’قوات الشعبیہ‘ کے جانشین نے حماس کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا
غزہ کی پٹی میں ’قوات الشعبيہ‘ کے کمانڈر یاسر ابو شباب کی ہلاکت کے بعد ان کے نام سے غسان الدہینی نے اپنی قیادت کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق اس سے پہلے حماس کے خلاف لڑائی میں آخری دم تک نظر آئی گی۔
غزہ کی پٹی کی جنوبی علاقہ رفح میں یاسر ابو شباب کو 3 دسمبر کو ایک تنازع کے دوران مارا گیا تھا جب وہ جنگ بندی کے دوران شانت بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور ان کی اس کامیابی سے پہلے وہ فوجی سرگرمیوں پر پابندی لگا چکے تھے۔
غسان الدہینی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد حماس کے خلاف لڑیں گے اور یہ طاقت وہی ہے جس کے ساتھ وہ اب تک لڑیں گے اور جب تک یہ بچے نہ ہوں، حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے تک ان کا تعلق نہیں ٹھوسہگا۔
غزہ کی پٹی میں ’قوات الشعبيہ‘ ایک مسلح گروہ ہے جس کے بڑے حصے اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہیں اور یہ سرگرمی امریکا کی سرپرستی میں 10 اکتوبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے جاری ہے۔
غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد حماس کے خلاف لڑائی میں غسان الدہینی نے کہا کہ ’جبکہ وہ اُن بچوں کا تعلق رکھتے ہیں جنہیں ان کے والدین نے اُس وقت ایسے وارنر کھونے پر مجبور کیا تھا جس کے بعد انھیں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔‘
میں غسان الدہینی کی بات سے متفق ہوں لेकن وہ اس کی پوری جدوجہد کے لیے وقت اور وسائل کی کافی کمی ہے، انھیں یہ سمجھنا چاہئے کہ حماس ایک بڑا اور متعین قوت ہے جس کے ساتھ وہ لڑنے کی طاقت نہیں ہوسکتی، انھیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی جانب سے سرگرمیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں گی
غزہ کی پٹی میں یسیر ابو شباب کی ہلاکت سے اب بھی بھارپور غم محسوس ہو رہا ہے اور ان کے جانشین غسان الدہینی نے حماس کے خلاف لڑائی کا اعلان کرنا ایک ایسا اقدام سمجھتا ہے جو ان کی قیادت اور ان کی واضح تصورات سے ملا جاتا ہے۔
جبکہ یہ بات حقیقی طور پر متعقب نہیں ہو سکتی کہ غسان الدہینی یسیر Abu SHABAB ki جائیدادی قوتوں کی ہم میں ہے ان کے نام سے ان کا قیادت اور انھیں حماس کے خلاف لڑائی کے لیے ایک ایسا سٹریٹجیک پلیٹ فارم بنایا جا رہا ہے جو غزہ کی پٹی میں یہ نئی طاقت بننے کی طرف لے جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی حماس کے خلاف لڑائی میں انھوں نے کہا کہ وہ اب تک جس طاقت کی کامیابی حاصل کر رہے ہیں وہی ہے اور یہ آج تک بچوں کو ایسی سے جنگ میں لانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو انھیں ہر وقت پہلے جب وہ اپنی بہن بھائیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو اُس وقت کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔
اس نئی طاقت کی جانب دیکھا جائے تو اس کے ذریعے غزہ کی پٹی میں یہ نئی طاقت بڑھ رہی ہے اور یہ 10 اکتوبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے سے قبل سے سرگرمیوں کا مشق کر رہی تھی، اس لیے یہ بھی حقیقی طور پر متعقب نہیں ہو سکتا کہ غسان الدہینی اور ان کی قیادت کے تحت یہ طاقت اُس وقت تک پہنچ جائے گی جب وہ بچے ہو کر اپنی والدین کو ہمیشہ سے یہ بات بتا رہے ہیں کہ اب ان کے والدین کی مدد نہیں مل سکتی۔
عشق کرنے والوں کے لئے ایک سچا خुशامتی ہوا ہو گی اور وہ سب اس نوجوان غسان الدہینی کی طرف اشارہ کرنے لگتے ہیں جس نے اس ماحول میں اپنی پوزیشن قائم کی اور ان کو یقیناً حماس کے خلاف لڑائی میں دھکیل دیں گے اور وہ سب ان کی ایک نئی قیادت کو مدیح کریں گے جو اس نوجوان غسان کو اپنے ساتھ لایا ہے...
بہت دیر سے اس بات کی آواج آ رہی ہے کہ ’قوات الشعبیہ‘ ایک پوری اور قوی فتوح کا آغاز کرنے والا ہے اور اب غسان الدہینی نے حماس کے خلاف لڑائی کی وعدہ کی ہے تو یہ واضع تھا کہ یہ دوسرے گروپوں کے مقابلے سے زیادہ قوت وارز ہیں۔
یسرائیل کی پالیسیوں سے ان بچوں کو کتنی مہنگائی آ جاتی ہے... اس غسان الدہینی کی رشک کا ایسا لہجہ ہے جیسے وہ انھیں جان سکتا ہو ، انھوں نے جو کہتا ہے وہی بھی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایسے گروپوں کے ساتھ ہوا نہیں ہوتی جو بے پناہ طاقت اور منصوبہ بندی پر منحصر ہوتے ہیں، غسان الدہینی کو شکرالعالیں دئیے۔ وہ یقیناً ایک گروپ کے قائد ہوں گے جس کا مقصد اسے ختم کرنا ہے، لیکن یہ بات پتہ چل گیی کہ ان کے پاس کیا فائدہ ہے?
اس صورتحال کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں لڑائیوں کی پائپ لائن نہیں ٹھیسہ گئی ۔ ان تمام لوگوں کی جان اور تحفظ کا خیال رکھنا چاہیے اور ایسے سلوک کو یقینی بنانے پر غenan الدینھی کو توثیق دینا چاہیے جس سے ان تمام لوگوں کا اعتماد پیدا ہو۔
جس سے پہلے یاسر ابو شباب کی ہلاکت ہوئی تھی وہ دیر سے مارا گیا ہوگا اور اس کے بعد غسان الدہینی نے لڑائی شروع کر دی ہوگی یہ بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ تین سال قبل جب فوجی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی اور ان کی کامیابی سے قبل وہ مارچ کر رہے تھے ۔
اس کے بغیر یہ کہتے ہیں، ایک شخص کے وارثوں اور اس کے بچوں کی سرزمین پر فوجیوں کی جانب سے لڑائی جاری رہتی ہے تو یہ صرف پھیلاؤ اور ناکام ہوتا ہے، اگر ایک شخص اپنی قیادت کا اعلان کررہا ہے تو وہ اپنے بچوں کی مٹی میں بھی پتلا ہو سکتا ہے، یہ رائے یہ نہیں کہ غدیر الدین کو (غزہ کی پٹی کے قادروں) کس بات سے اترنا چاہئے لیکن اس پر ہر کس کی نظر پڑتی ہے، فوجی سرگرمیوں میں آڑ لگنے سے پہلے انھیں اپنی زندگی کا ایک معاملہ بنائی جانا چاہئے،
عجیب عجیب بات یہ ہوئی کہ غzan aldini ki kahaani sunkar maine socha hai yeh duniya sach mein kitni bura hai? woh aik gharwala the, uski beti ko Israeli fauji ne mar diya, ab woh apne bachon ko kahan se le jayega? mujhe lagta hai wo akele ho gaya hoga. maine apni patni ko bhi sunaya hai yeh kahaani, aur vah bilkul agree nahi kar rahi .
اس کے بعد سے غزہ میں ایک ایسا موازنہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ سوشل میڈیا پوسٹ دیکھنا کچھ لگتا ہے، یہ کہ یہ ایک ایسی نئی لڑائی ہے جس میں اور جو لڑ رہے ہیں ان کی جان کو چاہتے ہیں؟ غزہ سے اسرائیل کے انخلا کے بعد یہ سب تو بھی پچتاس ہو رہا ہے، اور یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ایک نئی طاقت کو جسمانی طور پر فٹ کرنا بھی پھر سے ایسی طرح کی دیکھنے کو ملیگی۔ غسان الدہینی نے بھی یہی بات کہی ہے، لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ اُسے تھوڑا سا ایسے معاملات کو سمجھنا چاہیے جو اس کی بات کو کمزور نہ بنائے ۔
اب یاسر Abu Shabab کی ہلاکت کے بعد غسان الدہینی نے حماس کے خلاف لڑائی میں آخری دم تک نظر آنے کا اعلان دیا ہے! مجھے یہ بات تازگی سے آتی ہے کہ غزہ کی پٹی میں لڑائیاں بہت زیادہ خوفناک ہوسکتی ہیں اور یہ بات تو با قید و جیل گروپوں سے آتی ہے کیونکہ ان کا مقصد فوجی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر شانت بنانے میں آٹھا پکڑتا ہے!
تمہیں یہ سچ رہا ہوگا کہ غزہ میں حماس کے خلاف لڑائی ایک دوسرے سے منسلک نہیں ہوسکتی ہے، پھر بھی غسان الدہینی کی باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ طاقت وہی ہے جس کے ساتھ اب تک لڑیں گے، لیکن اس میں ایک حقیقت کو نہیں دیکھا جارہا ہے کہ یہ طاقت کو کبھی پورا نہیں ہوا گیا۔
عسکریت پسندوں کی ایسی تحریک ہوتی ہے جس میں وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں مگر ان کی ایسی تحریک کو ہمیشہ طاقت اور جوش کے ساتھ لاتھا جانا پڑتا ہے۔ غزہ میں یسیر ابو شباب کی ہلاکت کے بعد غسان الدہینی نے حماس کے خلاف لڑائی میں آخری دم تک نظر آنے کی بات کی اور اس سے پہلے بھی انہوں نے اپنی قیادت کا اعلان کیا تھا۔
اس کے لیے غزہ کا ایسا ماحول ہوتا ہے جہاں لڑائی کی پریشانی سے سچائی اور جدوجہد کو اور بھی اہمیت ملتی ہے، یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں خوف و ہلاکت کے ساتھ ساتھ طاقت کی کوشش کرنا پڑتا ہے۔
اس لڑائی کو بھی دیکھنے والے لوگ یہ سوچنے لگے کہ یہ کس طرح ایک مسلح گروہ نے اپنی قیادت کی واضح بات کی ہے اور انہوں نے ساتھ دوسرے افراد کو بھی اپنے معشق میں شامل کیا ہے۔