۔
یہ تو بڑا گہری بات ہے کہ بولی وُڈ کی نئی فلموں میں ہero کی شدت اور غیر ملکی تعلقات کو محبت کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، جس سے سوچ آتا ہے کہ ان فلموں میں جو لڑکیاں ہیرو کی محبت کرتی ہیں وہ حقیقی زندگی میں اس طرح کی تعلقات میں نہیں آ سکتے۔
جب تک ہero کو جذباتی بدسلوکی اور جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ان کے ہیرو ان کی مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو کہ اکثر ناظرین کے دلوں میں اپنی جگہ رکھتی ہے۔
لندن میں Raj aur Sumran ki majhishe ka nakabash nikaalna hi boli ud ke baat ko zubaan deta hai ki mohabbat mein jabra ya ashaadta nahi honi chahiye. Ek waqai hero wahe jo mohabbat ko izat, samajhdayari aur sachayi ke saath prastut kare, na ki jo nay "nay" ko challenge ke tor par le aur sirf ghirasat ka tareeka banata hai.
اس فلموں میں ہیرو کی شدت کو محبت کی طرح پیش کرنا نہیں چاہیے جس سے یہ سوچ آ رہا ہے کہ بولی وڈ کے ہیرو رومانس کا ٹرینڈ بن گئے ہیں۔ یہ شائقینوں کو نااندیشان میں ڈال رہا ہے۔
اب بھی یہی فلمیں دیکھ رہے ہیں جس میں لڑکیاں ان مردوں سے محبت کرتی ہیں، لیکن وہ تعلق ان کی خودمختاری اور عزت نفس کو نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔
جبچدہ ہی فلم ’دیو داس‘ اور ‘دھڑکن‘ میں یہی نظر آئی تھی، جہاں ہero کا شدت سے محبت کرنا، جبر کرنا اور جذباتی بدسلوکی کو رومانی سمجھایا گیا تھا، اور اب بھی ہم وہی کہانیاں دیکھ رہے ہیں، صرف نئے چہرے، نئی پیکنگ کے ساتھ۔
اس وقت بولی وُڈ کی فلموں میں ہونے والی شدت، غصے اور تعلقات کو محبت کے طور پر دکھانا بہت کھلنے वालا ہے۔ یہ سوچ لگ رہی ہے کہ ’ٹاکسک‘ اور ’ریڈ فلیگ‘ سے ایک نئا ٹرینڈ بن چکا ہے جہاں بھی ان فلموں کی کوئی لڑکیانہ پیش کھیلتی ہیں وہ شدت اور غیر صحت مند تعلقات میں Bandھ جاتی ہیں۔
آج بھی دیکھنے کے لیے ہمیں تین دہائیوں قبل کی فلم ’دیو داس‘ اور ’دھڑکن‘ میں دیکھنی پڑتی ہے جہاں ہیرو شاندار شدت سے محبت کرنے کا انعقاد کرتا تھا، حالانکہ آج بھی یہی کہانیyan دیکھ رہے ہیں لیکن نئے چہرے اور پکنگ سے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ یہ سے ان ہیروؤں کی مردانگی کو دیکھ کر آمنے سامنے اٹھنا پڑے گا کہ وہ حقیقی زندگی میں اس طرح کے تعلقات میں نہیں ہو سکتے لیکن یہ بات اتنی بھی اہم ہے کہ محبت کو عزت سمجھنا، سچائی اور سمجھ داری کے ساتھ پیش کرنا اور جبر کی طرف نہیں جانا۔
یہ بڑا غلط فہمی ہے کہ بولی وُڈ کی نئی فلموں میں ہero کو شدت اور محبت کی شکل میں دکھایا جا رہا ہے، یہ توحید کے خلاف ہے لیکن یہاں ایسا لگتا ہے جیسے یہیہ فلموں کی نئی ہی ٹینڈ بن گئی ہیں۔
میں سوچتا ہوا کہ اورھیرووں نے شدت کو ایک علامت کے طور پر پیش کرنا بھی ختم ہونے والا وہ ٹینڈ ہے جو ’دیو داس‘ اور ‘دھڑکن‘ میں کیا گیا تھا۔ اس نئی فلموں کی نئی پکنگ، نئی کیپٹن اور نئی کہانی ہونے کے باوجود یہ ہero کو شدت میں محبت کرنا جاری رہا ہے جس سے یہ سوچ لگنے لگی ہے کہ بولی وُڈ ایک نئی ایسی رومانس ٹینڈ بن چکی ہے۔
اس نئی فلموں میں ہیرو کی شدت اور غصے کو محبت کے طور پر دکھانے سے کیا لाभ ہو گا؟ یہ تو کہیں بھی بھرپور رومانس کا ٹرینڈ بننے سے قبل تھا، نہیں وہیں ایک فلم میں کہا جاتا تھا کہ “جب محبت ہوتی ہے تو کچھ بھی ممکن ہوتا ہے” اور اب یہ دکھایا جا رہا ہے کہ شدت اور جبر بھی Love ہیں، اسی طرح ایک سے زیادہ بیوی کی حقیقت نہیں بتائی جائے گی؟
اس فلموں میں ہیرو کی شدت اور جذباتی بدسلوکی کو محبت کے طور پر دکھانا، اس بات کو بھولنا پینا کہ شدت اور جبر محبت کے ساتھ نہیں کھلائی جاسکتے ہیں۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ ہروئیں اس وقت میڈیا کی دیکھبھال کرتے ہیں جب ان کو یہ محبت کا طریقہ آتا ہے، جو کہ تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے اور خواتین کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ یہ محبت ایک ذہنی بیماری ہے جو لوگوں کو روکھتی ہے، بلکہ یہ محبت ایسا محسوس ہوتی ہے جس میں سچائی اور سمجھ داری کی کمی ہوتی ہے۔
اس وقت بڑی پیسہ لگتا ہے کہ ہero ایک حقیقی انسان نہیں بلکہ ایک کردار جو کسی کی جذبات کو دھمکی میں پکڑ کر محبت کی بات کرتا ہے ۔
ایسی فلموں میں لڑکیاں بھی اچھے منزلوں پر نہیں رہتیں، ان کی خودمختاری و عزت نفس کیا پابند کر دیا جاتا ہے؟
اس کے باوجود بھی لوگ یہی فلمیں دیکھتے چلے Jayen, وہ حقیقی زندگی میں یہ سچ نہیں ہو سکتا ۔
یہ فلموں میں دکھائی جانے والی محبت ایک بڑی problema ہوگی۔ ان فلموں میں لڑکیاں اپنے پیار کے لئے جہل اور دھمکی سے کام کرتی ہیں، یہ تو محبت سے نہیں ہوتا بلکہ دھمکی اور جبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ یہ محبت ایسے تعلقات میں نہیں بنتی جہاں ایک ہero اپنی حقیقی عزت اور خودمختاری کو توڑنا جوسے۔
یہ ان فلموں کی سوچ بھی ایسی ہے جیسا میں سوچتا تھا کہ اب یہ لوگ کیا سोच رہے ہیں؟ ہر دوسری فلم میں یوں ہی نئی پرچم لگا رہے ہیں اور محبت کا ایسا معیار پیش کر رہے ہیں جو ہر دل کو بھر دیتا ہے۔ یہ ’ٹاکسک‘ اور ’ریڈ فلیگ‘ کی فلموں سے لے کر اب ’راج اور سمرن‘ تک کی فلمی دنیا میں ایسی بات کو محسوس ہوتی ہے جو اس وقت میں نے دیکھا تھا کہ وہ سب محبت کی جگہ لے رہے تھے۔ آج یہ محبت اور شدت کو ایک ایسا معیار بناتے ہوئے، جو ہر دوسری جگہ سے کھینچنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔
یہ تو بھی انہوں نے ایسے ہیرو بنائے ہیں جو اپنی خواتین کو ایک ذہنی بیماری کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور جس سے ان کی خودمختاری اور عزت نفس نقصان پہنچاتی ہے .. یہاں تک کہ وہ فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے۔
انہیں کہنا چاہئے کہ ایک حقیقی ہیرو محبت کو عزت، سمجھ داری اور سچائی کے ساتھ پیش کرے نہ یہ کہ جس سے محبت جیتنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنی مردانگی کو ایک ذہنی بیماری کے طور پر دکھائی دے۔
بولی وُڈ کے ہیرووں کو ضرور اس بات پر زور دیا جائے کہ محبت میں جبر یا شدت نہیں ہونی چاہیے ..
تو یہ فلموں میں دیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ زندگی میں بھی اس بات کو یقینی بنانا ہے ..
وہ بولی وڈ ہیرو جس نے ’راج اور سمرن‘ کی نقاب کشی میں حصہ لیا، وہی ہے جو آج کے ان ہیروں کو ایک سکہ بناتا ہے جو محبت میں جبر کرنے یا شدت کے ساتھ محبت کرنے کوشل ہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر انہیں ایک حقیقی ہیرو بنانے کی ضرورت ہے اور جس پر انہیں اپنی فلموں میں دکھانا ہوتا ہے۔ اگر وہ ہیرو ”نہ“ کو چیلنج کے طور پر لیتا ہے، تو وہ محبت کو عزت اور سچائی کے ساتھ پیش کرے گا اور اپنی فلموں میں ایک نئی دھار کا آغاز کروگا۔