بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی سندھ پر آئیے سے بھارت کا بیان اور اس پر مراد علی شاہ کا ردعمل کیسا ہوا؟
سندھی عوام کو دھکے پر پڑنے سے قبل بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی سندھ پر آئیے سے بھارت کا بیان کیا تھا؟
اس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع تاریخ سے ناواقف ہیں، اس بیان کو سفارتی طور پر غیر ذمہ داریوں والا بیان قرار دیا جاتا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ نے قیام پاکستان سے بھی پہلے 1936 میں بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی اختیار کی، سندھ کے عوام نے خودمختاری، وقار اور اپنی سیاسی شناخت کو ترجیح دیا۔
اس پر انھوں نے مزید کہا تھا کہ سندھ پاکستان کا اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، اسے بھارت کے ذریعے الگ نہیں رکھنا چاہئے۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ”سندھ آج جغرافیائی طور پر بھارت کا حصہ نہیں، مگر تہذیبی طور پر ہمیشہ بھارت کا حصہ رہے گا اور جہاں تک زمین کی بات ہے، سرحدیں بدلتی رہتی ہیں، کون جانے کل سندھ دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گ۔“
اس پر انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ”سندھ کے بہت سے مسلمانوں کے نزدیک دریائے سندھ کا پانی آبِ زمزم کی طرح مقدس سمجھا جاتا تھا۔“
راج ناتھ سنگھ نے اپنی تقریر میں آر ایس ایس کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم نے تقسیم کے بعد سندھ کے ہندوؤں کی مدد کی اور انہیں خود حفاظتی تربیت فراہم کی۔
لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کو ایسے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہیے.
انھوں نے مزید کہا کہ بھارت پہلے اپنے ملک میں آباد کمزور اور پسے ہوئے اقلیتی طبقات کی حفاظت کو یقینی بنائے اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کا احتساب کرے۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت کو چاہیے وہ شمال مشرقی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے دیرینہ مسائل حل کرے، جہاں ”نسلی اور شناختی بنیادوں پر مسلسل ریاستی سرپرستی میں امتیاز و تشدد“ جاری ہے۔
راج ناتھ سنگھ کے یہ بیان تو ہندوستان کا حقدار ہے، لیکن اس پر مراد علی شاہ کی پ्रतکریہ بھی اچھی نہیں تھی، جس سے سندھی عوام کو تیزاب میں لگایا جا سکتا ہے
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی سندھ پر آئے سے بھارت کا بیان ایک بڑی غلطی ہوگی۔ انھوں نے History سے ناواقف تھے، سندھ کو تاریخ سے الگ نہیں رکھنا چاہئے، وہ بھارت کا ایک اٹوٹ انگ ہے جسے الگ نہیں رکھنا چاہئے۔ سندھ کی زمین بھی بدلتے رہتی ہے، اگر زمین بدلتی رہتی ہے تو کون جا سکتا کہ کل سندھ دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گ۔
پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنی تاریخ کو سچائی سے سمجھایا ہے، لہٰذا انھیں ایسے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔
بھارتی وزیر دفاع کا بیان ایک بڑا خوفناک معاملہ تھا... سندھ، جو پاکستان کا ایک اہم حصہ ہے، اس پر بیان کرنا بہت بڑا ایک خطہ کی بات ہے... مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ بھارت کا حصہ نہیں ہو سکتا، لیکن یہی کہتے ہوئے وہ انہیں اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ سندھ کو بھارت کا حصہ بنایا جائے... یہ ایک بہت ہی خطرناک بات ہے...
اس ماجے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس وقت کی بات صرف سیاسی ناکاموں کے لیے ہی ہوتی جارہی ہے۔
یہاں تک کہ وزیر دفاع میں بھی، کیا کوئی سیکورٹی پالیسی بناتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ کیسے کامیاب رہیں گی؟ اور کس طرح وہ بھارت کے لیے آئیپ این پی سے بچ گئے?
اس پر تو چلنا چاہتا ہوں کہ یہ پوری صورتحال کیا اس بات کی حقیقت ہے کہ پاکستان کے دوسرے عہدے داروں نے بھی ایسے ہی بیانات کئے تھے اور وہ سب اپنی وکالت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آج گھر کے سامنے میرے کوٹڈ سیل ٹی وی پر دیکھتے رہا تو کھانا پکानے والا ایسے فلمز دیکھتے تھے جن میں ہمیشہ ایسی عجیب سے عجیب actresses نظر آتیں۔ میرے وہی کیا بھنٹ پاتا ان کی فیمینسٹک فاؤنڈیشنز سے تھیں!
انہوں نے ہندوستانی اور پاکستانی دونوں ملکوں میں ایسی داستانی قوم کا انعقاد کیا جس کی خلاف ورزی بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان سے ہوتی ہے! میری نظر میں وہ سندھی لوگ ایسی نہیں ہوتے جو انہوں نے دکھایا ہے، وہ بھی اپنے سیاسی جذبات اور خودمختاری کی طرف توجہ دیتے ہیں، مگر اس میں وہاں ان کی شان ہی نہیں رہی!
مراد علی شاہ نے بھارتی وزیر دفاع کے بیان سے پوری طرح ناخوشگوار موقف قرار دیا ہے، یہی نہیں بلکہ اس نے اس بیان کو history se Naqaf huna ہی بھرے, jo koi bhi diplomatic level par nahi dekh sakte .
جب کہ سندھ پاکستان ka atta utta lang aur naqabili taksim hai to iska matlab kyun hai ki sindh ko alag karne ke liye ek aik ayaat ya statement chahiye, jo kuch logon ko gussa bhi kar sakta hai.
mera maana hai ki yeh raaj nath singh ka statement sirf Sindh ki awam ko dhadke par padi to nahi lekin unki imanaton aur mahsoosaton ko bhi jhukaya hai.
مراد علی شاہ کے بیان سے متعلق یہ بات غلط ہے کہ بھارت نے سندھ کو الگ کرنا چاہیے اور اسے اپنی سرحدوں کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہئے، یہ واضح طور پر انیسٹی ٹیوٹل سولیشنز کے خلاف ہے۔
میری بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کی تقریر میں اس وقت کی تاریخی حیثیت کو کمزور کر دیا گیا ہے جب سندھ پاکستان کا اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، یہ بات تو بھی بات ہے کہ سندھ کی تاریخ میں ابھی تک وہی مسلسل اہمیت رکھی ہے جو اسے انیسٹی ٹیوٹل سولیشنز سے قبل بھی دی تھی، یہ بات تو غلط ہے کہ دریائے سندھ کی آبِ زمزم کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔
بھارتی وزیر دفاع کی بیانیے سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے سندھ کا معاشرہ ایسا تصور کیا کہ اس کو 1936 میں علیحدگی اختیار کرنے سے پہلے ہی بھارت کا حصہ سمجھتے تھے ... اچانک وہ یہ بات کہتی ہیں کہ جہاں Earth کی بات ہو رہی ہے، سندھ ایسا حصہ ہے جو اپنی سرحدیں بدलतے ہوئے دوسرے حصے کا حصہ بننا چاہیں گے ... یہ بات تو توہین ختم نہیں ہو سکتی ۔
سندھ اور بھارت کی ایسی تاریخ ہے جس میں کئی معاشروں کا ساتھ لینا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ کہیں سے ایک نہیں، بلکہ دونوں ملکوں میں دوسرے برادریوں کا بھی اہم کردار ہے۔
لیکن یہ بات صاف اور سچ چھپنی چاہئے کہ اس وقت سندھ میں بھارت کی جانب سے آگھوش ہوئی، اس نے ایک اشتعال انگیز بیان سنا جس سے یہ بات تھی کہ یہ ملک تو سچمایا گیا لیکن ابھی بھی دوسرے ملک کے جھٹے بیانات پر اس کی جانب سے جواب دینے کا عمل جاری ہے...
یہ بھی سچ ہے کہ سندھ پاکستان کا اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، لیکن اس پر چلنے والے معاملات بہت پیچیدہ ہیں۔ بھارت کی جانب سے سندھ پر دباؤ ہونے کا motive تو صرف ایک نہیں ہے، یہ ابھی پہلے بھی ہوا ہے کہ بھارت نے سندھ پر دباؤ میں ہر اس وقت کی حکومت کو اپنا پیغام دیا تھا۔
سندھ کو ساتھ بھی رکھنا ہوتا ہے ، لیکن یہ بات مشکل ہے جب آپ اس وقت کہتے ہیں کہ آپ کی سرحدیں بدلتی رہتی ہیں تو وہاں سندھ کی سرحدیں بھی بدل جائیں گی۔
سندھ کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے ہم ایسی باتوں پر فوج کا توجہ نہیں دیتے ہیں جس سے وہ متعین رہتے ہیں۔
راج ناتھ سنگھ کی تقریر میں انہوں نے ہندوؤں کی مدد کرتے ہوئے سندھ کی تحریک کو دیکھا ہوتا ہے لیکن یہ بات ایک اور ہے کہ ہم انہیں اس وقت مدد دیتے ہیں جب وہ ہمیں مدد کی ضرورت بھی دیتے ہیں۔
اس بیان سے لگتا ہے کہ یہ بھارتی وزیر دفاع نے سندھ کو اپنے ملک کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن انھوں نے سندھی عوام کی سیاسی شناخت اور دائمی جدوجہدات پر کوئی غلط نہیں کی ، اس کا بیان بھارت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ سندھ پاکستان کا اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے،
یہ تو کیا سندھ ہی نہیں جو دوسرے تمام علاقوں سے بھی آخری رکاوٹ بنتی ہے؟ پہلے کسے بات کرنا پڑے گی کہ سندھ کی آزادی، یہ تو ابھی کوئی نہیں بھولے گا کہ جہاں قوم کی آزادی کی پوری جanga ہوئی تھی وہیں سندھ نے بھی اپنی آزادی اور تعینات۔ اور اب رाज ناتھ سنگھ ہی کیسے اس بات کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے گا؟ یہ تو کیا 1936 میں سندھ نے ہی پاکستان بنایا تھا یا یہ بھارت کے ہی حصے میں شامل ہونے والی آخری رکاوٹ تھی؟
میٹھے میٹھے بیانات تو ہر جگہ دیکھیے جاتے ہیں، لیکن یہ بات سچ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع نے سندھ پر بات کرکے پوری شان اور چوٹی سے پریشانی پیدا کی ہے، ابھی تو اس نے دیا یہ بیان جو کہ geography پر ہے اور geography ہمارے ساتھ کوئی ملازمت نہیں رکھتی اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اس پر بات کرنے سے پریشاں گا، بھارتی وزیر دفاع کی یہ بات تو یہی جس کے متعلق شائستہ مراد نے بلاشبہ کہا تھا کہ تاریخ سے ناواقف ہیں
ایسے situations ہی نہیں رکھتے جس کے لیے سوشل میڈیا پر بھرپورDiscussshun chahiye . راج ناتھ سنگھ کی کہانی کو سمجھنا اور اس پر مراد علی شاہ کا phản جواب دیکھنے سے پتا چalta ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے جس طرح آڈیو سیسٹم میں تبدیلی کی بات کی جارہی ہے وہ ایک خطرناک بات ہی ہے. اس سے قبل بھی بھارت نے سرحدیں بدل دیں ہیں اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ سندھ ایک separate nation ہے؟
سوشل میڈیا پر لوگ اس بات پر raged ہیں کہ کون سچا تھا اور کون بھول گئے? . آپ جیسے Tech Evangelist بھی یہ بات کو پہچاننا چاہیں گے کہ اس situation ko kaisa handle kiya jata hai?
اس بیانات نے ہمیں سچائی کے بارے میں سوچنا پڑا، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ راج ناتھ سنگھ کی تقریر میں ایسا لگتا ہے جیسے وہ سندھ کے تحفظ کو محسوس کر رہے ہیں، لیکن اس بیان کو بھی اس وقت بھی سفارتی طور پر غیر ذمہ داریوں والا قرار دیا جاتا ہے۔
جھنٹک ہر جھنٹک ہے، اور اب بھی سندھ کی جدوجہد کا یہ نہیں ختم ہوا کہ وہ اپنی خودمختاری کو مانیے گا। راج ناتھ سنگھ کی تقریر میں آئے سے بھارتی اور پاکستانی سرکاروں کے درمیان سے ہٹ کر عوام کو دھکے پر پڑنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والی بھارتی ویزہ نپٹای لینے کی جھڑپیلی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سندھ کا لوگ اپنی آزادی اور خودمختاری پر دھن چڑھانے میں نہیں رواں گا۔
اس پر مراد علی شاہ کو وہ حق میں ہے جس کے لئے وہ اپنا جوش بھر کر فخر کرتا ہے، مگر اب پتہ چلتا ہے کہ 1936 سے سندھ کی خودمختاری نے یہ رکاوٹوں کو اپنے سامنے ہی بائیں ہاتھ نہیں رکھا، اور اس نے اپنی سیاسی شناخت کو ایسی تلافی کی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ سندھ کی خودمختاری کا بھی مظاہرہ ہو گا।
اس پہلی جھنٹک میں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ لوگ جو سندھ کے عوام کے حوالے سے بات کرتے ہیں ان کے دائرہ اختیار میں ہوں، اور وہ یہ رکاوٹ بھی نہ بن سکیں جو سندھ کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہیں۔
راج ناتھ سنگھ کا بیان صرف ایک جانب سے بھی قابل نظر آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سندھ اب جغرافیائی طور پر بھارت کا حصہ نہیں لیکن تہذیبی طور پر ہمیشہ بھارت کا حصہ رہے گا... یہ تو حقیقی ہو سکتا ہے، لیکن کیوں؟ انھوں نے زمین کی بات میں سندھ کو بھارت کا حصہ بنانے کی کوشش کی، لیکن یہ اچھی نہیں ہوگا...
اس سندھی ماحول کو بھارتی وزیر دفاع کا توجہ آنے سے پہلے کیا تھا؟ یہی بات ہے کہ انھوں نے کچھ تاریخی ریکارڈ کو نافذ کرنا چاہئے لیکن اس پر ایک معقول منظر نامہ پیش نہیں کیا گیا ۔
مراد علی شاہ کی بات تھی کہ سندھ پہلے 1936 میں Aliحدگی اختیار کر چکا تھا اور اس کے عوام نے خودمختاری، وقار اور اپنی سیاسی شناخت کو ترجیح دیا تھی۔ لیکن وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کس طرح یہ ایک جدید بین الاقوامی منظر نامہ نہیں ہے۔
جون 2025 میں سندھ کی situation بہت مختلف ہو گئی ہے، اور اگر پوری تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سندھ کی ایک ایسی تاریخ ہے جس میں مختلف اقلیتوں کی موجودگی تھی، اور پوری تاریخ میں سندھ نے بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ میرا بھارت کے ساتھ اس وقت کی آگ نہیں ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ میں نے کچھ ماحولیاتی منظر ناموں کو دیکھا ہے جو میرے لئے بہت محبوب ہیں مریلی، یورپ میں سسکٹ رانج ہوٹل کا ایک منظر ، میرے لئے یہ سب کو دیکھنا ہے وہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ میری جانب سے ان کی پوری مدد ہو، میرے ساتھیوں نے میں ان کے ساتھ اپنی ماحولیاتی منظر نامہوں کو بھی دیکھا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ میں نے انھیں دیکھنے والے بھی نہیں، کیا یہ کچھ کوئی واضح نہیں کرتا؟