داد بیداد ۔ بانی انعامات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی کی اہم تحریکوں کا انکشاف
داد بیداد کو ختم کرنے اور تعلیم میں ترغیب دینے کے لئے 2003ء میں قاری فیض اللہ چترالی نے اپنی اہم تحریک "اقراء ایوارڈ" کی شروع کی تھی۔ اس تحریک کے ذریعے انہوں نے 23 سالوں سے طلبوں کو تعلیم میں ترغیب دینے اور انہیں اعلیٰ درجہ کی پوزیشن میں لانے کا موقع دیا تھا۔

اس تحریک نے نئی نسل کو محنت و capability کے جوہر اجاگر کرنے میں مدد کی اور اس سے 90 فیصد اول پوزیشن حصول کرنے والے طلبہ پیدا ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ تقریباً ایک دہائی سے اس تحریک کی تقلید میں کئی شہزادگان اور خاتونوں نے طلبوں کو تعلیم میں ترغیب دینے اور انہیں اعلیٰ درجہ کی پوزیشن میں لانے کا بھرپور چلنا شुरू کر دیا ہے۔

تalking Talkshow میں چترال کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی تعلیم میں بہتری لانے اور انھیں اعلیٰ درجہ کی پوزیشن میں لانے کے لئے قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے دیے گئے اقراء ایوارڈ کا فائدہ اٹھایا ہے۔

لگ بھگ 30 لاکھ روپے میں انھوں نے 50 لاکھ،40 لاکھ اور 30 لاکھ روپے کے نقطۂ انعام دیے ہیں جن میں 1080 نمبر پر رابیل اقبال کو چترال کے ریپبلک سکول نے اول پوزیشن سے دی ہے اور اسے ایک لاکھ روپے کا نقطۂ انعام Diya Gaya hai
 
سٹیڈیم میں ریکارڈ وریٹنگ سے جب پہلے چترالی صاحب کی تحریک کو بے پناہ شہرت ملی تو اب 23 سال بعد انھوں نے صرف ایک دہائی میں لاکھوں طلبا کو یہ اچھی طرح واضح کر دیا کہ وہ کس پوزیشن پر کچھ حاصل کر رہے ہیں۔ پتا چلا کہ سات سال قبل اس تحریک نے ایک ایسا نقطۂ بنایا تھا جس سے اب تک کئی نوجوان نے اپنی زندگی کو اچھا طہر رکھا ہو، حالانکہ انھوں نے اپنی بڑی تعداد میں لاکھوں روپوں کا نقطۂ دیا ہوا ہے
 
اس تحریک نے 23 سالوں سے طلبوں کو تعلیم میں ترغیب دینے کا کام کیا ہے اور ابھی تک اس کی پوری کامیابی کا نشان لگ رہا ہے ۔ لیکن مجھے یہ بات بھی غموض دیتی ہے کہ اس تحریک کا کوئی تعلیمی منصوبہ نہیں ہے اور انعامات کی کہانی بھی نہیں ہے تو کیسے طلبوں کو یہ سب سہولت ملا رہا ہے؟ ہمیں پوچھنا چاہیے کہ اس تحریک کی بھرپور تقلید میں کیا ہوا اور انعامات کی یہ کہانی تو کیسے بنائی گئی؟
 
جی رے وہ چترالی کی تحریک اہم تھی، میرے پاس بھی ڈیجیٹل سکول بھاڑ کر رہا ہوں، وہ کس طرح ہوگا؟ اور نئی سلیبڈی کی چالیس ہزار روپے کی پہچان کیوں نہیں ہوتی؟ اور میں ایک دھونے کے شاپنگ مائنڈ سے یہ بات کروں گا، وہ فائبر ٹوبس کی بہت کم قیمتی تھیں، اب وہ کیا ہوگئیں؟ اور آپ اس تحریک میں آؤٹ ماخول وین کا کیا خیال کر رہے ہو؟
 
یقیناً یہ ایوارڈ ماحولیاتی پالیسیوں کو مزید موثر بنانے میں نہیں ہوگا بلکہ اس سے دوسرے طلبہ کے لئے معاشرتی پریشانیوں کی وجہ سے تعلیمی فرصیاں ختم ہوجائیں گے۔
 
یہ بات تو واضح ہے کہ معیار تعلیم اچھا نہیں ہوتا اگر اس میں سیکھنے کی ہمت شامل نہیں ہوتی۔ 2003ء سے چترال نے اپنی اہم تحریک "اقراء ایوارڈ" کی شروع کی اور اب یہ 23 سالوں کا سفر پورا کر گئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو تعلیم میں ترغیب دی جائے وہ اپنی حقیقت کی طرف آتا ہے اور وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی راہ میں قدم رکھتا ہے۔
 
اس تحریک کا جسمانی استحکام تو ہے، لیکن اس کی ذیادتیں یقینی نہیں ہیں؟ 50 لاکھ روپے نقطۂ انعام دیا جانے سے کیا طلبہ محفوظ ہو جاتے ہیں؟ وہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ ابھی بھی کئی طلبہ اپنی تعلیم میں ترغیب لینے کے لیے قاری فیض اللہ چترالی کی تحریک کو دیکھتے رہتے ہیں؟ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انہیں ایک ہی نتیجے میں پھنسایا جاتا ہے اور یہ ایسی تحریک کی طرف سے دیے گئے نقطۂ انعام کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
 
اقراء ایوارڈ کی طاقت کسے نہیں پتوئی؟ 23 سالوں سے انہوں نے طلبوں کو تعلیم میں ترغیب دی اور 90 فیصد اول پوزیشن حصول کرنے والے پیدا ہوئے ہیں. یہ ایک بڑا کام ہے، پھر بھی اب تک کچھ نہیں ہوا؟
 
وہ شخص 2003ء میں اسی تحریک کو شروع کرنے والا تھا جو اب تک طلبوں کو اعلیٰ درجہ کی پوزیشن میں لانے کا ایک اچھا موقع دیا ہے وہ بھی اپنی پیریں پوری دیر سے نہیں کر رہی تھیں وہ کس قدر ناکام ہوئی اس کی بات پتا لگایگی
 
یہ واضح ہے کہ قاری فیض اللہ چترالی کی تحریک نے بہت سے طلبوں کو زندگی میں اچھا راستہ دکھایا ہے، انھوں نے انہیں اعلیٰ درجہ کی پوزیشن میں لانے کا موقع دیا ہے اور اب بھی یہ تحریک طالب علموں کو تعلیم میں ترغیب دے رہی ہے۔ واضح طور پر، 23 سال سے اس تحریک نے کئی شہزادگان اور خاتونوں کی مدد کی ہے جو اب بھی طلبوں کو تعلیم میں ترغیب دے رہی ہیں۔

میری رائے یہ ہے کہ اس تحریک کی اچھائی کو دیکھتے ہوئے مجھے بھی ہمدردی کا محسوس ہوتا ہے۔
 
واپس
Top