جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری غزہ میں ہلاکتیں 70 ہزار سے متجاوز

فضا نورد

Well-known member
70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہلاکتوں کی تعداد ایسے دور پر پہنچ گئی ہے جبکہ فلسطینی شہر غزہ میں اسرائیلی حملوں سے دو بچے لاشین لائے گئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہلاکتوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ فلسطینی شہر غزہ میں اسرائیلی حملوں سے دو بچے لاشین لائے گئے ہیں۔

سورکھالہ اور کے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 10 اکتوبر کو موثر ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے ہلاکتوں کے سلسلے میں تیزی آئی ہے۔

فلسطینی ادارہ صحت نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد حال ہی میں پہنچ گئی ہے اور وہ اس وقت تک کی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے بعد جنگ بندی ہوئی تھی۔

اس جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر حملے کے بعد ہوا تھا۔

غزہ کے جنوبی علاقے میں واقع نصر ہسپتال کے اہلکاروں نے بتایا کہ ہسپتال میں جن دو بچوں کی لashiں لائی گئیں ان کی عمریں اٹھ اور 11 سال تھیں اور وہ دونوں بھائی تھے اور وہ اس وقت نشانہ بنے جب اسرائیلی ڈرون نے بینی سہیلہ کے علاقے میں ایک سکول کے قریب حملہ کیا۔

دوسری جانب اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ جن دو افراد کو ہلاک کیا گیا وہ اسرائیل کے کنٹرولڈ علاقے میں گھسے ان کی سرگرمیاں مشتبہ تھیں اور وہ فوجیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔

دوسری جانب حماس نے ایک بار پھر ثالثوں پر زورد دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ایسے حملوں سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں اور ان کو جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
 
یہی بھی ہو رہا ہے نہ کچھ اور بھی ہوا تو نہیں، یہاں تک کی نہیں، فلسطینی شہر غزہ میں اسرائیلی حملوں سے دو بچے لاشین لائے گئے ہیں اور 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہلاکتوں کی تعداد اب یہاں تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد جنگ بندی ہوئی تھی... ہر وقت نئی ایسی رپورٹ آتی ہے۔
 
یہ واقعتاً ایک غضبانی صورتحال ہے، 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہلاکتوں کی تعداد ایسے دور پر پہنچ گئی ہے جس کا جواب نہیں دیتا کہ یہ کیا چل رہا ہے? فلسطینی شہر غزہ میں اسرائیلی حملوں سے دو بچے لاشن لائے گئے ہیں، یہ ایک حتّہ بھارپور دھمکی ہے...

لیکن، اس بات پر بات کرنا ہوگا کہ جبچے اور علاج یافتہ افراد کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو یہ بھی ایک دھارنی ہوا ہے، کیا ان سے کوئی بات نہیں بتا سکتی تاکہ اس پر توجہ دی جاسکے؟

جبکہ حماس کی طرف سے بھی اس صورتحال کی ایک طرف رخنا ہوگا، لیکن یہ بات بھی پتہ چلنی ہوگی کہ وہ اپنے حملوں کو روکنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
 
اس وقت جس پریشانی سے ملک و برادری کو گھر بھی نہ سکتا ہوگا اور وہ بھی سمجھ لیتا ہوں کہ ایسے بڑے پیمانے پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو ایک اور ایسا مقام پہنچانے سے نہیں سکتا جو کہ غزہ میں اسرائیل کے حملوں سے دو بچے لاش ہونے کی صورت میں ہوتا ہے اور اس پر ابھی بھی صبر نہ کر سکتا ہوں۔
 
مگر یہاں تک کہ فلسطینی شہر غزہ میں ایسے بچوں کی لاشیں لائی جاتی ہیں تو کیا ان پر کسی کو غور نہیں اٹھاتا؟ دونوں بچے بھائی تھے اور وہ ایک سکول کے قریب جانے پر اسرائیلی ڈرون نے حملہ کیا تو کیا ان کی جان کو اس قدر کم درجہ معانی دیا جاسکتا ہے؟ 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہلاکتوں کی تعداد اور فلسطینی شہر غزہ میں دو بچوں کی لashiں لانے کا یہ واقعہ ایک دوسرے سے دو چھت پر ہیں، دونوں کو انفرادی طور پر معاف کیا جاسکتا ہے لیکن کیسے؟ مگر کون تو یہ دیکھ رہا ہے اور کون تو اس بات کی پیروی کر رہا ہے کہ فلسطینی شہر غزہ میں ایسے واقعات.repeat ہوتے رہیں؟
 
یہ تو ایک ایسا دور پہنچ گیا ہے جہاں لاشوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور فلسطینی شہر غزہ میں بھی لاشیں لائی گئی ہیں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ اس جنگ کا آغاز ایک ہلچل سے ہوا تھی اور اب وہ جاری ہے۔ فلسطینیوں کو ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ اس جنگ میں ناکام ہیں۔ لگتا ہے کہ حماس نے ایک بار پھر یہاں اپنا ہاتھ لیا ہے اور اب وہ ثالثوں پر زورد دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ 😩
 
اسے بھی بدلنا چاہئیے! فلسطینیوں کو یہ سزا نہ دے رہے جو انہیں اسرائیل کی سرگرمیوں کے ساتھ دیر سے ہو رہا ہے! غزہ میں ایسے حملوں پر اٹھا ہوا ہے جیسے اسے کسی نا کسی صورت حال سے بچنے کے لیے یہ کرنا پڑ رہا ہے! دوسری جانب اسرائیل بھی ان حملوں کو جاری رکھ رہا ہے اور فلسطینیوں پر اس کے معاشرتی نظام کی بدولت یہ سزا ہو رہی ہے!
 
یہ رہا ایک بہت زیادہ گھنوسرے حالات میں ہیں جس سے غزہ شہر کے لاکھوؤں نہیں لوگ پریشان ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایسی صورتحال کو دیکھ کر ہمراہ ہوتے ہیں۔ 70 ہزار سے تجاوز کرنے والے ہلاکتوں کی تعداد یقیناً ایسے دور پر پہنچ گئی ہے جس کے بعد فلسطینی شہر غزہ میں دو بچے لashiں لائے گئے ہیں۔ یہ ایک بھی نا انصAFی کوشش کی گئی جہاں معاشرتی طور پر اس کو روکنے کے لیے پوری دنیا میں دباؤ ڈالنا چاہیے۔
 
واپس
Top