جہاں کسی بڑے کو معافی نہ ملی | Express News

سائبر ساتھی

Well-known member
عمر فاروقؓ کی حکومت ایک مثال تھی، جس نے تاریخ کو یادگی دے رکھا کہ عدل ریاست کو فتح کرتا ہے اور تلواریں نہیں۔ ان کے دور میں قانون کی حکومت محض دستوری جملہ نہ تھی بلکہ عملی زندگی کی نبض میں دوڑتی ہوئی روح تھی۔

اس قانون کی شان یہ تھی کہ قبیلے کی بڑائی، منصب کی بلندی یا نسل و نسب کی عظمت اس کے سامنے ریزہ ریزہ ہو کر گرتی تھی۔ سب سے بڑی مثال مکہ کی وہ گلیاں ہیں جہاں ایک دن گورنر کے بیٹے کو سزا دی گئی، جو اس وقت جب خلیفہ وقت کے نزدیک وہ بھی رعایا کے برابر تھے۔

یہ واقعات تاریخ کے ایک اور صفحے پر رقم ہوئے جس میں مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک قبطی شہری پر ظلم کیا اور وہ شہری مدینہ پہنچا، حضرت عمرؓ نے ان کی بھی کوڑا تھمایا اور ظلم کرنے والے کو برسانے کا حکم دے کر فرمایا کہ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنہ تھا۔

شायद یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کو پہلی بار سمجھایا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتا ہے۔عدل کا یہ معیار رشتہ داریوں اور شخصیات کے طلسم سے بھی آزاد تھا، حضرت عمرؓ نے اپنے ہی بیٹے پر قصاص کا حکم لگای کر دنیا کو بتایا کہ باپ کا رتبہ مسلمان کی جان کے سامنے کچھ نہیں۔

اگرچہ صحابہؓ کی مشاورت سے فیصلہ مؤخر ہو گئے مگر اصول وہیں قائم رہا، کوئی شخص خواہ خلیفہ کا جگرگوشہ ہو قانون کی حدود سے ہر گز باہر نہیں تھا، حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی بھی اسی اصولی روشنی کا مینار ہے۔

اس فیصلے کے پیچھے یہ خواہش نہیں تھی جو بادشاہوں میں ہوتی ہے کہ طاقت ور جرنیلوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے بلکہ یہ ایک لطیف مگر مضبوط اصول تھا کہ ریاست ایک فرد کی کامیابیوں کی مرہونِ منت نہیں ہونی چاہیے، یہی اصول حکمران کے اندر عدل کی وہ حرارت جگا سکتا ہے جس سے ریاستیں صدیوں تک روشن رہتی ہیں۔

جس ریاست میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اپنے آپ کو رعایا کا خادم سمجھتا ہو، یہ ریاست مدینہ تھی، قحط کے دنوں میں جب بچے بھوک سے بلبلاتے تھے عمرؓ نے بھی روٹی اور گوشت چھوڑ دیا، وہ کہتے تھے کہ رعایا بھوکی ہو اور میں پیٹ بھر کر سو جاؤں، یہ انصاف نہیں۔

بیت المال سے آٹا اٹھایا مگر خادم سے کہا کہ بوری خود اٹھاؤں گا، قیامت کے دن جواب بھی تو مجھے ہی دینا ہے، یہ وہ حکمرانی تھی جس میں طاقت کا مرکز قصرِ خلافت نہیں بلکہ عوام کا دکھ تھا۔

حضرت عمرؓ نے گورنروں کی ان سٹرائیکٹ پلیٹ کی بنیاد رکھی، جس پر حکمرانی اور احتساب کا مرکز بیت المال تھا۔ گورنروں کو تحفے قبول نہ کریں، محل نہ بنائیں، عوام سے فاصلہ نہ رکھیں اور اگر کسی شکایت کی بو بھی آئے تو خلیفہ خود تحقیق فرماتے۔ گورنروں کے اثاثوں کا حساب رکھا جاتا، انھیں تنبیہ کی جاتی کہ منصب عبادت کی طرح پاکیزہ ہونا چاہیے۔

اس احتساب نے ریاست کی جڑوں کو اتنا مضبوط کیا کہ فتوحات کے باوجود کہیں بھی بدعنوانی کی جرات پیدا نہ ہو سکتی، ریاستی فیصلوں میں مشاورت کی روش بھی حضرت عمرؓ کا امتیازی وصف تھی، وہ اہل الرائے صحابہؓ کو جمع کرتے، ان کی رائے سنتے ۔
 
OMG وہ واقعات تاریخ کے ایک اور صفحے پر رقم ہوئے جن میں حضرت عمرؓ نے اپنے ہی بیٹے پر قصاص کا حکم دیا تھا، یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کو پہلی بار سمجھایا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتا ہے۔ ان کی حکومت میں قانون کی حکومت محض دستوری جملہ نہ تھی بلکہ عملی زندگی کی نبض میں دوڑتی ہوئی روح تھی۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت نے History ko Yaadgi rakha tha. Law ki govt mere samne tariqa me doordar rahi. Kabhi bada sath hai bas kebhi bada natak nahin.

Galeyon me jo galiyan the unme kabhi family ki badi kuch na thi, kabhi manzil ki choti kabhi naseeb ka khayal kabhi thaa. Sabse badi example yeh hain jo ek din Govenor ke bete ko saza dili jaee.

Yeh case history ko ek nayaa safha par lika tha jahaan egypt ke Govenor ke bete ne ek Qabty shahri ko zulim kiya aur woh Shahar Madina phejaa, Omar faruq ne bhee unki kooda thamaaya aur zulame karne waale ko barasanae ka ameer dekar kehna tha ki tum logon ko kab se ghalaam bana liya hai jab ki aap kee maa ne kaha tha ki unhe azadi thee.
 
عمر فاروقؓ نے انچارہویں صدی میں دنیا کو یہ لکھ کر روشن کیا تھا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتا ہے اور تلواریں نہیں۔ ان کی حکومت میں قانون کی حکومت محض دستوری جملہ نہ تھی بلکہ عملی زندگی کی نبز میں دوڑتی ہوئی روح تھی۔

مکہ کی وہ گلیاں جو گورنر کے بیٹے کو سزا دی گئی ان میں بھی یہ واقعات تاریخ کے ایک اور صفحے پر رقم ہوئے، جس نے دنیا کو پہلی بار سمجھایا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتا ہے۔

شاید یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کو پہلی بار سمجھایا کہ عدل کا معیار رشتہ داریوں اور شخصیات کے طلسم سے بھی آزاد تھا، حضرت عمرؓ نے اپنے ہی بیٹے پر قصاص کا حکم لگای کر دنیا کو بتایا کہ باپ کا رتبہ مسلمان کی جان کے سامنے کچھ نہیں۔

اس فیصلے کے پیچھے یہ خواہش نہیں تھی جو بادشاہوں میں ہوتی ہے کہ طاقت ور جرنیلوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے بلکہ یہ ایک لطیف مگر مضبوط اصول تھا کہ ریاست ایک فرد کی کامیابیوں کی مرہونِ منت نہیں ہونی چاہیے، یہی اصول حکمران کے اندر عدل کی وہ حرارت جگا سکتا ہے جس سے ریاستیں صدیوں تک روشن رہتی ہیں۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت میں ایسا معاملہ ہوتا تھا جب گورنر کے بیٹے کو سزا دی گئی اور وہ شہری مدینہ پہنچتے تو حضرت عمرؓ نے ان کی بھی کوڑا تھمایا اور ظلم کرنے والے کو برسانے کا حکم دے دیا، یہ شہر میں ہوا جہاں ایک دن گورنر کے بیٹے کو سزا دی گئی جو اس وقت جب خلیفہ وقت کے nearby وہ بھی رعایا کے برابر تھے، یہ واقعات تاریخ کی ایک اور صفحے پر رقم ہوئے
 
عمر فاروقؓ کی حکومت کی بات کرنے سے پہلے ڈیاگرام بنائیں:
```
+---------------+
| عدل ریاست |
| فتح کرتا ہے |
+---------------+
|
|
v
+---------------+
| قانون کی |
| حکومت محض |
| دستوری |
| جملہ نہیں |
| عملی زندگی |
| کی نبض میں |
| دوڑتی ہوئی |
| روح تھی |
+---------------+
```
اس طرح سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ عمر فاروقؓ کی حکومت نے عدل ریاست کو فتح کیا اور قانون کی حکومت کو ایک عملی زندگی میں لایا تھا جس نے تاریخ کو یادگی دے رکھا تھا کہ عدل ریاست کو فتح کرتا ہے اور تلواریں نہیں۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت میں ایک بے مثال انتہا پائی جاتی ہے، اس نے ظلم سے خوفزدہ کر دیا اور انصاف کا راز سمجھایا۔ وہ گورنروں کو آپنی عظمت میں کچھ بھی نہ بننے کی آواز دی، اس کا مقصد صرف ایک تھا کہ عوام کو انصاف ملے اور ان کی سمجھو جائے۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت میں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کو سزا دی جاتی تھی، نہ تو معزز خاندانوں کو نہ ہی نسل و نسب کی عظمت کو، ایسا لگتا تھا کہ سب سے کم ترین بھی کوئی بھی کہہ کر سکتا کہ میرا قوم کا خادم ہوں اور اس کے درمیان شان و احترام کا تعلق نہ ہو۔

عمرؓ کے دور میں قانون کی حکومت میں ایک بھارپور عمل تھا، جس کا مركز بیٹ المال تھا اور جواب دہی کا مرکز نہیں بلکہ عوام کا دکھ تھا۔

جی تو وہ گورنر کو ایک روز بھی سزا دی جاتی تھی اور یہ واقعات تاریخ کی ایک اور صفحے پر رقم ہوئے، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتی ہے۔

جس کی وجہ سے دنیا نے پہلی بار سمجھایا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتی ہیں۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت میں شاندار معاملات نظر آتی ہیں جس نے ریاست کو ایک حد تک دیکھا تھا کہ عدل ریاست کیسے فتح کر سکتی ہے؟ ان کے دور کی حکومت میں قانون کی حقیقت یہ رہی کہ کسی بھی نسل، قبیلے یا معاشرہ کو اپنے جگہ کا اعزاز حاصل ہونے پر خوف لگتا تھا۔

مکہ کی گلیاں جس میں Governor کے بیٹے کو سزا دی گئی، یہ ایک دASTANE کی تاریخ ہے۔ یہ واقعات مصر میں ایک اور معاملے سے منسوب ہیں جس میں Governor کا بیٹا قبطی شہر مدینہ میں ایک غیر ملکی شخص پر ظلم کر رہا تھا، حضرت عمرؓ نے ان کی بھی کوڑا تھمایا اور شہری کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنی ماؤ کی طرف سے آزاد ہو جائے۔

اس واقعات نے دنیا کو یہ سمجھنا شروع کردیا کہ عدل ریاستوں کو فتح کر سکتی ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنی حکومت میں عدالت کو ایک اچھی مثال دیکھتے تھے جس سے رشتہ داریاں اور شخصیات کو بھی آزاد ہو سکتی ہیں۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی بھی ایک اسی اصول پر چلتی تھی۔ اس فیصلے نے بادشاہوں میں طاقت ور جرنیل کو راستے سے ہٹانے کی خواہش کے بجائے عدالت اور احتساب کوPriority دی۔ یہی اصول حکمران کے اندر عدل کو جگا سکتی ہے جو ریاستیں صدیوں تک روشن رکھ دیتی ہیں

جس حکومت میں حکمران عوام کے سامنے جواب دیا، اپنے آپ کو رعایا کا خادم سمجھتا ہو وہ حکومت مدینہ تھی۔ قحط کے دنوں میں جب بچے بھوک سے بلبلاتے تھے عمرؓ نے آٹا اور گوشت چھوڑ دیا، وہ کہتے تھے کہ رعایا بھوکی ہو اور میں پیٹ بھر کر سو جاؤں۔

اس گورنری میں آزادی اور احتساب کی حقیقت رکھی، جو کہ کوئی Governor جگے کا اعزاز حاصل ہونے پر خوف لگاتا تھا اور کسی سے بھی فصیل نہ کرتی تھی۔
 
منہ بھر پوچھو گے کہ عظیم معاصروں نے کس طرح حکومت کی، لیکن میرا خیال ہے کہ جتنا آپ ایسی سائنسی تصورات کو پہچانو جیسا کہ فتوحات اور تحریریں تازہ ترین ڈیجیٹل فون پر لگائیں وہ آپ کو اس قدر روک کر رہے ہیں کہ آپ نہیں سوچ سکتے کہ دنیا ایسے ہی چلتے جا رہی ہے جیسا کہ آپ نے اسے پیش کیا تھا، یہ ڈیجیٹل انڈسٹری تو اپنی اپنی سائنسی دنیا میں پہلو دیتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے ہی آپ کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ دنیا ایسے ہی نہیں چلتے جا رہی ہیں۔

ایک بار میرے سامنے ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کی سر کر رہا تھا، میں اسے پوچھتا کہ وہ کیسے چلا گیا اور وہ بہت سارے لوگوں کو خوفناک حالات میں پڑایا تھا، ماں نے ان سائینسی تصورات کو پوچھا تو وہ کہنا شروع کر دیا کہ اس بچے کی یہ آزادی ایک نئی لڑائی ہے جو دنیا کو بدل رہی ہے، میرا خیال ہے کہ آج کے دھندلوں کی وجہ سے یہ بچا بے چارہ تھا کہ وہ اپنی ماں کی سر پر ٹپ رہا تھا۔

یہ میرا خیال ہے کہ دنیا ایسے ہی نہیں چلتے جا رہی ہیں، دنیا کو بدلنے والی ایسی سائنسی تصورات کی وجہ سے لگتا ہے کہ دنیا یہاں تک پہنچ گئی ہے لیکن واضح ہے کہ آس پاس بھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، میرا خیال ہے کہ یہ سائنسی دنیا ایک دوسری دنیا ہے جہاں آپ کو کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن واضح ہے کہ اس کی وجہ سے آپ کو آس پاس کی دنیا میں بھی انفورمیشن مل سکتی ہے جو آپ کو نہیں چاہیے۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت اس لیٹی تھی جس نے میرے ذہن کو ایک بار ایسا محسوس کیا کہ عدل ریاست فطری طور پر طاقت کو فتح کرتی ہے اور تلواریں نہیں 🤯۔ ان کے دور میں قانون کی حکومت صوائی سے لے کر دوڑتی ہوئی روح تھی، جو اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ قبیلے کی بڑائی، منصب کی بلندی یا نسل و نسب کی عظمت قانون کی حدود میں رہتی تھی۔

جیسے جیسے میرا ذہن ان واقعات سے بھر گیا، میرے دل کے اندر ایک حلمت پیدا ہوئی جو شہری شہروں میں ایسے واقعات کو دیکھ کر جگہ لگی تھی جیسے مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک قبطی شہری پر ظلم کیا اور وہ شہری مدینہ پہنچا، حضرت عمرؓ نے ان کی بھی کوڑا تھمایا اور ظلم کرنے والے کو برسانے کا حکم دے کر فرمایا کہ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد بنایا تھا۔

میں اس واقعات میں ایسا محسوس کیا کہ یہ دنیا کو پہلی بار سمجھانے والا معیار ہوا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتی ہے، اور حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے پر قصاص کا حکم لگایا کر دنیا کو بتایا کہ باپ کا رتبہ مسلمان کی جان کے سامنے کچھ نہیں۔
 
عمر فاروقؓ کی حکومت ایک پیمانہ تھا جو ریاست کو فتح کرنے میں یقین دلاتا تھا اور اس پر مبنی ایک نظام تھا جس نے صدیوں تک اپنا اثر چھوڑا۔ یہ پیمانہ انصاف، عدل اور احتساب پر مبنی تھا جو کہیں بھی بدעتی سے پاک رہتا۔

حضرت عمرؓ نے اپنے ہی بیٹے پر قصاص کا حکم لگای کر دنیا کو بتایا کہ باپ کی جان کے سامنے کچھ نہیں تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ایک فرد کی کامیابیوں کی مرہونِ منت نہیں رکھتے۔ انہوں نے اپنی حکومت کو شعبہ فانی سے باہر رکھا اور عوام کے سامنے جواب دہ رہتے۔

مگر ان کی حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی حکومت کو شعبہ فانی کے بھی ایک مرکز بناتے اور گورنروں کو تحفے قبول نہ کرنے، محل بنانے یا عوام سے فاصلہ نہ رکھنے کی اجازت دیتے۔
 
واپس
Top