اسریلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے پہلے ہی برطانیہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ممالک غزہ میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اسکرپٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی اشارہ دیا تھا کہ وہ غزہ میں ترک سکیورٹی فورسز کے کسی کردار کی سخت مخالفت کریں گے۔ اور یہ فیصلہ اسرائیل کرے گا کہ غزہ میں کن غیر ملکی افواج کو داخلے کی اجازت دی جائے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس ان ممالک پر مشتمل ہونی چاہیے جن پر اسرائیل کو اطمینان ہو۔
اسکرپٹ میں اسکرپٹ کی بات کرتے ہوئے یہ بات بھی پڑتی ہے کہ غزہ میں تعینات ہونیوالی بین الاقوامی فورس میں ترک فوج کی موجودگی قبول نہیں، اسرائیل کی جبکہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر اور آذربائیجان سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ وہ بین الاقوامی فورس میں اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی دفاعی حکام نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ غزہ میں 2 سالہ جنگ کے بعد استحکام قائم کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی فورس میں پاکستان کے فوجی دستے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
اس کا پتھر وار ہو رہا ہے! اسرائیل نے ایک بار फिर سے غزہ میں بین الاقوامی فورس کی بات چیت کرنے کی، اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ اس میں Turk Forces بھی شامل نہیں ہوسکیں گے!
اس وقت کو انکار کرنا تھا اور اب ایسا ہی رہ گیا ہے! پہلے غزہ میں فوج کھلاڑیوں کی بات چیت ہوئی، اب یہ کہہ کر ناتھن یاہو اپنی جگہ رکھ گیا ہے کہ اس میں Turk Forces شامل نہیں ہوسکیں گے!
اساابھی انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر اور قطر نے اسرائیل سے بات چیت کی، لیکن وہ بھی غلط رہے ہیں! اب تو پہلے جیسا ہو گیا ہے!
اس سلسلے میں، اسکرپٹ میڰسے کہیں اور بھی اسی بات چیت کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات دھیان رکھنی چاہیے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس میں Turks فوج کی شامل نہیں، اور اب یہ واضح ہے!
اسکروپٹ سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی۔
فریقین میں تو تعلقات انکار کر رہے ہیں، اور اب یہ کہہ کر اس سلسلے کو مزید زبردست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں!
اسسکرپٹ میں پھر سے ایسی ہی بات چیت ہوئی ہے۔ اور اب یہ کہہ کر اسے مزید تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں!
اسسکرپٹ سے واضع طور پر بات چیت کی گئی ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس میں Turks فوج نہیں شامل ہوسکیں گے! اور اب یہ واضح ہے!
اسکروپٹ سے ایسی ہی بات چیت کی گئی ہے، اور اب اس پر پھر سے توجہ مرکوز کرنا پڑے گا!
اس کے علاوہ، اسرائیل کے دفاعی حکام نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ غزہ میں 2 سالہ جنگ کے بعد استحکام قائم کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی فورس میں Pakistan کی فوجی دستے بھی شامل ہوسکتے ہیں!
اس اسکرپٹ سے پتھر وار ہونے کا اندازہ لگاتا ہے!
اسکروپٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی۔
فریقین کو اس سلسلے میں پتھر وار ہونا پڑے گا!
اسکروپٹ سے یہ بات چیت کی گئی ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس میں Turks فوج نہیں شامل ہوسکیں گے! اور اب یہ واضح ہے!
عرب دنیا کی پکڑ سے کچھ کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو کیا یہ بین الاقوامی فورس میں پاکستان، انڈونیشیا اور آذربائیجان کی بھی شامل ہونا چاہیے؟ وہ تمام ملک جن کی معیشت کو ڈھھل کر اس کے لیے بین الاقوامی فورس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ سب اسی طرح سے بھیجی گئیں اور اب ان پر یہ معیار تعینات کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فوج کی موجودگی کو قبول کر کے بین الاقوامی فورس میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔
اسکرپٹ میں اسرائیل کی سلیbach کو منصفانہ سمجھنا مشکل ہوگا ۔ انہوں نے ترک فوج کی موجودگی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ غزہ میں کسی غیر ملکی افواج کو داخلے کی اجازت دینے پر فیرھیندہ ہیں۔
سریلی وزیر خارجہ کا کہنا تو ہے جو ممالک غزہ میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے لیکن وہاں کیا منصوف ہوگا؟
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا اور اسرائیل کی سلیbach ایک دوسرے کے ساتھ نہ میں ملتا جلتا ہے، اس لیے یہ سوال ہی پوری نہیں ہوگا کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس میں ترک فوج کی موجودگی قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اسکرپٹ میں اسرائیلی-defense minister Natan Sharren nami کا بھی کہنا تھا اور یہ بات بھی پڑتی ہے کہ غزہ میں تعینات ہونیوالی بین الاقوامی فورس میں پاکستان کے فوجی دستے بھی شامل ہوسکتے ہیں، یہاں تک ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پر کیسے غور کرنے پائے؟
اب یہ بات تو منہوں پر نہیں لگتی کہ اسرائیلی فوج غزہ میں ایک ہی صورت حال کو مہیا کریں گے جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا یا یہ کہ اسرائیل کی سلیbach ہوگی۔
اسکرپٹ کی بات کرکے بہت زیادہ پریشانی ہو رہی ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی موجودگی کا کوئی معینہ تعین نہیں ہو سکا، ان لوگوں پر مشتمل ہونا جو اسرائیل کو اطمینان دیتے ہیں وہ وہی ہیں کہ جو کہے چاہتے ہیں، بھالے وہ بین الاقوامی فورس کی موجودگی کو قبول نہ کریں یا نہ کریں لیکن پریشانی یہ ہے کہ کیا اس میں کسی ایسی طرف کی بھی شامل نہیں کی جائے جو اسرائیل کا مطالبہ کر سکے اور وہ بھی ہوسکتی ہے۔
اس اسرائیل اور فلسطین کی سڑکی پر چل رہا جارہا ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ ان دونوں کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے ہو گیا ہے جو سار اور ایل صدر کی سربراہی میں ہوتا ہے۔ اسرائیل کا یہ فیصلہ غزہ میں غیر ملکی افواج بھیجنا ہو گا جو دوسرے ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن اچھا ہے کہ اس صورت حال میں بین الاقوامی عارضے کی بھی جانب بھیج دی جا سکتی ہے۔
اس Israelis کی بات سے تھوڑا زیادہ متاثر ہوتا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ انہیں غزہ میں کسی بھی غیر ملکی افواج کی موجودگی پر استحکام قائم کرنے کی خواہش ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ انہوں نے پہلے ہی بھارت اور Pakistan کو اپنا دوسرا ایڈجسٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اب وہ پاکستان کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صرف ان کا نومنصب ہی نہیں تھوڑا سا ہوا کے بعد بھی اسی کو پھرایا جا رہا ہے؟
اسکرپٹ میں ایسے افراد کی بات نہیں آتی جیسے غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس بھیجنا اس کا Meaning ہے کہ آپ ان تمام ممالک کو شامل کر رہے ہیں جن کی واضح رائے نہیں ہے اور وہ بھی ہنسی ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کیسے شامل کرنا پڑے گا؟ Erdogan سے لے کر Modi تک سب ان لوگوں کی طرف اشارہ دیا گیا ہے جس پر اسرائیل کو اچھی نہیں لگ رہا تھا...
اس سچائی کو انفرادی طور پر نہیں، اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ممالک جو غزہ میں اپنی فوج بھیج رہے ہیں انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرتی اور سیاسی طور پر استحکام قائم کریں، نہ کہ فوجی طور پر۔
بھارتی اور امریکی دونوں وعدے دیتے ہوئے اگر ان میں سے کوئی بھی غزہ میں اپنی فوج بھیج رہا ہے تو وہ اپنے معاشرتی اور سیاسی طور پر استحکام قائم کرسکے، نہ ک۹ ان کی فوج کو صرف غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
پاکستان کو بھی اس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی اور سیاسی طور پر استحکام قائم کرسکے اور فوجی طور پر غزہ میں شامل ہونے سے پہلے اس بات کو سمجھ لے کہ وہ کیسے استحکام قائم کر سکتا ہے؟
اسرائیل کی پہلی واضح بات ہے کہ اس نے گزشتہ 2 سالوں میں اپنے شہر پر قبضہ کر لیا ہے، اور اب اس نے ان ممالک سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی فوج بھیج رہا ہے تو وہ غیر منصفانہ اور غیر معترفہ ہوگا۔ یہ بات بھی کہتی ہے کہ اسرائیل غزہ میں صرف ایسی فوجی فورس کی اجازت دی گی رہی ہے جس میں اس کو اطمینان ہو۔
اس وارننگ کو سن کر تو بتا دیتا ہوں کہ ایک بار پھر وہ اپنی فوج کوا غزہ میں بھیج رہے ہیں، یہ بات تھی جس پر سبھی نے پہلے ہی گھوڑا گیت کیا تھا، اب تو اسرائیل کی جانب سے ایک نیا وارننگ آ رہا ہے اور یہ بات بھی تھی کہ غزہ میں کوئی غیر ملکی فوج بھیگی۔
وہ لوگ جو اس سے مخالف ہیں انہیں لگتا ہے کہ یہ تین جہت پر مائل ہوا ہے اور ایک بار پھر وہ لوگ جنہوں نے اسے منہ سے لیتا تھا اب تو اس کی تھیم بھی بدل گئی ہے، یہ بھی بات قابل خیال ہے کہ آئی ایس آف اسرائیل نے بتایا ہے کہ پاکستان کے فوجی استحکام میں شامل ہوسکتے ہیں، یہ تو پوری طرح سے دیکھنا پڑے گا کیوں؟