فیصل چودھری نے کہا ہے کہ ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کے مطابق نہیں دیا گیا،Political معاملات اس انداز میں چل رہی ہیں کہ عوام کی ترجیحات پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ آئینی ترامیم پر بحث جاری ہے مگر 27ویں اور 28ویں آئینی ترمیم کی وضاحت کچھ نہ کچھ آن لائے،Political فیصلے عجلت میں کیے جا رہے ہیں، جبکہ ایسے اہم معاملات پر تحمل کے ساتھ شفاف فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
فیصل چودھری نے ووٹ کے عمل میں شفافیت اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے، اور پارٹی لائلٹی کے ساتھ قانون سے وابستگی کو مضبوط رکھا جائے۔ ان کی یہ واضح جانب نزیع ہوئی ایسی بات جو کہ دوسرے سیاسی عہدوں پر رکن بھی اس وقت سے اپنے حلف کی بات کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ پارٹی کو محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن فیصل چودھری نے کہا کہ پارٹی لائلٹی اور قانون سے وابستگی اس وقت کی بنیاد پر رکھنی چاہئے جب ووٹاتہ عوامی مفاد میں ہوں اور پارٹی کے مفادات کو دیکھتے ہوں، لیکن آج وہاں ووٹاتہ صرف ایسے لوگ آئے ہیں جو اپنے حلف کی بات کرنا چاہتے ہیں اور پارٹی کو محفوظ سمجھتے ہیں، جس سے وہ پارٹی کے مفادات کو دیکھتی ہیں۔
مگر اس وقت بھی ان کا یہ سوال رہتا ہے کہ جب تک پارٹی لائلٹی اور قانون سے وابستگی ایسی نہ ہو جس پر ووٹاتہ عوامی مفاد میں ہوا، تو وہاں ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کے مطابق نہیں دیا گیا، اس وقت تک ان کےPolitics سے آگے بھی جس بات پر گفتگو کی جا سکتی ہے اسی بات پر.
عقیل ملک نے کہا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی رحلت قومی سطح پر ایک بڑا نقصان ہے، اور اگر ووٹ برابر رہتے تو چیئرمین سینیٹ کا فیصلہ کن کردار ہوتا۔
اس وقت کو ناقد میں لاتے ہوئے عقیل ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ لمحہ غور طلب ہے کہ ایک اپوزیشن ووٹ نے حکومت کو سہارا دیا،Politics میں اصولوں کی پاسداری سب سے زیادہ اہم ہے۔ صادق سنجرانی کے وقت بھی وفاداریاں بدلی گئی تھیں، تب بھی اسے غلط کہا گیا تھا، تو آج کیوں نہیں؟
عقیل ملک نے کہا کہ ن لیگ کی قیادت ہمیشہ پارٹی وابستگی اور ڈسپلن پر زور دیتی ہے،Political وفاداری وقت مفاد پر قربان کرنا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ووٹ کا احترام اور پارٹی ڈسپلن ہی Politics کی بنیاد ہے، اور پارلیمانی نظام میں استحکام اس وقت ممکن ہے جب ارکان اپنے حلف کے مطابق عمل کریں۔
ہا ان سینیٹر عرفان کی رحلت ہونے پر دوسروں کا بھی شोक ہو گیا اور ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔
اس لیے پی ٹی آئی میں politics کے اصولوں پر بات کرنا چاہئے، انھیں توسیع دےنیے اور ووٹ کی صورت میں عوامی مینڤٹ اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔
اس لیے Politics کے اصولوں پر بات کرنا چاہئے، انھیں توسیع دےنیے اور ووٹ کی صورت میڑ عوامی مینڈٹ اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔
اس ووٹنگ سسٹم میں عوامی مفاد کی بات بہت لگ رہی ہے، مگر ابھی تک ووٹ کے عمل میں شفافیت کی بات نہیں کی گئی اور پارٹی لائلٹی کے ساتھ قانون سے وابستگی کو بھی ٹال دیا گیا ہے، یہ لوگ ووٹ کے عمل میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کے مطابق نہیں آ رہے، پھر کیا Politics میں فتوحات یا حظوظ کا خیال ہے؟
اس وقت پی ٹی آئی پر ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کا کوئی احترام نہیں کیا گیا، اس کا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر politics ko aage badhne ka koi tomat nahi hai.
ਇੰਗਿਤ ਹੈ ਕਿ پی ٹੀ ਐਸ میں سیاسی معاملات عجلت سے چل رہی ہیں اور عوامی مفاد کو پس منظر میں چلی گئی ہے। فیصل چودھری کا یہ مشورہ حقیقہ جا سکے گا کہ پارٹی لائلٹی اور قانون سے وابستگی ایسی نہ ہو جس پر ووٹاتہ عوامی مفاد میں ہوا، تو وہاں ووٹ کی صورت میں عوامی مینڡیٹ اور عوامی مفاد کے مطابق دیا گیا ہو سکتا ہے۔
فیصل چودھری کی بات پر توجہ دیتے ہوئے، ووٹاتہ عوامی مفاد میں نہیں دیا گیا اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق نہیں، یہ بات تو صوتبے پر نہیں ہوتی وہی بات جو Politics کی بنیاد ہے اور پارلیمانی نظام کو استحکام دیا جائے گا۔
جس طرح فیصل چودھری نے کہا کہ پارٹی لائلٹی اور قانون سے وابستگی ایسی ہونی چاہئے جو عوامی مفاد میں ہو، وہی بات جو Politics کی بنیاد ہے، مگر اب ووٹاتہ صرف ایسے لوگ آئے ہیں جو اپنے حلف کی بات کرنا چاہتے ہیں اور پارٹی کو محفوظ سمجھتے ہیں، یہ واضح جانب نزیع ہوئی بات ہے جو Politics سے متعلق ہو رہی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کی رحلت کا ایک بھی دیر نہیں رہ سکا، انہیں قومی سطح پر اپنی ایسی محبت اور تعZY کا شکار ہو گیا ہے جس سے politics کی ایسی حقیقت ظاہر ہوئی ہے کہ ووٹاتہ صرف اسی لیے آتے ہیں کہ انہیں پارٹی کو محفوظ سمجھنے کی چال ہو۔ لگتا ہے کہ politics کو ایسا ہی دیکھنا چاہئیے جیسے ایک گریجویشن سسٹم ہو، جس میں س्टूडنٹز اپنے حلف کی بات کرنے کے لیے ووٹ لگاتے ہیں نا؟
اسٹیوڈنٹوں کو انہوں نے آپ کی ایسے پالیسیز پر بات کروائی ہے جن سے وہ پارٹی میں اپنی وفاداری کو دیکھتے ہیں، لیکن وہاں یہ سوال ہے کہ کیا انہوں نے عوامی مفاد اور مینڈیٹ کو دیکھا یا صرف اپنے پارٹی کی وفاداری کو دیکھا، جبکہ ووٹسٹھ یہ دیکھتے ہیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور وہ عوامی مینڈیٹ کو کیسے پورا کر سکتے ہیں?
یہ بات کوئی نہ کوئی راسخ رہتا ہے کہ ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کا خیال کرنا بہت ضروری ہے، لیکن اگر Politics کا انار دھنیا ہے تو وہی ہوتا ہے جو معاملات کو ایسے رکھتا ہے جس سے عوام کو لाभ ہو اور پارٹی کے مفاد کو بھی پورا ہو سکے. اِسی وقت تک Politics میں آنंद اور تحمل کا بھرپور ماحول رہنا چاہئے اور ووٹ کی صورت میں عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے.
اس ووٹ کے بعد، لوگ وہی بات رہتے ہیں جو پچھلے کھیل میں بھی کیا جاتا تھا۔ اگر وہ آپنی پارٹی کی وفاداری کو آخری قدم تک نہ لے، تو ووٹ کے بعد ان کے Politics میں کوئی معنی نہیں رہتا۔
تمام بات یہ ہے کہ آپنے حلف کی بات کرنا ایک عظیم فلاح کا کام ہے، اور آپ سارے ملک میں ووٹ کے عمل کو بھی اچھا بنا دیں گے!
عقیل ملک بھی بہت سچ کہتے ہیں، politics میں اصولوں کی پاسداری اور ووٹاتہ پر فخر کیا گیا نہیں، اس وقت تکPolitics سے آگے بھی جس بات پر گفتگو کی جا سکتی ہے وہی بات ہے جس پر فیصل چودھری کہتے ہیں، ووٹ کا احترام اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ ن لیگ کی قیادت ایسی نہیں ہونی چاہئے جو Politics میں اصولوں کی پاسداری نہ کرے، بلکہ ووٹاتہ پر فخر کیا جائے اور پارٹی ڈسپلن کو محفوظ سمجھا جائے۔ اس وقت تکPolitics میں صحت مند فیصلے کیے جا سکتے ہیں جب ارکان اپنے حلف کے مطابق عمل کریں، اور ووٹاتہ عوامی مفاد میں ہوا تو پھر وہاں Politics کی بنیاد پرستت ہوتی ہے۔
بیاڈرڈی، یہ سوال اچھا ہے کہ ووٹ کی صورت میں عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد کے مطابق نہیں دیا گیا؟ Politics میں اصولوں کی پاسداری سب سے زیادہ اہم ہے، لیکن ووٹاتہ صرف ایسے لوگ آئے ہیں جو اپنے حلف کی بات کرنا چاہتے ہیں اور پارٹی کو محفوظ سمجھتے ہیں، تو یہ کیسے؟ اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے یا ووٹاتہ صرف ایک بار سے نہ دیا جائے؟
عقل دی لینا ہو گیا ہے، یہ نئی سی صورت حال میں ووٹ کو عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد سے جدا کرنا کس طرح کیا جا سکے گا؟ میرے خیال میں جب تک Politics ہونے والا فیصلہات صلاحیت کی بنیاد پر نہیں لیا جاتے، تو وہ صرف آرٹیفیشل ہو کر رہتے ہیں۔
عقل دی لینا ہے،Politics سے بات کرتے SAMے تو یہ سیکھنا چاہئے کہ ووٹاتہ عوامی مینڈیٹ اور عوامی مفاد میں ہوا تو وہ صرف ایسا ہونا چاہئے جو پارٹی کو محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن ووٹاتہ ہمیشہ ایسی بات کے لئے نہیں آتے جس پر اس کی زندگی اور مستقبل کا حلف دیا جا سکے۔