پنجاب کی سرکاری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا قانون منظور کر لیا اور پی پی و پی ٹی آئی نے اسے مسترد کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی پنجاب حکومت کے نئی حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر بلدیاتی انتخابات کے لیے دسمبر میں ٹاکر دیا ہے۔ اس سے قبل 2022 میں پارٹی بنیاد پر دو مرحلوں میں بلدیاتی الیکشن کرائے تھے جو جماعتی بنیاد پر تھے اور پی ٹی آئی کی governments نے اپنے امیدواروں کو سرکاری وسائل کا استعمال کر کے کامیاب کیا ہے۔
کے پی میں ایسے انتخابات ہوئے تھے جو جماعتی بنیاد پر تھے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت جیت گئی تھی۔ مسلم لیگ نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور الیکشن کمیشن نےGovernment کی حکومت ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر دی ہے اور پی پی کی حکومت نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے جس پر مخالفین کو عدالت میں جانے کا موقع ملا ہے۔
جماعتی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں اپنی حکومت کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کیے اور سرکاری وسائل استعمال کرکے اپنے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا ہے۔ ماضی میں پنجاب، سندھ و کے پی کی حکومتیں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرا چکی ہیں اور انھوں نے آمرصدور اور گورنروں تک کو اہمیت دی ہے۔
جماعتی انتخابات میں امیدوار اپنی پارٹی کے احکامات کی پابند ہوتا ہے اور اپنے وزیر اعظم سے جائز بات بھی نہیں منو سکتا اور ان کی کرپشن پر خاموش رہتی ہے اور ان کے بلدیاتی نمایندے ہمیشہ حکومت وقت کی تعریفوں میں مصروف رہتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے اپنی حکومتوں میں پانچ بار بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور بلدیاتی نمایندے کامیاب ہو کر اپنے پارٹیوں کے وفادار رہے۔
آج تک حکومت نے اپنے امیدوار کو سرکاری وسائل کا استعمال کرکے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کیا ہے اور ایسے اداروں کو تعینات کیا ہے جو انتخابات سے راہ فرار اختیار کریں۔
یہ اعزاز صرف حکومت غیر سول governments کو حاصل ہے کہ انھوں نے آئین پر عمل کرکے ہمیشہ وقت پر بلدیاتی انتخابات بلائی اور اسمبلیوں کو ان میں شامل کیا لیکن وہ حکومت سے ایسا نہیں کیا جیسا کہ وہ ہی کرواتے ہیں۔
کے پی میں ایسے انتخابات ہوئے تھے جو جماعتی بنیاد پر تھے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت جیت گئی تھی۔ مسلم لیگ نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور الیکشن کمیشن نےGovernment کی حکومت ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر دی ہے اور پی پی کی حکومت نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے جس پر مخالفین کو عدالت میں جانے کا موقع ملا ہے۔
جماعتی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں اپنی حکومت کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کیے اور سرکاری وسائل استعمال کرکے اپنے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا ہے۔ ماضی میں پنجاب، سندھ و کے پی کی حکومتیں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرا چکی ہیں اور انھوں نے آمرصدور اور گورنروں تک کو اہمیت دی ہے۔
جماعتی انتخابات میں امیدوار اپنی پارٹی کے احکامات کی پابند ہوتا ہے اور اپنے وزیر اعظم سے جائز بات بھی نہیں منو سکتا اور ان کی کرپشن پر خاموش رہتی ہے اور ان کے بلدیاتی نمایندے ہمیشہ حکومت وقت کی تعریفوں میں مصروف رہتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے اپنی حکومتوں میں پانچ بار بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور بلدیاتی نمایندے کامیاب ہو کر اپنے پارٹیوں کے وفادار رہے۔
آج تک حکومت نے اپنے امیدوار کو سرکاری وسائل کا استعمال کرکے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کیا ہے اور ایسے اداروں کو تعینات کیا ہے جو انتخابات سے راہ فرار اختیار کریں۔
یہ اعزاز صرف حکومت غیر سول governments کو حاصل ہے کہ انھوں نے آئین پر عمل کرکے ہمیشہ وقت پر بلدیاتی انتخابات بلائی اور اسمبلیوں کو ان میں شامل کیا لیکن وہ حکومت سے ایسا نہیں کیا جیسا کہ وہ ہی کرواتے ہیں۔