فیض حمید کی چائے کی پیالی نے خیبرپختونخوا کو بھرپور مہنگی کیا، اس سے اس صوبے کا خفاف ہو کر باقیہ علاقوں میں بھی اپنی موجودگی پر توجہ مرکوز کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کی فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو چار جرائم میں سزا سنائی ہے، اس کے بعد وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے تھے اور پاکستان تحریک انصاف کا غیر سرکاری مشیر بن گئے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے فیصلے پر کہا ہے کہ ‘قوم برسوں فیض حمید صاحب اور جنرل باجوہ کے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی‘، انہوں نے مزید کہا کہ ‘اللہ ہمیں معاف کرے اور طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کے اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے‘۔
آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ اس فیصلے نے ایک بات واضح کر دی ہے، یعنی پاکستان میں ’کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں‘ چاہے وہ کسی طاقتور ادارے سے ہی تعلق رکھتا ہو۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ’ہمارا صوبہ فیض حمید کی چائے کی پیالی کی وجہ سے متاثر ہوا‘، انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کوئی ایسی مخلوق نہیں کہ انہیں سزا نہ دی جا سکتی، پہلے ریاست آتی ہے اور پھر سیاست، اور ریاست سے بالاتر کوئی نہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا ایک حساس صوبہ ہے اور یہاں دہشت گردی کی روک تھام ناگزیر ہے، اس لیے انہوں نے کہا کہ وہ سزا پر خوشی کا اظہار نہیں کر رہے، لیکن احتساب کے عمل پر ضرور خوش ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فیض حمید جن معاملات میں ملوث تھے، وہ سب پر واضح ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض حمید کو سزا ملنا خوش آئند ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فوج میں احتساب کا مضبوط نظام موجود ہے۔
رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا کہ فیض حمید ٹاپ سٹی کیس سمیت مختلف معاملات میں ملوث تھے اور اُن پر سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت کا الزام بھی ثابت ہوا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف جو ’جعلی مقدمہ‘ بنایا گیا تھا، اس میں بھی فیض حمید کا کردار تھا۔
فیصل کریم کنڈی کے باتوں پر بھی غور کرنا چاہئے۔ وہ بانی پی ٹی آئی ہیں جو اس صوبے کو ایک ’جھنڈا‘ بنانے کا مقصد رکھتے تھے، اور اب ان پر سزا لگائی جا چکی ہے۔ وہ باتیں تو بے پناہ ہیں۔ کیا ان کے لیے ’احسाब‘ کی بات جھوٹی تھی؟
ہا ہا ہا! یہ سزا فیصل اور جلاس کی پیالی کی طرح ایک نئی چائے ہو گئی ہے، اب خیبرپختونخوا کو بھرنا پڑے گا! اور وزیر دفاع کا کہنا کہ ’قوم برسوں‘ کس بات کی? وہ صرف ایک چائے کی پیالی پر چڑھ گئے ہیں نہ کہ برسوں کا قائل!
فیاض حمید کی حقیقت وہاں ہے جہاں انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، اور اب وہاں اس کو ختم کرنا پڑا ہے। اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہPolitics بھی ایک قانون کی جگہ ہے، جس کی طاقت کسی بھی شخص کو نہیں باہر کر سکتی۔
گورنر کنڈی جی اپنی بات سے پورا صدر جنرل آصف کا تعلق دکھانے میں کامیاب رہے، انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو ایک قانون کی جگہ قرار دیا ہے۔ لیکن ایسا کبھی بھی ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ رانا ثناء اللہ کے نتیجہ اور فوج کی احتساب دھندل کی واضح بات ہو گئی ہے. انہیں اپنی بات سے ایک اہم پیغام فراہم کرنا چاہیے کہ فوج کو بھی کسی بھی شخص کو قانون کے اسڈے پر نہ رکھا جاسکتا ہے۔
آزاد سینیٹر فیصل واوڈا جی کی بات پر نظر ڈالنا چاہیے اور کہna chahiye کہ politics ki ek taraf par kisi bhi kaam se bhi naye cheezon ko pehchanna zaruri hai.
یہ کتنا عجیب ہے کہ ایسے افراد کو پھانسی سزا دی جاتی ہے جوPolitics Saza Diya Gae Hain?
گورنر خیبرپختونخوا نے بانی پی ٹی آئی پر احتساب کا زور دیا، لیکن یہ کیا اس نے اپنی وadera کی توثیق نہیں کی? اور وزیر دفاع کو کتنے حد تک استحکام کا تعلق ہے؟
لیکن یہ بات سچ ہے کہ اگر فوج میں احتساب کا نظام موجود ہوتا تو فیض حمید کو یہ سزا نہ دی جاتی. اور رانا ثناء اللہ نے بھی ایسا ہی کہا ہے. politics aur justice dono kaafi confusing hai!
ایسے جیسے فائسر ہونے سے پہلے کی بات تو اچھی ہوتی، لیکن اب یہ پوچھنا مشکل ہو رہا ہے کہ فوج نے یہ کیا بنایا? فائسر کو بھرپور مہنگی کیے کرکٹ ٹیم کو بھی اپنی طرف موڑ دیجے گئے? اور اب جب اسے سزا دی گئی تو پوری نئی نسل ان کے حامی ہو رہی ہے؟ یہ تو تھोडا بھرپور ہوا دکھائی دیتا ہے!
フィض حميد کو سزا دی گئي ہے اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان میں قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے، حالانکہ کسی بھی طاقتور ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس پر بات کر رہے ہیں۔ فیض حميد کی سیاسی سرگرمیوں نے خیبرپختونخوا کو متاثر کیا اور اب وہاں دہشت گردی کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنا پڑ رہا ہے، یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ معاف کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اس کو مستقل حل بنانے کا نہیں۔
اس فیصلے کی واضح بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو ناکاموں کو محفظہ اور سزا ملتی ہے وہی ناکاموں کے لیے کچھ نئی دیر ہے، پھر یہ سبھی تو ایک طویل و ممتاز تاریخ کے ساتھ آ رہا ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ ایک لامحدود فخر کے ساتھ، جو اس فیصلے پر خوشی بھی کرے گا؟
فیض حمید کی چائے کی پیالی نے پاکستان کو ایک ایسا موقع پیش کیا ہو گا جس پر انہیں اپنی فتوحات کو منسلک کرنا پڑے گا، حالانکہ اب وہ اپنے فوجی عہد کی یاد لگا رہے ہیں جب انہوں نے پاکستان کو ایک اچھے پوزیشن پر کھینچ دیا تھا، اب وہ اپنی فتوحات کی یاد لگا رہے ہیں اور اپنے خلاف دباؤ میں رہتے ہیں۔
کسی ایسے معاملے کو اپنی فوج میں اچھی طرح جائز کرنے سے پہلے اسے سیاسی سرگرمیوں کی مہم کے طور پر پیش کرنا نہایت غیر صحیح ہے۔ فیض حمید کی چائے کی پیالی نے خیبرپختونخوا کو بھرپور مہنگی کیا، اور اب وہاں ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ کسی بھی شخص سے اچھی طرح جائزہ لیا کرنے اور اس پر سرکار کی سزا دی جائی، نہیں تو وہ فوج میں باوجودت رکھتا ہو گا یا کئی دوسرےPolitical Party کا مشیر بن کر بیٹھ جائے گا
فیصل کریم کنڈی کی ایسی بات تو واضح ہے کہ پاکستان میں کسی کو قانون سے بالاتر نہیں کرنا چاہیے، لیکن دوسری طرف یہ بھی بات واضح ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں ماحول بدل گیا اور اب انہیں اپنی موجودگی پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گا، یہ بات تو اچھی ہے لیکن دوسری بات یہ ہے کہ فیض حمید کو سزا ملنا جس کی وجہ سے ان کے سیاسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز نہیں ہوا تو وہ politics میں مزید اچھا رہتے، یہ سب ایک گھڑی کی چندی ہے۔
فیض حمید کی چائے کی پیالی کو ہر وقت دیکھتا رہوں، یہ دکھای نہیں دے گا کہ وہ کس طرح بھرمار ہوتے ہیں؟ اس کے بعد ان کی سزا ملانے پر صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ ناخوش خویہ ہو رہا ہے، یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ اپنی موجودگی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں؟
بہت اچھا کیا گئا۔ اب پاکستان میں کسی بھی طرف پر پہلے ریاست کی بات کرنا چاہے جس کی پہلی سیاست ہو، اس کو سزا ملنی چاہیے تاکہ لوگ کچھ سے سीख رہنے کا موقع فراہم ہو۔ فیصل واوڈا کی بات بہت سچी ہے، یہی معشوقہ سیاست کا سب سے اچھا معاملہ ہوتا ہے جس میں کسی کو سزا ملنی چاہیے۔
یہ ایک دیرپا معاملہ ہے اور پاکستان کی فوج کو سنجیدگی سے کیا گیا ہے، فیاض حمید صاحب کے ساتھ اس کے تعلقات بھی توجہ دیتے ہیں، لیکن ان کے معاملات میں فوج کا استحکام اتنا زیادہ نہیں ہو سکتا، خیبرپختونخوا کو ایسا معزز کرنے والی چائے کی پیالی اور فیصل کریم کنڈی صاحب کا مشاورتی دور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب کچھ کا حصہ لینے والوں میں سے ہیں، لیکن انھوں نے پتہ چلا ہے کہ ’کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں‘، اس بات پر یقین کیا گیا ہے اور اب وہی اسی پالیسی پر چلتے رہتے ہیں
میں نے یہ پتہ چلا ہے کہ فیعلم حمید کو سزا دی جائے گی تو ان کے سیاسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے والے دیگر علاقے بھی ان کا ध्यान اپنی طرف موڑ لیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فیعلم حمید کی سیاسی سرگرمیوں نے خیبرپختونخوا کو بھرپور مہنگی کیا اور اب وہاں دہشت گردی کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنا پڑ رہا ہے۔
لیکن میں یہ مانتا ہوں کہ فیعلم حمید کی Political سرگرمیوں کو ٹھیک سمجھنا ہوگا، ان کے سیاسی تجربات اور ان کی صلاحیتوں کو ایک سیاسی نظام میں تبدیل کرنا ہی سچمڈار گزرشہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سزا ہی نہیں ملنی چاہئیے بلکہ ان کی حقیقت کو سامنے لاتے ہوئے پہچاننا چاہئیے، جبکہ فیصل واوڈا کے اس بات پر زور ہی ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کو قانون کے اندر رہتے ہوئے ہی سمجھایا جائے۔
کیوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کی طرف سے دی جانی وال فوری سزا ایک دیکھ بھال کارکردگی پر مبنی نہیں، بلکہ اس بات کو محسوس کرنا چاہتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی اور کی جانب سے جاسوسی یا مداخلت کرتا ہے۔
لہٰذا فیصل حمید کی سزا کا معنیہ یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بھالوں والا شخص بن گئے، بلکہ اس وقت سے پاکستان فوج کے لیے ایک دیکھ بھال کارکردگی پر مبنی نزاع کی صورت میں پھنس گیا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ فیصل حمید نے اپنے سیاسی کاموں سے دور ہونے کی بھال کی، لیکن یہ بات کبھی یقینی نہیں ہوتی کہ اس سے جسمانیت میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں؟
فیض حمید کی وہ چائے کی پیالی جس نے خیبرپختونخوا کو لہرایا تو یہاں کے لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی اثر پڑا ہوگا ، میں بھی سوشل مीडیا پر ان کے حوالے سے لوگوں کو تھوڑی سے چائے کھلنے کا موقع دیا کروں گا
جب تک ہر ایسے شخص کو جسے پیٹیوں پر چائے دے کر اُس کی سرزمین کو مہنگا بنا دیا جاتا ہے، تو وہی بھی اُس کے لئے ایک مہنوت تھا۔ پھر یہ بات تو نہیں ہوسکتی کہ وہی شخص جسے لوگ مہنگا بناتے ہیں اُس پر فوج کی سزا دیکھنا خوش آئند ہے۔