طبیعیات دان
Well-known member
دبئی ایئر شو میں تباہ ہونے والے 'تیجس' طیارے کی قیمت جان کر دباؤ اور تنقیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حادثے نے بھارت کے لیے ایک تباہ کن واقعہ پेश کیا جس کا خاتمہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کے معاشرتی اور سیاسی影響ات کو سامنے لایا جائے گا۔
انڈین ایئر فوسٹرس (آئی ایف ایف) نے اپنے لڑاکا طیاروں میں ایک نیا قدم قدم رکھ کر تباہ ہونے والے 'تیجس' کے حوالے سے بے چینی اور نااہلی کی وجہ سے معاشرے کو دھکے دیے ہیں۔ اس ناکام منصوبے کا خاتمہ ایسے علاوہ ماحولیاتی اور سماجی اثرات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے جس سے دبئی ایئر شو میں حادثے کے بعد اس حادثے کے گرد محو حیرت اور غم ہے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
انصاف و انتباہ پر منصوبہ بنایا گیا تھا
تیجس طیارے میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی تھی جب وہ فضا میں کرتب دکھا رہا تھا۔ اس حادثے نے ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے یقینی بنایا کہ بھارت کو اپنے فوجی اور سماجی منصوبوں میں انصاف اور انتباہ پر انتباہ کرنا ہوتا ہے تاکہ اس طرح کی ناکامتیوں سے بھگتے رہیں۔
اس حادثے کے بعد ہونے والے ناکامی کو دیکھ کر عوام کا ایک پہلے تو متاثرہ، اور اب غم گزائے جانے والی رہنمائی اور انصاف کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
بھارت کے ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل منموہن بہادر نے بتایا کہ تیسری جنگ عظیم کے دوران اس کونسل میں سات لڑاکا طیاروں کی تصدیق ہوئی اور انہیں یو ایس ایف اور ایس ایف آر اور تھنڈیرج اور ماسٹر کا نام دیا گیا تھا۔
اس کونسل نے یہ بھی منظر پیش کیا کہ اس سے پہلے 1945 میں ایک اور لڑاکا طیارہ ٹائیگرس نے کچھ منصوبے پر کام کرنے کا آغاز کیا تھا لیکن یہ منصوبہ بالآخر پتے کی طرح جھڑا تو گئی اور اس سے بھارتی فوج کو ٹائیگرس لڑاکا طیارہ حاصل نہ ہونے پر سخت پریشانی کا سامنا کرنا पडا۔
اس حادثے نے ایک بار پھر اس سے متعلق اس منصوبے کو دوبارہ یقینی بنانے کی ضرورت پیدا کی ہے جس کے لیے یہ ناکام منصوبہ اب بھی اس وقت کے فوجی و انتظامی ذیل میں ہے۔
سخوئی ثقافتی اور فوجی تھی
ایک انٹرویو میں منموہن بہادر نے بتایا کہ اس منصوبے کو بنانے کے لیے 1983 سے 2008 تک کام کیا گیا اور اس منصوبے کے لیے 80 لاکھ روپے لائے گئے تھے۔
اس کے مطابق 24،000 فوجی اور 20،000 سول رکنوں نے اس منصوبے پر کام کیا تھا اور ان سے بھارتی فوج کو ایک ایسا لڑاکا طیارہ حاصل کرنے کے لیے 50،000 فٹ دیر پائی تھی جس کی قیمت ایک سیلندر کے وزن میں 10 فیصد سے زیادہ ہوتی تھی۔
اس منصوبے نے بھارت کو ایک سوویت لڑاکا طیارے سے الگ کر دیا جس کی قیمت ایک سیلندر کے وزن میں 10 فیصد سے زیادہ تھی اور اس لیے اس منصوبے کو بنانے پر بھارت نے 15،000 لاکھ روپے کا جسمانی استثنا کیا۔
انڈین ایئر فوسٹرس (آئی ایف ایف) نے اپنے لڑاکا طیاروں میں ایک نیا قدم قدم رکھ کر تباہ ہونے والے 'تیجس' کے حوالے سے بے چینی اور نااہلی کی وجہ سے معاشرے کو دھکے دیے ہیں۔ اس ناکام منصوبے کا خاتمہ ایسے علاوہ ماحولیاتی اور سماجی اثرات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے جس سے دبئی ایئر شو میں حادثے کے بعد اس حادثے کے گرد محو حیرت اور غم ہے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
انصاف و انتباہ پر منصوبہ بنایا گیا تھا
تیجس طیارے میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی تھی جب وہ فضا میں کرتب دکھا رہا تھا۔ اس حادثے نے ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے یقینی بنایا کہ بھارت کو اپنے فوجی اور سماجی منصوبوں میں انصاف اور انتباہ پر انتباہ کرنا ہوتا ہے تاکہ اس طرح کی ناکامتیوں سے بھگتے رہیں۔
اس حادثے کے بعد ہونے والے ناکامی کو دیکھ کر عوام کا ایک پہلے تو متاثرہ، اور اب غم گزائے جانے والی رہنمائی اور انصاف کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
بھارت کے ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل منموہن بہادر نے بتایا کہ تیسری جنگ عظیم کے دوران اس کونسل میں سات لڑاکا طیاروں کی تصدیق ہوئی اور انہیں یو ایس ایف اور ایس ایف آر اور تھنڈیرج اور ماسٹر کا نام دیا گیا تھا۔
اس کونسل نے یہ بھی منظر پیش کیا کہ اس سے پہلے 1945 میں ایک اور لڑاکا طیارہ ٹائیگرس نے کچھ منصوبے پر کام کرنے کا آغاز کیا تھا لیکن یہ منصوبہ بالآخر پتے کی طرح جھڑا تو گئی اور اس سے بھارتی فوج کو ٹائیگرس لڑاکا طیارہ حاصل نہ ہونے پر سخت پریشانی کا سامنا کرنا पडا۔
اس حادثے نے ایک بار پھر اس سے متعلق اس منصوبے کو دوبارہ یقینی بنانے کی ضرورت پیدا کی ہے جس کے لیے یہ ناکام منصوبہ اب بھی اس وقت کے فوجی و انتظامی ذیل میں ہے۔
سخوئی ثقافتی اور فوجی تھی
ایک انٹرویو میں منموہن بہادر نے بتایا کہ اس منصوبے کو بنانے کے لیے 1983 سے 2008 تک کام کیا گیا اور اس منصوبے کے لیے 80 لاکھ روپے لائے گئے تھے۔
اس کے مطابق 24،000 فوجی اور 20،000 سول رکنوں نے اس منصوبے پر کام کیا تھا اور ان سے بھارتی فوج کو ایک ایسا لڑاکا طیارہ حاصل کرنے کے لیے 50،000 فٹ دیر پائی تھی جس کی قیمت ایک سیلندر کے وزن میں 10 فیصد سے زیادہ ہوتی تھی۔
اس منصوبے نے بھارت کو ایک سوویت لڑاکا طیارے سے الگ کر دیا جس کی قیمت ایک سیلندر کے وزن میں 10 فیصد سے زیادہ تھی اور اس لیے اس منصوبے کو بنانے پر بھارت نے 15،000 لاکھ روپے کا جسمانی استثنا کیا۔